سوال(1): بیوہ عورت جواپنے بچوں کی خاطردوسری شادی نہ کرے تو کیا وہ قیامت
میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ہو گی ؟
جواب : ایسی ایک حدیث ابوداؤد ، مسند احمد ،الادب المفرد، المعجم الکبیراور
الجامع الصغیر میں موجود ہے ،ان الفاظ کے ساتھ ۔
رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:
أنا وامرأۃٌ سفعاء ُ الخدَّینِ کَہاتینِ یومَ القیامۃ وأومأ یزیدُ :بالوسطی
والسَّبَّابۃِ امرأۃٌ آمت من زوجِہا ذاتُ منصبٍ وجمالٍ حبست نفسَہا علَی
یتاماہا حتَّی بانوا أو ماتوا.
ترجمہ:میں اور بیوہ عورت جس کے چہرے کی رنگت زیب و زینت سے محرومی کے باعث
بدل گئی ہو دونوں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے(یزید نے کلمے کی اور بیچ کی
انگلی کی طرف اشارہ کیا) عورت جو اپنے شوہر سے محروم ہو گئی ہو، منصب اور
جمال والی ہو اور اپنے بچوں کی حفاظت و پرورش کی خاطر دوسری شادی نہ کرے
یہاں تک کہ وہ بڑے ہو جائیں یا وفات پا جائیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے متعدد جگہ پر ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلۃ
الضعیفۃ:1222، ضعیف أبی داود:5149، ضعیف الترغیب:1511، نقد النصوص:13)
یہاں یہ بتانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ بیوہ کا اپنے بچوں کی پرورش اور
شادی نہ کرنے کے سلسلے میں اور بھی روایات آئی ہیں مگر کوئی بھی صحیح نہیں
ہے ،
ایک روایت یہ ہے :
أنا أولُ من یفتح بابَ الجنۃِ ؛ إلا أنی تأتی امرأۃٌ تبادرنی، فأقول لہا :
ما لکِ، ومن أنتِ ؟ ! فتقول : أنا امرأۃٌ قعدتُ علی أیتامٍ لی .
ترجمہ: میں سب سے پہلے جنت کو دروازہ کھولوں گا سوائے ایک عورت کے جو مجھ
سے پہل کرے گی ، میں اس سے پوچھوں گا تم کون ہو؟ تو وہ کہے گی کہ میں وہ
عورت ہوں جو بچوں کی وجہ سے بیٹھی رہی ۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(السلسلۃ الضعیفۃ:5374)
دوسری روایت میں عرش کا سایہ پانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے:
ثلاثۃ فی ظل العرش یوم القیامۃ یوم لا ظل إلا ظلہ : واصل الرحم ، یزید اﷲ
فی رزقہ ویمد فی أجلہ ، وامرأۃ مات زوجہا وترک علیہا أیتاما صغارا ، فقالت
: لا أتزوج ، أقیم علی أیتامی حتی یموتوا أو یغنیہم اﷲ الخ۔۔
ترجمہ: تین طرح کے لوگ قیامت میں عرش کے سایہ تلے ہوں گے جب اس کے علاوہ
کوئی سایہ نہ ہوگا۔ صلہ رحمی کرنے والا ، اﷲ اس کے رزق میں زیادتی کرتا ہے
اور اس کی عمر میں درازی دیتا ہے ۔ اور وہ عورت جس کا شوہر وفات پاجائے اور
چھوٹے یتیم بچے چھوڑ جائے تو عورت کہے کہ میں شادی نہیں کروں گی ، یتیم
بچوں کے ساتھ رہوں گی یہاں تک کہ مرجائیں یا انہیں اﷲ اپنے فضل سے غنی کردے
۔
اس روایت کو شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔(ضعیف الجامع:2580)
لہذا معلوم یہ ہوا کہ بیوہ کا بغیر شادی کے رکی رہنییا بچوں کی وجہ سے شادی
نہ کرنے کی فضیلت سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے البتہ ایسی عورت کو میں
نصیحت کرتا ہوں کہ مناسب رشتہ ملے تو شادی کرلیں، اس سے عزت نفس، پاکدامنی
، مالداری اور تعاون جیسے بڑے فوائد حاصل ہوں گے ۔ شوہر کی وفات پہ صبرکرنے
سے صبر کا بدلہ اوربچوں کی کفالت کا ثواب اپنی جگہ ثابت ہے ،عنداﷲ وہ اس کا
مستحق ہو گی۔
سوال(2): اگر والد مجبورا بیٹی کی شادی بے دین لڑکا سے کرے تو بیٹی کو کیا
کرنا چاہئے اور اسی طرح اگر شادی کے بعد لڑکی کو معلوم ہوکہ لڑکا بے دین ہے
سمجھنے سے بھی نہیں سمجھتا تو ایسی صورت میں کیا کرے جبکہ دوسری طرف دونوں
سوالوں میں باپ کی عزت کا بھی سوال ہے ؟
جواب: مسلم سماج کا یہ بڑا المیہ ہے کہ بہت سے باپ اپنی لڑکیوں کی شادی
جبرا ایسے لڑکے سے کردیتے ہیں جوبے دین ہوتا ہے یاجسے لڑکی بے دینی کی وجہ
سے ناپسند کرتی ہے ۔ایسے باپ اولاد کیحق میں ظالم ہیں انہیں اﷲ کے یہاں
حساب دینا ہوگا اور یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے جن کا محاسبہ شدید ہیلہذا
باپ کو اپنی اولاد کے حق میں اﷲ سے ڈرنا چاہئے ۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ شادی
سے پہلے جب لڑکے کے بے دین ہونا کا علم ہو تو اس شادی سے انکار کرے اور اگر
جبرا والد شادی کرادیتے ہیں تو اس شوہر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے ۔
اﷲ سے ہدایت کی خوب دعا ئیں کرے ۔ معمولی دین واخلاق کی کمی ہو تو اس کے
ساتھ نباہ کی کوشش کرے ، اس کی تکلیف پر صبر کرے اور جب تک وہ مسلمان
