بسنتی ذہنیت والے حکمران اور دعائے قنوت(تیسری قسط)

نئے پاکستان کی نئی حکومت کےدورِ حکومت میں نئے آنے والے وزیراعلیٰ پنجاب اور بعض وزیر آئےدن کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ اُن کو کوئی پرواہ نہیں کہ اُن کا فرمان یا عمل دو قومی نظریہ اوراسلامی روایات سے کس حد تک متصادم ہے۔ پھر بعد میں توضیحات پیش کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں: عذر گناہ بد تر از گناہ۔

اس ملکِ پاک کی پارلیمان پر ملک کی نظریاتی اساس کی حفاظت اور اسلام کو بطور نظریۂ حیات نافذ کرنے کے لئے ضروری قوانین بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے کے زُعم میں مبتلا نا اہل اور نا عاقبت اندیش سیاستدانوں نے اس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے سر انجام نہ دیا۔ عوام ے ووٹوں پرسوار ہو کر جونہی پارلیمنٹ میں پہنچے انہوں نے اپنے کئےہوئے ہرفعل کوآئین اور قانون کی گرفت سے پانچ سال کے لئے آزاد سمجھ لیا۔ وہ حکمرانوں کی لن طرانیوں، خوشامد، نوازشات اور پروٹوکال کے حصول، کرپشن، لوٹی ہوئی دولت کو باہر بھیجنے، جائیداد یں بنانے اور کمیشن کھانے میں انتہائی مصروف ہو گئے۔ عوام کی فلاح کے کاموں سے ا ُن کو کوئی سروکار نہ رہا۔ بے حسی کی انتہا نے انہیں نوازشریف کی حکومت کی طرف سے اسلام کے خلاف وقتاَ فوقتاَ مختلف اقدامات اوربل پاس کئے جانے کے موقعہ پر بھی آنکھیں نہ کھولنے دیں۔ لمبی لمبی داڑھیوں، سر پر ٹوپیاں پہنے اور ہاتھیوں میں تسبیح لیئے ممبرانِ پارلیمان کے کان پر بھی جوں تک نہ رینگی۔ کیا نواز شریف کی حکومت، اس کی حواری جماعتیں، ممبرانِ پارلیمنٹ اور سب سیاستدان اللہ تعالیٰ کو حاضرناظر جان کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی؟ یقیناجواب نفی میں ہوگا !! نواز شریف اور شہباز شریف کی تین دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط دورِ حکومت کے دوران اسلام مخالف اقدامات کی ایک جھلک:
٭ جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی ایک عزرلنگ کی بناء پر پارلیمنٹ سے ختم کرائی گئی۔ ٭ سود کی حرمت کے بارے اللہ تبارک و تعالیٰ کے واضح احکامات کی روشنی میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف رٹ پٹیشن دائرکی گئی۔
٭ شریف برادراں کے دورِ حکومت میں تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم اور مسلم مشاہیر سے متعلق مواد جان بوجھ کر نکال دیا گیا۔ ٭ نواز شریف کی حکومت نے شیخ عبدالقادرجیلانی کی کتاب غنینتہ الطالبین پر پابندی لگائی۔ نیزاسی طرح کی اَور بے شمار کتب (خاص کر جہاد اور اس سےمتعلق لٹریچر) کی پرنٹنگ، اشاعت اور خرید و فروخت پر پابندی لگائی گئی اور اردوبازار کے کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ٭ نواز حکومت نے پیر مہر علی شاہ صاحب کی کتاب سیف چثتائی پر پابندی لگائی۔ ٭ جیلوں میں بند گستاخانِ رسالت کو پورا تحفظ اور رعایتیں دی گئیں۔ ٭ شاتمہ آسیہ کی سزا پر کئی سالوں عمل نہ ہوا۔ اسے بری کر دیا ۔ بلکہ اب تو شائد موجودہ حکومت اسے باہر بھجوادے۔ ویسے بھی آج تک کسی شاتمِ رسول کو پھانسی دینے کی بجائے بیرونِ ملک ہی بھیجا جاتا رہا ہے۔اب نئے پاکستان میں بھی اسی حکمتِ عملی پر کام ہوگا۔ ٭ گو رنر تاثیر کوکیفرِ کردار کو پہنچانے والے ممتاز قادری شہید کے خلاف درج ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کی بحالی کے لئے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی پیروی نواز لیگ نے کی۔ یہ سب کچھ اپنے غیر ملکی آقاوئں کی خوش نودی کی خاطر کیا گیا۔ ٭ سپریم کورٹ میں کئی ہزاراپیلوں کو چھوڑ کرغیر سے پہلے ممتاز قادرری کے خلاف اپیل کا نمبر لگوایا گیا۔ متازقادری شہید کو تختہٗ دار پر لٹکتے دیکھنے کی نواز حکومت کو بہت ہی جلدی تھی۔
