اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی کی

ہمارے خیال میں زندگی کی سب سے بڑی خوشی کامیابی ہے ۔
کامیابی ان منازل کو بخوبی طے کرنے میں مضمر ہے کہ جن کو پانے کی آرزو دل میں ہو ۔آدمی اپنے لئے کوئی سنگ میل متعین کرتا ہے پھر اس کے حصول کیلئے جدوجہد کرتا ہے ۔اور جب وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے تو کچھ پالینے کا احساس اسے ایک عجیب پرکیف جذبے سے سرشار کردیتا ہے۔یہ ہی سچی خوشی ہوتی ہے۔

اگر ہمت کا عزم ہو تو قدم موجوں پر پڑتے ہیں اور اللہ کا کرم شامل حال ہوجاتا ہے۔

زندگی میں کسی سنگ میل کو طے کرنا اور پھر اس کو عبور کرنا انسان کو وہ اعتماد اور توانائی فراہم کرتا ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔زندگی میں (Acheivments) کامیابیاں ایک ایسے زینے کی طرح ہیں کہ جس پر سیڑھی بہ سیڑھی چڑھتے چلے جائیں تو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا جاسکتا ہے ۔
کامیابی کی کنجی حوصلہ افزائی میں پوشیدہ ہے۔حوصلہ افزائی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔انسان فطرتا ستائش پسند ہے۔۔
ہماری نظر میں ٹیلنٹ کو appreciation نہ دینا اس کو قتل کردینے کے مترادف یے۔
اایپریسیشںن پاکر دل میں کچھ مزید بہتر کی خواہش نمو پاتی ہے۔
جس طرح photosynthesis کے عمل کے دوران ہوا پانی اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ،آپ کتنی ہی اچھی کھاد اور مٹی ڈال لیں ، پودا رعنائی نہیں پائے گا مرجھایا سا ہی رہے گا مگر جیسے ہی سورج کی بھرپور تمازت پائے گا ، جھوم اٹھے گا اس کی ڈالی ڈالی میں غنچے مہکنے لگیں گے پھول کھلکھلانے لگیں گے ،بالکل اسی طرح اگر بچوں کی قدم بقدم حوصلہ افزائی کی جائے انکے اچھے کاموں کو ستائش بھری نظروں سے دیکھا جاے تو وہ زندگی میں بھرپور کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں ۔
بچے ایک نا تراشیدہ ہیرے اور اچھے اساتذہ جوہر شناس جوہری کی مانند ہوتے ہیں جو بچوں میں چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیتے ہیں ۔ ان کی بروقت راہنمائی اور حوصلہ افزائی انھیں" کوہ نور " کی طرح نایاب بنا دیتی ہے۔
ناچیز جب دسویں جماعت کا طالبعلم تھا تو ہمارے اسکول میں اسلامیات کے ایک استاد ہوتے تھے سر لئیق احمد ۔سر لئیق اسم بامسمی تھے ۔ سدا بہار اور دل آویز شخصیت ۔
ائک روز وہ قرآن ناظرہ کا ٹیسٹ لے رہے تھے ۔ہماری جب قرات سنی تو حیران رہ گئے ۔بہت شاباش دی پھر فرمانے لگے کہ آپ کو صبح اسمبلی میں تلاوت کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بچوں کو علم ہوسکے کہ قرآن مجید کیسے تلاوت کیا جاتا ہے ۔عشروں گزر گئے مگر ان کے یہ ستائشیی کلمات آج بھی ہمارے لیے آسکر ایوارڈ سے کم نہیں ۔آج تک ہم خود کو قاری عبدالباسط سے کم نہیں سمجھتے۔
بچہ جب اپنا پہلا قدم زمین پر رکھتا ہے تو والدین کی خوشی دیدنی ہوتی ہے ماں باپ کا پیار اور انکی توجہ پاکر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بچہ چند ہی دن میں دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
اسی طرح جب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ اگلے مقابلوں میں مزید اچھے نتائج دیتے ہیں ۔
دفاتر میں اسٹاف کی کارکردگی بھی داد و تحسین پاکر بہتر سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہمارے یہاں شاعر اور ادیب حضرات بھی اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے جب تک اپنے ایک ایک جملے شعر کی کئ کئ بار داد نہ پالیں ۔
آپ کی داد و تحسین ہی سے بیوٹی پارلرز کا کاروبار چل رہا ہے ورنہ اچھی بھلی عورت کو ڈریکولا بنا دیتے ہیں۔ یہ بات ہم نے ازراہ تفنن کہہ دی سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اہم ترین بات گھروں میں ہماری خواتین جو دن رات گرمی و سرد موسم کی پرواہ کئے بنا ہمارے لذت کام و دہن کے سلسلے میں مصروف کار رہتی ہیں ۔ان کی محنت کا کوئی صلہ تو ممکن ہی نہیں ہے لیکن اگر ہم رزق دینے والے رب کا شکر اور بنانے والے کا شکریہ ادا کردیں اور زائقے کی تعریف کردیں تو دیں اور دنیا دونوں میں سرخرو ہوں گے۔
قصہ مختصر کبھی کچھ اچھا لگے تو تعریف کرنے میں میں بخل نہ کریں ۔آپ کی ذرا سی (Appreciation ) پذیرائی آپ کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شامل افراد کے لے قوت بخش سپلیمنٹ کا درجہ رکھتی ہے۔
ان کو دوڑتے رہنے دیجئے انکے دوڑ میں شامل رہنے ہی میں آپ کی جیت کا مزہ پنہاں ہے۔

مقابلے کے بعد ہی ہے جیت کا مزہ
سخت ہو مقابلہ تو اور مزہ ہے

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.