کہلائے جانے کے لائق ہے اس کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے مگر ایسی غلطیاں (شرک
وبدعت ) کرے جن سے اسلام سے باہر ہوجاتا ہے تو اس وقت علماء سے اپنی صورت
حال کا ذکر کرکے اس کے ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں معلوم کرکے پھر اپنی
زندگی کا فیصلہ کرے ۔
سوال(3): ایک مسلمان آدمی پہلے شرک کیا کرتا ہے پھر سچی توبہ کرلیا یہاں
پوچھنا یہ ہے کہ پہلے والا سارا عمل ضائع ہوگیا یا باقی رہے گا؟
جواب : متعدد نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سارے اعمال کو ضائع کردیتا ہے
اور توبہ سارے گناہوں کو مٹا دیتی ہے ۔ اﷲ تعالی کا فرمان ہے :
وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ
السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ(الشوری: 25)
ترجمہ: وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کی) برائیوں کو
معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :التائبُ من الذنبِ کمن لا ذنبَ لہُ(صحیح ابن ماجہ:3446)
ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے سرے سے کوئی
گناہ ہی نہیں کیا۔
جب بندینے سچی توبہ کرلی ہے تو اﷲ سے حسن ظن رکھے اور اﷲ بندوں کے گمان کے
ساتھ ہوتا ہے ۔ اﷲ کی ذات سے امید ہے کہ اس نے شرک کرکے جو گناہ اکٹھا کئے
تھے اﷲ نے سب معاف فرمادیا ہے اور جب سارے گناہ معاف ہوگئے تو اسے گزشتہ
احوال کے متعلق فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،ہاں آئندہ ہمیشہ شرک وبدعت
سے بچنے کی کوشش وفکر کرے ۔
سوال(4): جو بچہ مرا ہوا پیدا ہو اس کا نام رکھ کردفن کرنا چاہئے یا بغیر
نام کے کفن دفن کردینا چاہئے ؟
جواب : نبی ﷺ نے نومولود کا نام ساتویں دن رکھنے کا حکم دیاہے لہذا جو بچہ
سات دن سے پہلے وفات پاجائے یا مردہ حالت میں پیدا ہو ایسی صورت میں نہ اس
کا عقیقہ ہوگا اورنہ ہی اس کا نام رکھا جائے گا۔ غسل وکفن دے کر اور نماز
جنازہ ادا کرکے دفن کردیا جائے گا ۔ جب بچے کا کسی سبب آپ خود اسقاط ہوجاتا
ہے ایسے بچے اگر چار ماہ بعد گرجائیں تو ان کا بھی غسل وکفن کے ساتھ نماز
جنازہ ہے لیکن جو چار ماہ سے قبل ہی گرجائیں تو انہیں بغیر غسل کے کپڑے میں
لپیٹ کر بغیر جنازہ پڑھے دفن کردیا جائے ۔
سوال(5): ایک عورت کا ایک بیٹاتھا جو اس کی زندگی میں ہی وفات پاگیا،اور
دوبیٹیاں زندہ ہیں ،ایسی صورت میں وفات پافتہ بیٹے کی اولاد (ایک بیٹا ،تین
بیٹی) یعنی پوتے پوتیاں دادی کی جائیداد میں حصہ دار ہوں گی ؟
جواب : ہاں ایسی صورت میں بیٹیوں کا بھی حصہ ہے اور پوتے اور پوتیوں کا بھی
حصہ ہے۔ بیٹی کو دوثلث ملے گا اور بقیہ میراث پوتے پوتی میں "مثل حظ
الانثین کے تحت تقسیم ہوگی یعنی لڑکے کو دہرا اور لڑکی کو اکہرا۔
سوال(6): ہندوستانی حکومت کی طرف سے کنیا دان کی ایک اسکیم چل رہی ہے کہ
بارہ سال تک ہرماہ ایک ایک ہزار روپئے پیسہ جمع کرنا ہے پھر مدت مکمل ہونے
پر شادی کے نام سے لڑکی کے اکاؤنٹ میں پانچ یا چھ لاکھ روپئے آجائیں گے تو
ایسی اسکیم میں حصہ لینا جائز ہے ؟
جواب : کنیا دان کی مذکورہ اسکیم انشورنس کا حصہ ہے اور تمام قسم کی تجارتی
اسکیم ناجائز اور حرام ہیں ۔ آپ جب اس اسکیم میں حصہ لیں گے تو اس کی اسکیم
یعنی گائڈ بک سے معلوم ہوگا کہ جب بچی کے باپ کی وفات ہوجائے یا اکسڈنٹ
ہوجائے تو فوری طورپر معاوضہ ملتا ہے بلکہ باقاعدہ کاغذات میں ایل آئی سی
کنیادان پالیسی بھی لکھا ہوگاگویا یہ بیمہ کی ہی قسم ہے اور یہ ناجائز ہے
مسلمانوں کواس میں حصہ لینا جائز نہیں ہے ۔
سوال(7): بیٹی کا عقیقہ ہے میں نے دو جانور خریدا ہے کیا ان دونوں کو ذبح
کرتے وقت عقیقہ کی دعا کرنی ہے ؟
جواب : لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کرنا مسنون اور کافی ہے،دوسرا بکرا
ذبح کرنا بطور فخر ہو تو آدمی گناہگار ہوگا اور عقیقہ میں دعوت کھلانے کے
مقصد سے ہو تاکہ کھانے والوں کا صحیح سے انتظام ہوجائے تو اس میں کوئی حرج
نہیں ہے ۔دونوں جانورذبح کرتے وقت اﷲ کا نام لے لینا یعنی بسم اﷲ اکبر کہہ
دینا کافی ہییا یہ دعا پڑھیں :"بسم اﷲِ واﷲ أکبرُ ، اﷲم لک وإلیکَ ، ہذہ
عقیقَۃُ فلانٍ"۔
سوال(8): دیت کی تقسیم کیسے ہوگی ؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے :إنَّ العقلَ میراثٌ بینَ ورثۃِ القتیلِ علی
قرابتِہم، فما فضلَ فللعصبۃِ (صحیح أبی داود:4564)
ترجمہ: دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم
ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے۔
یہاں عقل سے مراد دیت ہے۔یہ حدیث دلیل ہے کہ دیت بھی بقیہ ترکہ کی طرح ہی