٭ گو رنر تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزا ئے موت کے بارے نواز شریف نے صدرِ پاکستان کو بار بار خود فون کیاکہ جلد از جلد دستخط کرکے فائل واپس کی جائے۔اس کےبعد سزا پرفوراَ عمل کرایا گیا۔
٭ ممتازقادری شہید کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے آنے والوں نمازیوں کو روکا گیا۔ تاہم شہید کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں سلمان شریک ہوئے۔
٭ میڈیا کو ممتازقادری شہید کے جنازہ کی کوریج سے روکا گیا۔ ایک چینل کو ایسا کرنے پر جرمانہ بھی کیا گیا۔ بی بی سی نے پاکستانی میڈیا کی ممتازقادری شہید کے جنازہ کی کوریج نہ کرنے کو بہت سراہا۔
٭ توہین ِ رسالت کے جرم میں پھانسی کی سزا پانے والے اصغر کذاب کو اگست۷۱۰۲ میں لاہور پاگل خانہ سے نکال کر خصوصی طیارہ کے ذریعہ راتوں رات بیرونِ ملک بھیج دیا۔
٭ مساجد میں ایک عرصہ سے لگے چارچار سپیکروں کو ہٹا دیا گیا اوراُن کی جگہ صر ف ایک سپیکر کی اجازت دی گئی۔یہ نادرشاہی حکم بھی نواز شریف کی منظوری سے جاری ہوا۔
٭ نواز حکومت نے مدارس کو جہالت کی فیکٹریاں قراردیا اور اُن کے گرد گھیرا دن بدن تنگ کیا گیا۔اپنے وجود کو برقرار رکھنا اُن کے لئے بہت مشکل ہو گیا۔
٭ نوازشریف کے حکم پرتبلیغی جماعت کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی۔
٭ قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک ڈیپارٹمنٹ کا نام ملعون قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کیا گیا۔
٭ نواز شریف نے2016 اور پھر ا کتوبر 2017 میں ہندوؤں کے تہوار ہولی اور دیوالی کے موقعہ پر کراچی میں بطور وزیرِ اعظم تقریر کرتے ہوئے جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا اور واشگاف الفاظ میں یہ کہنا کہ اللہ، ایشور، واہ گرو، بھگوان، خدا، سب ایک ہی ہستی کے نام ہیں،مسلم عقیدہ کی ناپختگی پر دلالت کرتا ہے۔ اور پھر پورے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کی حسرت اور کپڑوں پر رنگ پھینکے جانے کی زبردست خواہش کا اظہار کرنا، اسلامی ملک کے مسلمان وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا تھا۔اسلام ایک ضابطہءحیات ہے، غیر مسلموں کے تہواروں پر حکومتِ وقت کا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے، بالکل واضح ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مشرکین اور یہودی وغیرہ رہتے تھے مگر مسلمانوں نے نہ تو ان کی مذہبی رسومات میں کبھی شرکت کی اور نہ ہی ا یسی خواہشات کا اظہار کیا۔کیا ہمارے عوامی نمائندوں کو مسلمان ووٹروں نے اسی لئے چنا تھا؟ کیا یہ عوامی نمائندےووٹ لینے کے بعد اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف جو چاہیں کہتے اور کرتے پھریں؟
٭ کرکٹ میچ کے انعقاد کے موقعہ پر سیکورٹی کے نام پر قدافی سٹیدیم کے ارد گرد مساجد کو تالے لگوائے گئے اور مسلمانوں کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے محروم کیا گیا۔
