صدر ٹرمپ سے قریب سمجھے جانے والے امریکی سینیٹر لنڈزی
گریم نے کہا ہے کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ملاقات ضروری ہے کیوں کہ
دونوں ایک جیسی شخصیات کے مالک ہیں اس لیے ان دونوں میں خوب نبھے گی۔
|
|
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سینیٹر نے اتوار کو اسلام آباد میں
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات ضروری
ہے اور یہ کہ 'میں صدر ٹرمپ پر زور ڈالوں گا کہ وہ جلد از جلد عمران خان سے
ملیں تاکہ افغانستان کی جنگ کا حل تلاش کیا جا سکے۔'
انھوں نے کہا کہ 'عمران خان کی وجہ سے ہمیں منفرد موقع ملا ہے کہ دونوں
ملکوں کے تعلقات کو لین دین کے تعلقات سے بدل کر سٹریٹیجک تعلقات میں بدل
دیا جائے۔'
انھوں نے کہا کہ 'یہی مجھ سے عمران خان نے کہا ہے اور میں یہ صدر ٹرمپ کو
بتاؤں گا۔'
صدر ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈزی گریم نے ان
خیالات کا اظہار وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے
ملاقاتوں کے بعد کیا۔
یاد رہے کہ سینیٹر گریم ہی کی پارٹی کے صدر ٹرمپ پاکستان کو شدید تنقید کا
نشانہ بناتے رہے ہیں۔ لیکن لنڈزی گریم نے بالکل مختلف رویہ اختیار کرتے
ہوئے کہا کہ 'عمران خان تبدیلی کی وہ علامت ہیں جس کی ہمیں تلاش تھی۔'
انھوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاشی تعاون کی بھی بات کی: 'اگر
امریکہ اور پاکستان کی معیشتوں میں انضمام (انٹی گریشن) ہو جائے تو یہ
دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور یہ بات پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو
گی۔'
|
|
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 'ہم برطانیہ سے نہیں کہتے
کہ وہ ہمارے لیے بدلے میں کچھ کرے، ہم برطانیہ کی مدد اس لیے نہیں کرتے کہ
وہ ہمیں کچھ دے گا۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے اور یہ پاکستان
اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہے۔'
انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی نوعیت یہ نہیں ہونی
چاہیے کہ اس طرح ایک اور نائن الیون سے بچا جا سکتا ہے، بلکہ اس بنیاد پر
ہونی چاہیے کہ ایسا کرنا امریکی کاروبار کے لیے اچھا ہے کیوں کہ پاکستان کی
خاصی آبادی ہے جو پڑھی لکھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اب میرا کام امریکہ میں لوگوں کو یہ یقین دلانا ہے۔'
افغانستان کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے امریکی سینیٹر نے کہا کہ 'طالبان
کو بھی مذاکرات کی میز پر کرسی ملنی چاہیے، لیکن وہ ملک کو زبردستی نہیں
ہتھیا سکتے۔ یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کہ طالبان دوبارہ ملک پر قبضہ کر
لیں۔ نہ ہی افغانوں کی بڑی تعداد ایسا چاہتی ہے۔' |