تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
ہم نے سکولوں میں پڑھا ہے اور ہر جگہ سننے میں بھی آیا ہے کہ انسان کے تین
باپ ہوتے ہیں ان میں سے پہلا باپ وہ ہے جس کی بدولت ہم دنیا میں آئے یعنی
ہمارے والد صاحب اور دوسرا باپ وہ ہے جس کی بدولت ہم نے دنیا کا نقشہ دیکھا
کہ یہ دنیا کیا ہے ہمارے اندر دنیا کی روشنی پیدا کی یعنی ہمارا استاد یہ
ہمارا دوسرا باپ ہوتا ہے اب آپ کو بتاتا ہوں کہ انسان کا تیسرا باپ کون ہے
یہ وہ ہستی ہے جس سے ہمارا پہلے ایک تعلق پیدا ہوتا ہے پھر اس میں ایک
احساس پیدا ہوتا ہے جس سے ایک رشتہ جنم لیتا ہے اگر ہم میں احساس نہیں ہوگا
تو ہم رشتہ نبھانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد
سے واقفیت حاصل نہیں ہو گی یعنی ہم میں انسانیت ختم ہو جاتی ہے اگر ہم اپنی
انسانیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہم میں رشتوں کا احساس ہونا ضروری ہے
اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اورہمارے اندر لچک پیدا
کی ہے جس کی بدولت ہم رشتوں کو نبھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جب ہم
میں یہ احساس پیدا ہو گا تب ہمیں تیسرے باپ کی موجودگی کا احساس ہوگا
کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری نسل پروان چڑھتی ہے اسلام میں تیسرے باپ کی
حیثیت صرف اور صرف سسر کو حاصل ہے کیونکہ وہ آپ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی
خوشنودی کے لئے اپنی بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کرتا ہے اور اپنے بچوں سے بڑھ کر
آپ کی عزت کرتا ہے-
آجکل ہمارے معاشرے میں ایک ناسور بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے وہ ناسور داماد،
بہو اور سسرال کا ہے ان میں سب کا ایک اہم کردار ہے جس کو ادا کرنے سے سارے
رشتے برقرار رہتے ہیں اور ہمارے اندر کے مسائل حل ہو جاتے ہیں اگر داماد
اور بہو چاہے تو ان مسائل کو بغیر کسی پریشانی کے حل کر سکتے ہیں لیکن
ہمارے ہاں تو سسرال والوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے حالانکہ
ہمیں خیال کرنا چاہیے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کی اچھی پرورش کرکے خدا کی
خوشنودی کے لئے ہمارے حوالے کردیتا ہے یعنی شادی کر دیتا ہے لیکن اس کے
برعکس ہمیں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے اور لڑکی کے والدین کو تیسرے باپ کا
درجہ دینا چاہیے اسی طرح لڑکی کا بھی فرض ہے کہ وہ لڑکے کے والدین کو اپنا
تیسرا باپ سمجھے اور ان کی عزت کرے اسی کے ساتھ لڑکی اور لڑکے کے والدین کا
فرض ہے کہ وہ بھی اپنے داماد اور بہو کو اپنے بچوں والا مقام دیں تو زندگی
خوشگوار ہو سکتی ہے ہمارے معاشرے میں اکثر گھروں میں یہی مسائل سامنے آتے
ہیں جس کی بدولت گھروں میں لڑائی جھگڑے اور فساد برپا ہو جاتے ہیں اس لئے
ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان مسائل کو حل کرکے اپنی زندگی کو بہتر کریں
جس کی وجہ سے ہمارے اندر سکون پیدا ہو اور ہم اس رشتے کی اہمیت کو جان سکیں
اس کے لئے ہمارے اندر احساس ہونا ضروری ہے کسی بھی رشتے کو نبھانے کے لئے
اس کا احساس ہونا ضروری ہے کیونکہ احساس کے بغیر رشتہ پایا تکمیل تک نہیں
پہنچ پاتااس لئے ہم اگر ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس کریں گے تو ہمارے میں
انسانیت جنم لے گی جس کی بدولت رشتوں کا تقدس پامال نہیں ہوتا علم ہی سب
کچھ نہیں ہوتا ہمارے اندر ادب کا ہونا بھی ایک اہمیت رکھتا ہے کیونکہ علم
تو ابلیس کے پاس بھی تھا لیکن ادب اس کے پاس نہیں تھااسی لئے ہم علم تو
حاصل کرلیتے ہیں لیکن ہمارے اندر رشتوں کا ادب ہونا بھی ضروری ہے اگر رشتوں
میں ادب ہوگا تو رشتے مضبوط ہونگے - |