***نقل ہی اصل ہے۔***
ہماری دلی تمنا تھی کہ ہمارا کوئی ایسا نونہال بھی ہوتا جو اپنا رزلٹ لیکر
آتا اور بے شرمی سے دانت نکال کر بتاتا کہ ٹیچر نے مجھے فیل کردیا ہے۔ہم
مصنوعی غصے سے اس کو ڈانٹنے اور وہ ڈھیٹ بنا ہنستا رہتا دل ہی دل میں ہم
بھی اسکی معصومیت پر صدقے واری جاتے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ہمارے بچے
اتنے مہذب اور ادب آداب والے ہیں کہ بعض دفعہ تو ہمیں خود یہ گمان گزرتا ہے
کہ لکھنؤ سے درآمد شدہ ہیں۔
دن رات پڑھ پڑھ کر دو تو ڈاکٹر بننے کے قریب ہیں۔
ڈاکٹر فرحین فورتھ ائیر ڈاکٹر مزمل تھرڈ ایئر۔
ایک لوگوں کے منہ سے دانت نکالے گا دوسرے کا ارادہ انکے دل نکالنے کا ہے۔
ھماری خواہش ہے کہ کوئی ہونہار ایسا بھی ہو جو لوگوں کی جیبوں میں سے نوٹ
نکال لے۔
ہم جب بھی مزمل میاں کو امتحانی مرکز پر چھوڑنے جاتے تو دیکھتے کہ اکثر
طلبہ نقل کی تیاریوں میں مصروف ہیں ہمارے ننھا سا دماغ اکثر یہ سوچ کر
فکرمند رہتا کہ آخر یہ سارا STUFF کہاں جاکر کھپے گا۔ ایک دن بات سمجھ آئی
کہ چونکہ عقل والے ہی نقل کرسکتے ہیں لہذا ان نقالوں میں سے جو ہوشیار اور
چالاک ہیں وہ جلد ہی کسی کام دھندے سے لگ جائیں گے اور نوٹ کمانے لگیں
گے۔۔چائنا کی روشن مثال ہمارے سامنے ہے۔۔
ہمارے ماموں رحمتہ اللہ فرما یا کرتے تھے کہ گلی محلہ میں جو لڑکے سارا دن
کھیلتے کھودتے ہیں لڑتے جھگڑے ہیں گالم گلوچ کرتے ہیں لڑ کر پھر صلح کرلیتے
ہیں یہی بڑے ہوکر کامیاب بزنس مین بنتے ہیں ۔وہ اوائل عمر میں ہی یہ راز پا
جاتے ہیں ک لوگوں سے کیسے ڈیلینگ کی جاتی ہے۔
جس نے لوگوں سے معاملات طے کرنا سیکھ لیا سمجھیں کاروبار کرنا سیکھ لیا ۔
کاروبار کرنا سیکھ لیا سمجھیں پیسے کمانا سیکھ لیا۔
پھر ہوں گی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہئ میں ۔
پیسے کمانا بھی بالکل ایک طرح کا ٹیکنیکل کام ہے۔یہ ایسا ہی ہنر ہے کہ جیسے
مکینک پلمبر الیکریشن اپنے کاموں میں مہارت رکھتے ہیں ۔پیشہ کمانا بالکل
ایسا ہی ہے جیسے بغیر چابی کے تالا کھولنا ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح
تالے چابی والا ایک تار کی مدد سے تالا کھول لیتا ہے ۔ایک بار ٹیکنیک سمجھ
آگئی بس پھر ہر تالا کھلتا چلا جاے گا۔بڑی سے بڑی تجوری چین کی ہو یا جاپان
کی تالے چابی والے کے سامنے کھلونا بن جائے گی۔
اس طرح ایک بار پیسہ کمانے کی ٹیکنیک سمجھ آجاے بس پھر پیسے سے پیسہ کمانا
کچھ دشوار نہیں ۔
دل کی بات کہوں تو بعض دفعہ بڑے بڑے سیٹھ صاحبان بھی کھانا کھاتے ہوے جب
بولتے ہیں تو ہمیں انکی شکل بالکل تالے چابی والے جیسی ہی لگتی ہے۔
ہنر سیکھنے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں کوئی کم عمری میں ہی طاق ہوجاتا ہے
اور کوئی ساری عمر گنواں کر بھی کورا ریتا ہے۔
ہمارے ابو جی نے ہمیں بھی تالا چابی کا کام سیکھنے پر لگایا تھا مگر ہماری
نااہلی ہے کہ ابھی تک تالے میں تار ڈال کر اسے کھولنے کی جدوجہد میں لگیں
ہیں لیکن تالا اتنا ڈھیٹ ہے کہ کھلتا ہی نہیں بلکہ اب تو ہمیں دیکھ کر
زیر لب مسکراتا بھی ہے۔
تفنن برطرف بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود کا بھی موقع فراہم
کریں۔بچوں کو ہر وقت پڑھائی کی فکر نہ دلائیں ۔نہ خود ٹینشن لیں نہ انکو
ٹینشن کا مریض بنائیں ۔امتحان میں فیل ہونے کا خوف نہ دلائیں ورنہ ناکامی
کا خوف ہمیشہ کے لئے انکے دل میں بیٹھ جائے گا اور وہ زندگی بھر کسی انجانے
خوف میں مبتلا رہیں گے۔
بچہ اگر چاق و چوبند ہے ۔پھرتیلا ہے ۔تو بس خیر ہے ۔
اںشا اللہ کسی بھی وقت کلک کرجائے گا۔
کامیابی اور ناکامی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یہ ناکامی کا خوف ہی ہوتا ہے
جوکہ انسان کو آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے اس لئے ہر خوف کو اپنے دل سے مٹا
دیں جب تک گریں گے نہیں تو سنبھلیں گے کیسے۔
بھارت کے شہر بھوپال میں چند روز بیشتر دلچسپ واقعہ پیش آیا جب ایک سیٹھ
غالبا انکا نام چنر گپت موریہ ہوگا۔ان کا بیٹا میٹرک کے امتحان میں فیل
ہوگیا ۔اس کو ڈانٹنے اور سرزنش کے بجائے چندر صاحب نے پورے محلے اور دوست
احباب کی شاندار دعوت کر ڈالی اور سب کو مخاطب کرکے کہا کہ بے شک میرا بیٹا
امتحان میں ناکام ہوگیا ہے مگر میرے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔اصل بات
یہ ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔مجھے بہت عزیز ہے۔اس نے محنت کی امتحان دیا ،کوشش
کی۔پاس ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں نہ تھا۔مجھے کوئی غم نہیں ۔ اگر
ہم نے اپنے بیٹے کی اس مشکل وقت میں حوصلہ افزائی نہ کی تو یہ احساس کمتری
کا شکار ہوجائے گا ۔ زندگی کے کٹھن معاملات سے نبرد آزما نہیں ہوسکے گا۔
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو مقابلے کے لئے تیار کرنا ہے کیونکہ زندگی تو
سراپا امتحان ہے۔
بچوں کو جیتنا سکھائیں اپنے حق کے لئے لڑنا سکھایئں۔
شھسوار اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا لڑے گا جو گھٹنوں کے بل چلے گا |