والدین کی کمی

اسلام وعلیکم!
والدین کی شان پہ لکھنے کی میری اوقات تو نہیں مگر آج میرے قلم نے یہ ہمت ضرور کی ہے کہ جنہوں نے مجھے قلم پکڑنا سیکھایا اور جنکی وجہ سے مجھے حرفوں کو سمجھنا آیا میں انکے بارے میں کیسے نہ لکھوں, شاید آج بھی میرا قلم والدین کی شان نہ بیان کرتا اگر مجھے والدین کی کمی اور انکی قدر انکے جانے کے بعد نہ ہوتی کیونکہ جب تک انکا سایہ ہم پر ہوتا ہے ہمیں اس سایہ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا.یہ سچ ہے کہ والدین کی کمی کبھی کوئی پوری نہیں کر سکتا. آج روتا ہے یہ دل ک کاش اپنے ابا کی باتوں اور انکی قدر کی ہوتی کیونکہ میرے ابا ایک وہ کتاب تھے جسمیں سارے مضامین ایک ہی جگہ موجود تھے جب بھی کسی مضمون کو پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہوا تو ابا اور انکی لغت نے ہر دشواری کو دور کر دیا, کبھی زندگی اتنی مشکل لگی ہی نہیں کیونکہ انکے کندھوں نے ہمیشہ ایک ایسا سایہ بخشا کہ اسکی چھاؤں نے ہر تپش کو ٹھنڈک میں بدل دیا ..وہ ابا اور اماں ہی ہو تے جو اپنی اپنی بیٹیوں کو زمانے کی گرم اور سرد ہواؤں سے محفوظ رکھتے ہیں...

آج اماں کی لاڈلی اس دنیا کی خودغرض رشتوں میں ماں اور باپ کا بےلوث رشتہ ڈھونڈ تے ڈھو نڈتے تھک گئی مگر کوئی بھی اس رشتے کا ثانی نہیں ملا اور نا ہی مل سکتا ہے, اب کہاں ماں کا وہ پیار اور باپ کی وہ شفقت...والد واقعی ایک سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے اپنی اولاد کے لئے اور ماں کا آنچل آنسوؤں کو پوچھنے کیلئے, ماں کی گود دنیاکی شکایت کرنے کے لئے.... مگر اب نا ہی وہ درخت ہے, نا ہی وہ آنچل اور نا ہی ماں کی وہ گود.... اب تو بس انکی یادیں ہیں اور میرے آنسو ہیں ..

زندگی اتنی سنگدل ہوگی یہ تو ہمیں معلوم ہی نا تھا یہاں اتنی خودغرضی ہوگی یہ تو ہمیں گمان ہی نا تھا
اپنے سگےاچانک غیر ہو جائینگے ,نام لینے سے بھی کترانے لگ جائینگے

والدین کیا ہوتے ہیں یہ بھائی بہن ہی بتائیں گے

دکھ درد میں جان سےعزیز رشتے ایسے انجان بن جائینگے

 

Arshia Hussain
About the Author: Arshia Hussain Read More Articles by Arshia Hussain: 2 Articles with 1402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.