میراث کے اصول کے تحت تقسیم ہوگی یعنی پہلے میت کا قرض چکایا جائے گا اور
اس نے کسی غیروارث کے لئے کچھ وصیت کی ہو تو اس کا نفاذ عمل میں لایا جائے
پھر وارثین پر تقسیم کی جائے گی ۔
سوال(9): کیا عورت اپنے اپنے گھروں میں اسپیکر سے آنے والی آواز کے تحت
امام کی متابعت میں نماز ادا کرسکتی ہے یا کسی جگہ تمام عورتیں جمع ہوجائیں
اورامام کی متابعت میں نماز ادا کریں تو درست ہے؟ ۔
جواب : یہ مسئلہ اختلافی ہے ، بعض علماء مثلا شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ وغیرہ
نے اس شرط کے ساتھ گھر میں امام کی متابعت میں نماز ادا کرنے کو درست کہا
ہے جب مسجد سے لیکر گھر تک صفیں متصل ہوں ورنہ امام کی اقتداء درست نہیں ہے
۔ مردوں کو نبی ﷺ نے مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ازواج
مطہرات کا گھر مسجد نبوی سے متصل تھا پھر بھی انہوں نے آپ ﷺ کی اقتداء میں
اپنے گھروں میں نماز نہیں ادا کیں جس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی امام
کی متابعت میں اپنے گھروں میں نماز نہیں پڑھ سکتا، نہ مرد اور نہ ہی عورت ۔
عورت کی نمازاپنے گھر میں افضل ہے وہ اپنے گھر میں خود سے نماز ادا کرے
یاکسی جگہ چند عورتیں جمع ہوجاتی ہوں تو کوئی عورت جماعت سے نماز پڑھاسکتی
ہے ۔
سوال(10): کیا شوہر اپنی بیوی کی نانی کے لئے محرم ہے ؟
جواب : سورہ نساء آیت نمبر تئیس میں محرمات کا ذکر ہے ،ان میں ساس بھی ہے
اور ساس کے ہی تابع لڑکی کی نانی اور دادی بھی ہے لہذا شوہر اپنی بیوی کی
نانی کے لئے محرم ہے۔
سوال(11): شوہر بے دین ہے ، ایسی صورت میں میرے لئے اﷲ سے دعا کرنا کہ مجھے
دیندار شوہردے کیسا ہے؟
جواب :ایک وقت میں عورت ایک ہی مرد کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے اس کے لئے
بیک وقت دو مرد سے شادی کرنا حرام ہے ، اس بناپر جو دعا پوچھی جارہی ہے اس
میں دوسرے مرد یا دوسری شادی کا ذکر ہے جبکہ موجودہ شوہر کے ہوتے ہوئے ایسی
دعا کرنا صحیح نہیں ہے ۔ ہاں اس دعا سے مراد یہ ہو کہ اﷲ اس کے شوہر کو نیک
بنادے تو کوئی مسئلہ نہیں تاہم دعائیہ جملے بھی درست کرلئے جائیں کہ اے اﷲ
میرے شوہر کو دیندار وصالح بنادے ۔
سوال(12): کسی کی ایک ماں اور دو باپ ہے پہلا باپ سے ایک لڑکی پیدا ہوئی
اور دوسرا باپ سے لڑکا، اب سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں میں شادی ہو سکتی
ہے؟
جواب :لڑکا اور لڑکی دونوں ایک ماں سے ہیں ، یہ دونوں آپس میں سگے بھائی
بہن ہیں اور سگے بھائی بہن کا آپس میں نکاح حرام ہے ۔
سوال(13): کیا یہ بات صحیح ہے کہ سفید بالوں کو اکھیڑنے سے منع کیا گیا ہے
اور عورت بھی اس میں شامل ہے ؟
جواب : ہاں سفید بالوں کو اکھیڑنا منع ہے مردوں کے لئے بھی اورعورتوں کے
لئے بھی ،نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا تنتِفوا الشَّیبَ ما من مسلِمٍ یشیبُ شیبۃً فی الإسلامِ إلَّا کانت لَہُ
نورًا یومَ القیامۃِ إلَّا کتبَ اللَّہُ لَہُ بِہا حسنۃً وحطَّ عنہُ بِہا
خطیئۃً(صحیح أبی داود:4202)
ترجمہ: سفید بال نہ اکھیڑو،اس لئے کہ جس مسلمان کا کوئی بال حالت اسلام میں
سفید ہوا ہو تو وہ اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا اور اس کے بدلے اﷲ
تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا۔
لہذا کوئی مرد یا عورت اپنے سر کے بال نہ اکھیڑے بلکہ سفیدی ظاہر ہونے پر
اسلام نے ہمیں کالے خضاب کے علاوہ دوسرے رنگ سے بدلنے کا حکم دیا ہے۔
سوال(14):فاطمہ رضی اﷲ عنہا رات میں دفن کی گئیں اور اس کی وجہ کیا تھی؟
جواب : صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو ان کے شوہر
سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے رات میں دفن کیا تھا ۔
فلما تُوُفِّیَتْ دفنَہا زوجُہا علیُّ بنُ أبی طالبٍ لیلًا(صحیح مسلم:1759)
ترجمہ: جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے خاوند سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بن ابی
طالب نے ان کو رات کو دفن کیا۔
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ نے شدت حیا کی وجہ سے اسماء
بنت عمیس کو پردہ پوش چارپائی تیار کرنے کی وصیت کی تھی اور رات میں دفن
کرنا بھی حیا کے باعث تھا تاکہ ان کی وصیت کے مطابق کوئی انہیں دیکھ نہ سکے
جوکہ اس ٹکڑے سے واضح ہوتا ہے۔
وجعلَتِ لہا مثلَ ہودجِ العروسِ فقالتْ أمرَتْنی أنْ لا یدخلَ علیہا أحدٌ
وأَریْتُہا ہذا الذی صنعتُ وہیَ حیۃٌ فأمرَتنی أنْ أصنعَ ذلکَ علیہا.