٭ نوازشریف نے قادیانیوں کو اپنا بھائی اورسرمایا قراردیا اوراُن کو اعلیٰ حکومتی اور غیر سرکاری عہدوں سے نوازا گیا۔ ںئے پاکستان میں کچھ حکومتی وزرا اور اعلیٰ حکام بھی اسی طرح کی سوچ رکھتےہیں۔
٭ نوازشریف کے دورِ حکومت میں 3 اکتوبر 2017 سیاسی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ انتہائی سرعت میں پاس کرائے گئے الیکشن اصلاحات بل کے ذریعہ الیکشن فارم جمع کراتے وقت عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامہ کی عبارت سے کچھ بنیادی الفاظ کو نکال کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلموں کیلئے صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، چیئرمین سینٹ یا سپیکر قومی اسمبلی بننے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔پارلیمینٹ کا یہ عمل نظریہئ پاکستان،آئینِِ پاکستان اور ریاستِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس شیطانی کام کا سہرا نااہل وزیرِ اعظم اور اس کی نا اہل مسلم لیگ اور حواری جماعتوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لٹکتا رہے گا۔ یہ واقعہ تاریخِ پاکستان کے صفحات پر محفوظ ہو گیا ہے۔حکومتی ممبرانِ پارلیمنٹ نے اپنی خفت مٹانے کے لئے جو بہانے تراشے اس پر اُن کی نالائقی اور غیر سنجیدہ رویہ پر خون کے آنسو بہانے کو دل کرتا ہے۔ تاہم بعد میں کمال ڈھٹائی سے قبیح عمل کو ٹیکنیکل اور کلریکل غلطی کا نام دے کر قوم کو بیوقوف بنانے اور جان چھڑانے کی کوشش کی گئی!! دین کے بارے اس سے بڑی ابو لہبی اور عبداللہ بن ابی والا طرزِ عمل اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ ہے نواز شریف کی طرف سے ووٹ کو عزت دو کا عملی مظاہرہ!! ٭ نواز حکومت نے عوام کے ووٹوں کے تقدس کا وعدہ کرکے آئے ہوئے ممبرانِ پارلیمنٹ کو لالچ، نوازشات کے ذریعہ اس حد تک اپنے ساتھ ملا لیا تھا کہ وہ ہر بل اور آئینی ترمیم پر آئین اور قاعدہ و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بغیر پڑھے اور غور کئے ہاتھ کھڑا کرتے رہتے ہیں؟ خواہ ایسا کرتے ہوئے ان کے ایمان کا بھی سودا ہو رہا ہواس کی بہترین مثال ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامہ میں تبدیلی کی بھونڈی جسارت تھی۔
٭ مسلم لیگی حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت خادم رضوی کے ناموسِ رسالت ﷺ احتجاجی جلوس کو لاہور سے فیض آباد چوک تک جانے دیا۔ معاملا ت کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھا اور پھر بہیمانہ تشدد اور اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں چھ افراد کی ہلاکت اور ایک سو کے قریب زخمیوں کے بعدجلوس کو اسلام آباد کی طرف دحکیل دیا گیا اورساتھ ہی فوج کو ہجو م کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تاکہ مذموم مقاصد کی تکمیل ہو سکے، فوج اور علماء کو آپس میں لڑا کر اس آگ کو سارے ملک میں پھیلا دیا جائے۔ ہمارا ازلی دشمن خوش ہو، فوج کے لئے اور محاذ کھل جائے اور نیرو کمال ہوشیاری سے بانسری بجاتا رہے۔ فوج نے نہایت عقلمندی سے حالات کو بچالیا۔ اور پھراسی فوج کے خلاف کچھ چالاک سیاستدانوں نے پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ (جاری ہے)

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 57980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.