پرنٹ میڈیا موت کے دھانے پر

تحریر شہزاد خان، کراچی
بے قرار داستان میں ترستے ہوئے صفحے کی بکھری ہوئی اس تحریر کو میرے خیال میں سکون کے حامل احباب نے کئی بار پڑھا ہوگا کہ اخباری ادارے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں یکے بعد دیگرے اخباری اداروں کے حقوق سلب کئے جانے کی روایت اس وقت زورپر ہے اورکثیر الاشاعت ادارے دن بدن لاغر مریض کی طرح بستر مرگ پر جانے کس فرشتے کے منتظر ہیں؟؟؟اخبارات میں کام کرنے والے ورکرز بے روزگار ہوکر کیا کریں گے؟؟؟ کدھر جائیں گے؟یہ سوالات تو اپنی جگہ جواب طلب ہیں ہی لیکن غور طلب بات یہ بھی ہے کہ صحافیوں کے حقوق عام شہریوں سے بھی کم ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مثبت خبروں کا راگ آلاپنے والے مفکر بھی صحافیوں کے بدترین معاشی قتل عام پر چشم فکر بند کئے بیٹھے ہیں اور اسی لئے تو حکومت بھی صحافیوں کے اخباری اداروں سے بڑے پیمانے پر اور بے ڈھنگے انداز میں نکالے جانے کے باوجود بھی مکمل سکوت پر ہی تکییہ کئے بیٹھی ہے المیہ یہ ہے کہ عوامی مسائل کی نشاندہی اور عوامی مثبت و منفی آراء کی درست ترجمانی کے دعویدار سنئیر صحافیوں کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں الفاظ موجود نہیں ہیں ایک لمحے کیلئے ہم حکومت کو اس مسئلے سے نکال کر اخباری اداروں کی جانب دیکھتے ہیں گذشتہ پچاس سے زائد برس پرانے اخباری ادارے جن میں ایسے اخباری ادارے بھی شامل ہیں کہ جنکی یومیہ انکم لاکھوں میں ہوا کرتی تھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی اخباری ادارے جو دن کے حساب سے لاکھوں روپے کمایا کرتے تھے آج ایک ناتجربہ کار حکومت کی ہلکی سی چوٹ برداشت نہیں کرسکے اور بکھلاہٹ کا شکار ہوکر اپنے ہی معاون اور مددگار لوگوں کا معاشی استحصال کربیھٹے ہیں یہاں ایک حقیقت اور بھی آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اخبارات کے بڑے بڑے مقبول نام غیر صحافی ہی نہیں بلکہ تجارت کے عادی افراد کے ہاتھوں میں ہیں موجودہ دور کے پاکستانی اخبارات کے مالکان اگر صحافت کی سوجھ بوجھ رکھتے تو سوچ ہرگز تاجروں والی نہ ہوتی بلاشبہ صحافیوں کو اپنے ہی ہم پلہ صحافیوں نے بھی حسب توفیق بے روزگاری کا تحفہ دینے میں مدد کی ہے جیسا کہ ہم سب نے دیکھا کہ ملک بھر میں اخباری اداروں کے حقوق کی بات کرنے والا ادارہ اے پی این ایس بھی کچھ نہ کرسکا اے پی این ایس، سی پی این ای کی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں اورمذاکرات بھی گمشدہ کہانیوں کا عنوان بن کر رہ گئے ۔پرنٹ میڈیا کا چھوٹا بھائی بن کر آنے والا الیکٹرانک میڈیا آج پرنٹ میڈیا کے بڑے بھائی کی حیثت تو حاصل کرچکاہے لیکن صد افسوس کہ الیکٹرانک میڈیا ناصرف پرنٹ میڈیا کی بد حالی پر خاموش تماشائی بنا رہا بلکہ الیکٹرانک میڈیا نے اہل قلم صحافی کا اپنے کمال اداکارانہ انداز میں تمسخر بھی خوب اڑایاحقوق سے یکثر محروم کثیرالااشاعت اخبارات کے پاس اس وقت سواِئے اداروں کو بند کرنے کے دوسرا کوئی راستہ نہیں بچتا جسکا صاف مطلب ہے کہ اخبارات سے وابستہ مزید ورکرز بھی بے روز گار ہونگے جن میں ''بہت سارے چھوٹے اخبارات' بھی شامل ہیں۔جن کی اشاعت مختصر ترین ہوچکی ہے اور آئندہ چند ہی ایام میں شاید یہ اخبارات بھی ماضی کا حصہ بن کر رہ جائیں۔ قارئین سوچ رہے ہونگے کہ آخر کار اخباری اداروں پر بے روزگاری کے سونامی نے حملہ کیونکر کردیا ہے؟اخبارات کو گزشتہ کئی سالوں سے ہی حکومتوں کی جانب سے محدود ترین سطح تک لانے کی کوشش کی جارہی تھی کبھی نئے ڈیکلریشن کے حصول میں پیچیدگیاں پیدا کرکے تو کبھی اے بی سی کے مراحل میں من چاہی تبدیلیاں کرکے اخبارات کو محدود کرنے کی سازشیں کی گئیں یاد رہے کہ حالات اس وقت بھی بڑے اخباری ادارے سمجھے جانے والوں کے حق میں اس قدر برے نہیں ۔اے بی سی کا پلڑا آج بھی اپنے پرائے کی شناخت کے علاوہ پیسے کا لین دین کرکے کوئی بھی اپنے حق میں مثبت ثابت کرسکتا ہے اے پی این ایس کے بھی دو الگ الگ قوانین ہیں ایک جوکہ اپنوں کیلئے ہے جبکہ دوسرا غیر سمجھے جانے والوں کیلئے ہے ۔حقائق کی شناخت آج بھی ہوسکتی ہے اخباری اداروں کی درست سرکولیشن کا اندازہ اب بھی لگایا جاسکتا ہے کہ درحقیقت ایک اخبار عوام میں کس قدر مقبول ہے اور کس درجہ غیر مقبول ہے لیکن شفاف طریقے سے جانچ پڑتال کرنے پر خود متعلقہ ادارے رضامند نہیں ہوپاتے بس فائلوں کا پیٹ بھرنے کا سلیقہ سیکھ لیاگیا ہے اور بس پیمانہ متعلقہ اداروں کی ذاتی منشا کا غلام بن کر رہ گیا ہے سرکاری اشتہارات پر بھاری کمیشن نے بھی اخباری اداروں کی کمر توڑنے میں اہم کردارادا کیا ہے

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 73070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.