ترجمہ: اور انہوں نے دلہن کی ڈولی کی طر(ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار)
تیار کیں اور فرمایاکہ مجھے (فاطمہ) نے اس کا حکم دیا کہ کوئی اس کے قریب
نہ آئے اور یہ جو چارپائی تیار کی ہوں اس کے بنانے کی وصیت مجھ سے انہوں نے
اپنی زندگی میں کی تھیں ۔
اس روایت کو جورقانی نے مشہور حسن کہا ہے ۔(الأباطیل والمناکیر:2/81 )
سوال(15): کیا فرشتے قرآن نہیں پڑھتے ؟
جواب : فرشتے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے متعلق ذکر کرنا اور
نماز پڑھنا وارد ہے جو قرآن کی تلاوت پر دلیل ہے ۔ جبریل علیہ السلام اﷲ کی
وحی قرآن لیکر آتے تو محمد ?پر پڑھتے اور آپ اسے حفظ کرتے ، اس کا بھی ذکر
قرآن میں ہے بلکہ پہلی وحی اقرا کے سلسلے میں تو تفصیل وارد ہے اور رسول اﷲ
ﷺ کا جبریل کے ساتھ رمضان میں قرآن کا دورہ کرنا بھی مذکور ہے ۔ فرشتے قرآن
کی تلاوت کرتے ہیں اس بات کی قرآن سے چند دلائل دیکھیں :
اﷲ کا فرمان ہے :فَالتَّالِیَاتِ ذِکْرًا(الصافات:3)
ترجمہ: پھر ذکر اﷲ کی تلاوت کرنے والوں کی ۔
اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ فرشتے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔
اﷲ کا فرمان ہے :فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ(القیامۃ:18)
ترجمہ: جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ۔
یہاں "قراناہ" سے مراد یہ ہے کہ جب جبریل علیہ السلام اﷲ کی جانب سے قرات
پوری کردیں تب اس قرات کی اتباع کریں یعنی اس کے احکام وشرائع کی پیروی
کریں اور لوگوں کو بھی بتلائیں ۔
اﷲ کا فرمان ہے :عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَی(النجم:5)
ترجمہ: اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ۔
اﷲ کا فرمان ہے :سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَی(الأعلی:6)
ترجمہ: ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا۔
یعنی اﷲ فرشتے کے ذریعہ محمد ﷺکو ایسا پڑھوائیں کہ زبان پر جاری کردیں گے
پھر اسے کبھی نہ بھولیں گے ۔
سوال(16): کوئی عورت ظہر کے وقت حائضہ ہوجائے اور اسی طرح مغرب کے وقت پاک
ہو تو اس کی نماز کی قضا کا کیا حکم ہوگا؟
جواب : عورت جس نماز کے وقت میں حیض سے ہوئی ہے پاک ہونے پر اس کی قضا دے
گی مثلا ظہر کے وقت حیض آیا ہے تو جب پاک ہوگی ظہر کی قضا کرے گی اور جس
نمازکے وقت حیض سے پاکی حاصل ہورہی ہے عورت اس وقت کی نماز ادا کرے گی ساتھ
ساتھ وہ نماز بھی پڑھنی ہوگی جس کے ساتھ دوسری نماز جمع کی جاتی ہے۔اس کی
مثال یہ ہے کہ اگر عصر کے وقت پاک ہوئی ہے تو ظہر بھی پڑھے گی ۔
سوال(17): کافر کی غیبت کرنا کیسا ہے ؟
جواب: ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی غیبت سے منع کیا گیا ہے اور کافر کے کفر
وشرک اور فسق وفجور کوبیان کرنا غیبت نہیں ہے تاکہ اس کے کفر وشرک اور فسق
وفجورسے دوسروں کو بچایا جاسکے اور کافر کی ہدایت کے لئے راستہ ہموار کیا
جائے البتہ ذمی کافر کی غیبت سے علماء نیمنع کیا ہے ۔
سوال(18):کیا نظر لگنے والے کا علم نہ ہو تو نیک آدمی کے وضو کے پانی سے
غسل دیا جا سکتا ہے ؟
جواب : نظر بد اتارنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس کی نظر لگی ہو اسے کسی
برتن میں وضوکراکر اور کمر تک کے حصے کو دھوکر اس پانی کو مریض کے سر
پرپچھلی طرف سے انڈیل دیا جائے ۔جب سہل بن حنیف رضی اﷲ عنہ کو عامر بن
ربیعہ کی نظر لگ گئی تو آپ ﷺ نے عامر کوغسل کرنے کا حکم دیا اور اس کے غسل
کے پانی کوسہل کے جسم پر انڈیل دیا گیا جس سے وہ ٹھیک ہوگئے ۔ جس کی نظر
لگی ہو اس کا علم نہ ہو تو کسی بزرگ کے وضو کے پانی سے مریض کو غسل نہیں
دیا جائے گا بلکہ ایسی صورت میں رقیہ شرعیہ سے دم کیا جائے گا۔
سوال(19):کیا عورتوں کو جمعہ کے دن اذان اور خطبہ ختم ہونے کے بعد نماز
پڑھنی چاہئے ؟
جواب : عورتوں پر نمازجمعہ فرض نہیں ہے لیکن مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا
کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جب عورت جمعہ کے دن اپنے گھر میں نماز
پڑھے تو ظہر کی نماز ادا کرے گی اور نماز کا وقت ہوتے ہیں اول وقت میں
نمازظہر ادا کرلے اسے اذان یا خطبہ ختم ہونے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں
ہے تاہم عورت اگر اذان کا جواب دیتی ہے تو اس میں اجر ہے ۔
سوال(20)فرحت ہاشمی صاحبہ بیان کررہی تھی کہ قیامت میں ہرمومن کا سایہ ہوگا
جبکہ لوگوں میں مشہور تو سات قسم کے لوگوں کا سایہ ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات فرحت ہاشمی صاحبہ نے کہی ہے یا نہیں لیکن
اگر کسی نے کہی ہے تو اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں اس بات کی
حقیقت۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
