جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد مولوی صاحب ملک و قوم کی
سلامتی ،خیر و آفیت کی دعا کرنے لگے دعا ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ کانوں کے
پردے تک ایک تھر تھراتی ،کپکپاتی ،بلبلاتی آواز آنے لگی ’’میں مانگنے والا
نہیں۔۔۔ ‘‘’’میں مانگنے والا نہیں۔۔۔‘‘اﷲ کے واسطے میری مدد کردو۔لوگوں کی
بھیڑ میں اس شخص کی صرف آواز سنائی دے رہی تھی جیسے ہی قریب پہنچا تو دیکھا
کہ ایک شخص زاروقطاررورہا ہے اور کہہ رہا ہے ’’کوئی بھائی میرے گھر کا
کرایہ دیدے میرے ساتھ چلے مالک مکان نے مجھے بہت تنگ کیا ہوا ہے وہ کہتا ہے
کہ اس مہینے کرایہ نہ دیا تو سامان اٹھا کر باہر پھینک دونگا۔‘‘خدارا کوئی
بھائی میرے ساتھ چلے میں آٹا نہیں مانگتا ،میں گھی نہیں مانگتا۔میں میری
بیوی اور 3جوان بیٹیوں کے سر پر ایک چھت ہے وہ بھی چھن گئی تو میں کیا
کرونگااور پھر زارو قطا ر رونے لگا۔۔۔
اس شخص کا رونا اس قدر گہرائی طلب تھا کہ جیسے نونہال بچے کو دودھ نہ ملے
تو و ہ اسطرح روتا ہے کہ ماں کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور وہ اپنے بچے
کے دودھ کیلئے فوراً انتظام کرتی ہے ۔وہ شخص نونہال بچے کی طرح اس طرح
رورہا تھا کہ ہر شخص کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا ۔ہر شخص اس کی مدد کرنے
لگاجب سب چلے گئے تو میں نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟آپ کی
باتوں سے لگا آپ خود دار شخص ہیں تو پھر یہ سب کیسے۔۔۔۔؟
وہ کہنے لگا بیٹا میں نے ساری زندگی مزدوری کی ہے فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا
میں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا میں ایک کرایہ کے مکان میں رہتا
ہوں دو ماہ پہلے میں کسی کام سے جارہا تھا کہ میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور
میری ٹانگ ٹوٹ گئی ڈاکٹروں نے آپریشن کا کہا تو کچھ دوستوں اوررشتہ داروں
سے قرض لے لیا ۔آپریشن تو ہوگیا لیکن میرے بستر پر پڑے رہنے کی وجہ سے کام
کا ج ختم ہو کر رہ گیا ،میری تین بیٹیاں ہیں تینوں جوان ہیں وہ مجھے کہتی
ہیں کہ ابو ہم ریڑھی پر کھڑی ہوجاتی ہیں فاقے کاٹ کاٹ کر آپ مزید بیمار
ہوجائیں گے ۔میں نے کہا نہیں بس کچھ دن کی بات ہے سب ٹھیک ہوجائے گا۔کچھ دن
گزرے تو جن جن سے قرضہ لیا تھا وہ پیسوں کا مطالبہ کرنے لگے ،پریشانی مجھ
کو پریشان کرنے لگی ۔مکان مالک بھی ایک ماہ کے بعد دوسرے ماہ تنگ کرنے لگا
اور اب تیسرا ماہ ہے وہ کہتا ہے کہ اب بھی کرایہ نہ دیا تو سامان باہر
پھینک دونگا ۔
میرا آدھا علاج ابھی رہتا ہے اور آج مجھے پانچواں دن ہے میں در در جا کر
مانگ رہا ہوں ابھی تک 2700روپے جمع ہوئے ہیں دو ماہ کامکان کا کرایہ 14ہزار
روپے دینا ہے ۔کوئی میرے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ’’میں مانگنے والا نہیں
۔۔۔‘‘لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے بھی چکنی چوپڑی باتوں کے ذریعے اس کام کو
پیشہ بنایا ہوا ہے لیکن بیٹا حقیقت تو میں اور میرا ﷲ ہی جانتا ہے ۔
بڑی بیٹی کی منگنی کی ہوئی تھی اسکو بھی کل جواب دے گئے کہ تمہارا باپ
مانگنے والا ہے اور ہم مانگنے والوں میں رشتہ نہیں کرتے ،بیٹا تم ہی بتاؤ
بُرا وقت تو کسی پر بھی آسکتا ہے اگرآج اپنے ساتھ دیتے تو میں ا س طرح مجبو
ر ہو کر مانگنے نہ آتا ۔صبح سے شام تک پیسے مانگتا ہوں کہ کرایہ کے پیسے
پورے ہوجائیں شام کو 5روٹیاں گھر لے جاتا ہوں جسے ہم پانی کے ساتھ کھالیتے
ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شخص پھر زارو قطار رونے لگا۔۔۔۔۔۔۔
اس شخص کے الفاظوں کی گہرائی نے مجھے زمین میں گاڑ کر رکھ دیا ۔۔۔۔میں نے
اس شخص کو حوصلہ دیا اور کچھ دوستوں کو فون کر کے اس کی کافی حد تک مدد کر
دی اور اس کو روانہ کیا ۔۔۔۔مدد ہوگئی ۔۔۔مدد کرنے والے نے کسی نہ کسی کو
وسیلہ بنا کر مدد فراہم کر دی۔
ایسے کئی لوگ ہیں جو ہمیں اپنے آس پاس نظر آتے ہیں جو درحقیقت مانگنے والے
نہیں ہوتے لیکن سفید پوشی میں رہتے ہوئے سفید چادریں اوڑھے صفحہ ہستی سے مٹ
جاتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب واقعات کے ذمہ دار کون ہیں؟کیوں
خون سفید ہوگئے ہیں؟کیوں احساس مرچکا ہے ؟کیوں بھلائی منہ موڑ چکی ہے ؟اﷲ
پاک اس ملک پر رحم فرما ۔۔۔ہمیں ہمارے پیارے نبی ؐ کی زندگی کے ہر پہلو کو
سمجھنے کی اور اُس پر عمل کرنے کی صحیح سمجھ عطا فرماآمین۔۔۔! |