یعرَقُ النَّاسُ یومَ القیامۃِ حتَّی یذہبَ عرقُہم فی الأرضِ سبعین ذراعًا
، ویُلجِمُہم حتَّی یبلُغَ آذانَہم(صحیح البخاری:6532)
ترجمہ:قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہو جائیں گے اور حالت یہ ہو جائے
گی کہ تم میں سے ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ
تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔
ایسی حالت میں سات قسم کے آدمیوں کو اﷲ تعالیٰ اپنے عرش کے سایہ میں رکھے
گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ان سات قسم کے لوگوں میں ایک
صدقہ کرنے والا بھی ہوگا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :ورجلٌ تصدَّقَ بصدقۃٍ ،
فأخفاہا حتی لا تعلمَ شمالُہُ ما تُنْفِقْ یمینُہُ(صحیح البخاری:1423)
ترجمہ:اوروہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو
بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
یعنی صدقہ عرش الہی کے سایہ کا سبب ہے اسی بات کو دوسری احادیث میں اس طرح
بھی بیان کیا گیا ہے ۔
کُلُّ امرِءٍ فی ظِلِّ صَدَقَتِہ حتی یُفْصَلَ بینَ الناسِ ، أو قال حتی
یُحْکمَ بینَ الناسِ و فی روایۃ حتی یُقْضَی بین الناسِ.(صحیح ابن
خزیمۃ:2431، قال البانی إسنادہ صحیح علی شرط مسلم)
ترجمہ:قیامت کے دن ہرمومن لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اپنے صدقہ کے سایہ تلے
ہوگا۔
إنَّ الصَّدقۃَ لتُطفیء ُ عَن أہلِہا حرَّ القبورِ ، وإنَّما یَستَظلُّ
المؤمِنُ یومَ القیامۃِ فی ظلِّ صدقتِہِ(صحیح الترغیب:873)
ترجمہ: بے شک صدقہ اپنے صاحب کو قبر کی گرمی سے بچائے گا اور بے شک مومن
قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔
ان احادیث کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کے دن ہرمومن کا سایہ ہوگا بلکہ مطلب
یہ ہے کہ صدقہ عرش الہی کے سایہ کا سبب ہے یعنی جو مومن صدقہ دے گا وہ صدقہ
کی وجہ سے سایہ کا مستحق ہوگا اورصدقہ کرنے والا سات قسم کے لوگوں میں سے
ایک ہے جسے عرش الہی کا سایہ نصیب ہوگا ۔
سات قسم کے لوگوں کے علاوہ ایک اور حدیث ملتی ہے ، رسول اﷲ کا فرمان ہے:من
أنظرَ معسرًا ، أو وضع عنہُ ، أظلَّہُ اﷲُ فی ظلِّہِ (صحیح مسلم:3006)
ترجمہ: جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے اﷲ تعالیٰ اس کو
اپنے سایہ میں رکھے گا۔
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (نویں قسط)
سوال(21):تہجد کی نماز میں کون سی دعا پڑھی جائے گی؟
جواب : تہجد کی نماز کے لئے نبی ? سے کوئی خاص دعا وارد نہیں ہے ، یہ رات
کی عموما طویل نماز ہے ، اس نماز میں رب سے جو چاہیں مانگیں ،جتنی چاہیں
رات کے اندھیرے میں اپنے خالق ومالک کے سامنے آنسو بہائیں ۔ اﷲ رات میں
بندوں کو خوب نوازتا ہے بلکہ رات میں اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی
مانگنے والا؟ تہجد کی نماز کے لئیدعائے استفتاح کا ثبوت ملتا ہے ، وہ یہ ہے
:
اﷲم لک الحمد، أنت نور السموات والأرض ومن فیہن، ولک الحمد أنت قیم السموات
والأرض ومن فیہن، ولک الحمد، أنت الحق ووعدک حق، وقولک حق، ولقاؤک حق،
والجنۃ حق، والنار حق، والساعۃ حق، والنبیون حق، ومحمد حق، اﷲم لک أسلمت
وعلیک توکلت وبک آمنت، وإلیک أنبت، وبک خاصمت، وإلیک حاکمت، فاغفر لی ما
قدمت وما أخرت، وما أسررت، وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا
أنت
ترجمہ:اے اﷲ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں
موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور
زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے
تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا
حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حق ہیں۔ اے اﷲ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ
پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ
تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ
کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب
سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
اس دعاکے متعلق بخاری میں مذکور ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں
نے فرمایا:
کان النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم إذا قام منَ اللیلِ یتہَجَّدُ قال :
اﷲمَّ لک الحمدُ،،،،،(صحیح البخاری:1120)
ترجمہ: نبی ﷺجب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا
پڑھتے:اﷲم لک الحمدُ,,,,,
صحیح بخاری میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں :کان النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم
یدعو من اللیلِ : ( اﷲم لک الحمدُ,,,,,(صحیح البخاری: 7385)
اس کا معنی بھی قریب قریب ہے کہ نبی ﷺرات میں یہ دعا پڑھتے :اﷲم لک
الحمدُ,,,,,
صحیح ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مذکور ہے :کان رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم إذا قام للتہجد قال بعد ما یکبر : اﷲم لک الحمد،،،(صحیح ابن
خزیمۃ:1152)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ جب تجہد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کے بعد
کہتے:اﷲم لک الحمد،،،
اس پہ امام ابن خزیمہ نے باب باندھا ہے :(باب ذکر الدلیل علی أن النبی إنما
کان یحمد بہذا التحمید ویدعو بہذا الدعاء لافتتاح صلاۃ اللیل بعد التکبیر
لا قبل)
ترجمہ: اس بات کے ذکر میں کہ نبی ﷺ تکبیر کے بعد ، نہ کہ اس سے پہلے اس حمد
اوردعا کے ساتھ تہجد کی نماز کا افتتاح کرتے ۔
اب بات واضح ہوگئی کہ نبی ﷺ تہجد کی نماز شروع کرتے تو دعائے استفتاح کے
طور پر مذکورہ ثنا کے ذریعہ اﷲ سے دعا کرتے ، اگر کوئی اس کے علاوہ بھی ثنا
پڑھتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(22):گھر میں جمع ہوکر عورتیں نماز جنازہ جماعت سے ادا کر سکتی ہیں ؟
جواب : عورتیں بھی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ حضرت ابوسلمی بن عبدالرحمن
روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن وقاص رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: ادخُلوا بہ المسجدِ حتی أصلیَ علیہ(صحیح مسلم:973)
ترجمہ: سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ ادا کرسکوں ۔
عورتوں کی افضل نماز تو گھر میں ہی ہے ، اس لحاظ سے عورتیں میت کے غسل اور
کفن کے بعد جمع ہوکر جماعت سے میت کی نماز جنازہ گھر ہی میں پڑھ لے تو کوئی
حرج نہیں اور وہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج
نہیں ہے جیساکہ اوپر والی حدیث عائشہ گزری جس سے مسجد میں عورت کا نماز
جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ سے سوال کیا گیا کہ کیا عورتوں کے لئے
جائز ہے کہ گھر کی ساری عورتیں جمع ہوکر گھر ہی میں میت کی نماز جنازہ پڑھ
لے؟
توشیخ رحمہ اﷲ نے جواب کہ کوئی حرج نہیں عورتیں نماز جنازہ مردوں کے ساتھ
مسجد میں ادا کرے یا جنازہ والے گھر میں ادا کرلے کیونکہ عورتوں کو نماز
جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا
ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن عثیمین:17/157)
سوال(23):عورت کے سجدہ کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب :عورت اور مرد کی نماز یعنی قیام ، رکوع اور سجود وغیرہ میں کوئی فرق
نہیں ہے ۔ رسول اﷲ ﷺنے مردوعورت دونوں کے متعلق حکم فرمایا کہ تم لوگ اسی
طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہواور سجدہ کرنے کا جو
طریقہ ہمیں رسول نے بتلایا ہے اس میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے
۔ احناف کے یہاں عورتوں کے سجدہ میں بازو بند اور پیٹ کو رانوں سے لگایا
جاتا ہے ۔ اس بات کی کوئی دلیل نہیں سوائے اقوال رجال کے ۔ سجدہ آٹھ اعضاء
پر کئے جائیں ، ناک زمین سے سٹی ہو، بازو اپنے پہلوؤں سے الگ اور ہاتھ
کندھے کے برابر زمین پر ہوحتی کہ سجدہ میں آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہوتی،
بازؤں کے درمیان سے ایک بکری گزرنے کی جگہ ہوتی ۔ سجدہ کی حالت میں کتے کی
طرح بازو بچھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ سجدہ کی یہی کیفیت مردوں کے لئے ہے
اور یہی کیفیت عورتوں کے لئے ہے ۔ جو لوگ عورتوں کے لئے زیادہ پردہ کی بات
کرتے ہوئے کتے کی طرح بازو بچھانے کا حکم دیتے ہیں وہ حدیث کی مخالفت کرتے
ہیں اور وہ سن لیں کہ پردے کا جوحکم رسول اﷲ ? بتلاگئے وہی مومنہ کے لئے
مناسب ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کا جو اسلامی لباس ہے اس میں بدن کا
کوئی عضو نمایاں نہیں ہوگا خواہ نماز ہو یا غیرنماز ، اسی طرح تیسری بات یہ
ہے کہ عورتوں کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے جس میں سب سے زیادہ پردہ ہے
اور مردوں کے ساتھ سب سے پچھلی صف ہے ۔ اسلام کی یہ تعلیمات عورتوں کے حق
میں کافی وافی ہیں ۔
سوال(24):بیوی وفات پاجائے اور شوہر نے مہر ادا نہ کیا ہو تو کیا کرے یا
شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے تو مہر
کی ادائیگی کیا صورت ہوگی ؟
جواب: بیوی کی وفات ہوجائے اس حال میں کہ شوہر نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو
وہ وارثین کا حق ہے ،مرد سے مہر کا مطالبہ کرکے میت کے وارثین میں تقسیم
کردیا جائے اور اگر شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے مہر ادا نہیں کیا
تھا تو میت کے ترکہ میں سے بیوی اپنا مہر پہلے وصول کرلے پھر بقیہ ترکہ
وارثین میں تقسیم ہوگا۔
سوال(25):اگر کوئی عورت اکسڈنٹ میں وفات پاجائے تو اسے شہید کہا جائے گا؟
جواب : اکسڈنٹ میں قتل ہونے والا ڈوب کر مرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے
والے کی طرح ہے اور رسول اﷲ ﷺ نے ڈوب کرمرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے
والے کو شہید کہا ہے ، اس وجہ سے اکسڈنٹ میں قتل ہونے والے کو بھی بالیقین
نہیں تو ان شاء اﷲ کے ساتھ شہید کہہ سکتے ہیں ۔ شیخ ابن باز اور شیخ ابن
عثیمین رحمہما اﷲ نے اکسڈنٹ میں مرنے والے کو شہید کہا ہے۔
سوال(26):اگر کسی نے یہ منت مانی کہ وہ جب بھی مکہ جائے گا اپنی ماں کے نام
سے عمرہ کرے گا؟ یہ نذر ماننا صحیح ہے اور اگر یہ نذر صحیح ہے تو اس کے
سامنے بڑی مشکل ہے کہ ایسی نذر ہمیشہ کیسے پوری کرے ؟
جواب : نذر ماننے سے کوئی بھلائی نہیں ملتی پھر بھی کسی نے ایسی نذر مان لی
جس میں معصیت نہیں ہے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ سوال میں مذکور ماں کے
نام سے مسلسل عمرہ کرنا صحیح نہیں ہے ، میت کی طرف سے ایک عمرہ کرنا کافی
ہے ،زندہ شخص خود نیکیوں کا محتاج ہے وہ اپنے لئے باربار عمرہ کرے اور اپنی
ماں طرف سے نذر کا ایک عمرہ کرکے آئندہ کثرت سے فقط استغفار کرے اور مشکل
نذر مان لینے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ادا کردے۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :کفارۃُ
النذرِ کفارۃُ الیمینِ(صحیح مسلم:1645)
ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
سوال(27):خلع والی کا نقفہ ہے کہ نہیں ؟
جواب : خلع والی عورت کی عدت شوہر کے گھر گزارنا واجب نہیں تاہم چاہے تو
گزارسکتی ہے اور خلع کی عدت میں شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے ۔ جب فاطمہ بنت
قیس رضی اﷲ عنہا کا خلع ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: لا نفَقۃَ لَکِ إلَّا
أن تَکونی حاملًا (صحیح أبی داود:2290)
ترجمہ: تیرے لیے کوئی خرچہ نہیں الا یہ کہ تو حاملہ ہو ۔
ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ خلع والی عورت کے لئے سابقہ شوہر کے ذمہ نفقہ
نہیں ہے لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو پھر رہائش اور کھانے کا خرچہ شوہر کے ذمہ
ہے ۔
سوال(28):ایک مسلم لڑکی کافر لڑکے کے ساتھ شادی کرلیا اور وہ اپنے اسلام پر
باقی ہے کیا اسے باپ کے میراث میں سے حصہ ملے گا؟
جواب : مسلم لڑکی کافر کے ساتھ شادی کرکے زندگی گزار رہی ہے گویا وہ اس کے
دین پر راضی ہے ورنہ وہ اس کے ساتھ حرام کاری نہیں کرتی اور جو کافر کے دین
سے راضی ہو وہ کافر ہے ،اس کے لئے مسلمان کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔
نبی ﷺکا فرمان ہے :
لا یرثُ المسلمُ الکافرَ ولا الکافرُ المسلمَ(صحیح البخاری:6764)
ترجمہ: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر کسی مسلمان ہی کا وارث
بنتا ہے۔
سوال(29):ایمو پر میاں بیوی ویڈیو کال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ
سکتے ہیں جبکہ دونوں کئی مہینوں سے دور ہوں؟
جواب : میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنا جائز ہے ، یہ اﷲ کے فضل
واحسان میں سے ہے تاہم ایمو پر ویڈیو کال کرتے ہوئے میاں بیوی کا ایک دوسرے
کے سامنے برہنہ ہونا فتنہ وفساد، ضرراور فحاشیت کا سبب بن سکتا ہے ۔
اولا: ایسا ممکن ہے کہ ایمو بنانے والے کے پاس نہ صرف ہماری باتیں رکارڈ
ہوتی ہوں بلکہ ویڈیوز بھی رکارڈ ہوتی ہوں ایسی صورت میں یہ کام میاں بیوی
کے لئے حرام ہوگا۔
ثانیا: میاں بیوی جب ننگیہوکر ویڈیو کال کررہے ہوں تو ممکن ہے کسی کی
نظرپڑجائے یا شہوانی آواز وکیفیت کا ادراک کرنے والا ہوخواہ گھر کے بچے ہی
سہی ، اس صورت میں بھی شرعی قباحت ہے ۔
ثالثا:جب میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہوں اور عریاں ہوکر باتیں کریں اور
اپنی شہوت کو ابھاریں تو پھر یہ شہوت بدکاری کا سبب بن سکتی ہے ۔ پاس میں
میاں بیوی ہوتے تو ایک دوسرے سے جنسی خواہش پوری کر لیتے مگر دور ہونے کی
وجہ سے ممکن ہے غلط طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جائے، یہ غلط
طریقہ کوئی بھی ہوسکتا ہے فحش ویڈیودیکھنا، مشت زنی کرناحتی کہ زنامیں بھی
وقوع کا اندیشہ ہوسکتا ہے ۔ یہ صورت بہت ہی قبیح ہے۔ لہذا میاں بیوی کو
ویڈیوکال پہ بات کرتے ہوئیایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے سے پرہیز کرناچاہئے ۔
سوال(30):کیا ہم جنات کو دیکھ سکتے ہیں اور حیوانات بھی جنات کو دیکھتے ہیں
؟
جواب: جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس وجہ سے کوئی انسان اس کو اپنی اصلی
خلقت پہ نہیں دیکھ سکتا ہے تاہم جب انسان یا حیوان وغیرہ کی صورت اختیار
کرے تو دیکھا جاسکتا ہے جیساکہ بعض صحابہ نے بھی دیکھا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی
اﷲ عنہ کو شیطان نے ہی آیۃ الکرسی کے بارے میں خبر دی ۔ جہاں تک حیوانات کے
دیکھنے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں بعض احادیث میں کتے ، گدھے اور مرغ کا
جنات کو دیکھنے سے متعلق ذکر ملتا ہے۔
سوال(31):میرا ایک پڑوسی ہے اس نے بلی پال رکھا ہے اور اپنی بلی کا نام
عائشہ رکھا ہے کیا یہ درست ہے ؟
جواب : بلی ایک حیوان ہے اور عائشہ زوجہ رسول یعنی محترم انسان کا نام ہے ،
اﷲ نے انسانوں کو حیوانات پر فوقیت وفضیلت دی ہے اس لئے حیوانات کا نام نیک
لوگوں کے ناموں پر رکھنا صحیح نہیں ہے تاہم حیوانات کا بھی مخصوص نام رکھا
جاسکتا ہے جیسے رسول اﷲ ﷺ کی اونٹنی کانام عضباء تھا۔ (صحیح بخاری:2872)
سوال(32):بدزبان عورت کے شر و بدزبانی سے کیسے بچا جائے جبکہ چوبیس گھنٹے
کا واسطہ ہو اور ایسی بدزبان عورت نصیحت و وعظ جذب کرنے سے بھی محروم ہو؟
جواب : منکر کو مٹانے کا رسول اﷲ ﷺنے تین درجہ بتلایا ہے ، اس کے حساب سے
پہلا درجہ تو یہ بنتا ہے کہ بدزبان عورت کو اس کی بدزبانی سے باز رکھنے کے
لئے کاروائی کی جائے ۔ اگر کاروائی نہیں کرسکتے تو زبان سے حتی المقدور اس
سے باز رکھنے کی نصیحت کی جائے اور نصیحت کے لئے جو بھی مناسب اقدام ہوسکتے
ہیں کرنا چاہئے مثلا اسلامی محفل میں لے جانا، علماء کی تقریریں سنانا،
کتابیں مہیا کرنا اور وعظ ونصیحت کرنا وغیرہ ۔ جب نصیحت بھی بے سود ہو اور
بدزبانی سے باز نہ آئے تو آخری مرحلہ اس برے کام کو دل میں برا جاننا ہے۔
ساتھ ہی ایسی عورت کی بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا ہے، اﷲ کا فرمان ہے
:وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ
سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے
اﷲ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں
۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور
جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اﷲ ﷺ
کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحیح الترمذی:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
سوال(33):کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ؟
جواب : بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ، اولاد کی طرف نسبت کرکیکنیت کے
ساتھ بھی پکار سکتی ہے یا شوہر کو محبوب کسی نام سے موسوم کرسکتی ہے ان
تمام صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ شوہر پہ منحصر ہے کہ وہ کیا پسند
کرتا ہے،اپنے نام سے پکارا جانا یا کسی اور نام سے ؟ شوہر جو پسند کرے بیوی
کو اسے اختیار کرنا چاہئے تاکہ شوہر کو بلاتے وقت اسے خوشی محسوس ہواور کسی
قسم کی ناگواری کا احساس نہ ہو۔
سوال(34):اگر تین بچے آپریشن سے ہوئے ہوں تو چوتھی بار حمل ہونے پر نس بندی
کرانا جائز ہوگا؟
جواب: نس بندی حالات پہ منحصر ہے ، اگر بھروسے مند ڈاکٹرز نس بندی کرانے کا
مشورہ دیں تو شوہر کی رضامندی کے ساتھ ہلاکت سے بچنے کے لئینس بندی کرانا
جائز ہوگا۔ نس بندی کے کئی طریقے ہیں ان میں سے سہل طریقہ اپنایا جائے تاکہ
آئندہ خطرات ٹل جائیں تو دوبارہ بچے کی پیدائش کا امکان ہواور اگر سرے سے
رحم مادر ہی نکالنا پڑجائے تو ضرورت کے تحت یہ عمل بھی جائز ہے۔
سوال(35): اپنے بچے کی نجاست صاف کرتے وقت عورت کا ہاتھ بچے کی شرمگاہ سے
لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب : ایسی دلیل ملتی ہے کہ بغیر پردے کے شرمگاہ سے ہاتھ چھوجائے تو وضو
ٹوٹ جاتا ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
إذا أفضی أحدُکم بیدِہ إلی فرجِہ و لیس بینہ و بینہا حجابٌ و لا سِترٌ ،
فقد وجب علیہ الوضوء ُ(صحیح الجامع:362)
ترجمہ: تم میں کسی کا ہاتھ اس کی شرم گاہ کو لگے اور (ہاتھ اور شرم گاہ کے
) درمیان میں کوئی ستر و حجاب نہ ہو یعنی ہاتھ براہ راست شرم گاہ کو مس کرے
تو اس پر وضو لازم ہوگیا۔
جو اہل علم ناقض وضو کے لئے شہوت کی قید لگاتے ہیں یا وضو کو محض مستحب
کہتے ہیں ان کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے ۔ شہوت کی قید کسی حدیث میں نہیں
ہے بلکہ محض ستروحجاب کا ذکر ہے اور نص میں وجوب کا لفظ موجود ہوتے ہوئے
استحباب کا معنی اخذ کرنا حدیث کے خلاف ہے ۔ اس وجہ سے جو علماء یہ کہتے
ہیں کہ چھوٹے بچے کی شرمگاہ کو براہ راست ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ
دلیل کے قریب ہے ۔ دائمی فتوی کمیٹی کا یہی جواب ہے کہ براہِ راست شرمگاہ
کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کسی چھوٹے بچے کی شرمگاہ ہو یا بڑے
کی کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے
اپنی شرمگاہ پر ہاتھ لگایا تو وہ وضو کرے)اور اپنی یا کسی کی شرمگاہ دونوں
ایک ہی حکم رکھتی ہیں۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ :5/ 265)
|