حیا سے حسن کی قیمت دو چند ہوتی ہے
نہ ہوں جو آب تو موتی کی آبرو کیا ہے
خدا تعالیٰ کی ایک صفت حیی ہے ، یعنی بہت زیادہ حیا دار ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ
نے فرمایا :
ان ربکم تبارک وتعالیٰ حیی کریم یستحی من عبد اذا رفع یدیہ الیہ ان یردھما
صفراً
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب بہت باحیا ء اور کریم ہے ، جب اس
کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے
اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ ً
یعنی اللہ تعالی کا رنگ اختیار کرو اور اللہ سے رنگ و طریق کے لحاظ سے کون
بہتر ہو سکتا ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تخلقوا باخلاق اللہ یعنی اللہ کے
اخلاق کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حیا کوانسان کی
فطرت میں رکھ دیا ہے چونکہ دین اسلام ایک فطری دین ہے اس لئے اس میں حیا کی
بہت تعلیم دی گئی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:"حیا ایمان کا حصہ ہے "۔ یعنی جس شخص میں جتنا ایمان
ہوگا اس میں حیا بھی اتنا ہی ہوگا ۔ فرمان نبوی ﷺ ہے : "ہر دین کی ایک
امتیازی علامت ہوتی ہے اور اسلام کا امتیاز حیا ہے "۔ مسلمان معاشرے اور
کافر معاشرے میں جو سب سے نمایاں فرق ہے وہ حیا کا تصور ہے ۔ایمان کی حفاظت
میں حیا کا بڑا عمل دخل ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :"حیا اور ایمان جڑواں ہیں اگر
ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے "(بیہقی ) ۔ یعنی جس میں حیا نہ رہے
اس میں ایمان بھی نہیں رہتا ۔
اسلامی تعلیم در بارہ شرم و حیا
قرآن کریم برائی کو اس کی جڑ سے ہی اکھیڑ کر پھینکنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
اسی سلسلہ میں سورۃ النور میں شرم و حیا کے حوالہ سے نہایت ہی اعلیٰ تعلیم
کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے :۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصار ھم و یحفظوا فروجھم ذٰلک ازکی لھم ان اللہ خبیر
بما یصنعون
وقل للمؤمنٰت یغضضن من ابصار ھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ماظہر
منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن(سورۃ النور:31،32)
یعنی مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی
حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے
خبردار ہے ۔ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور
اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر
اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں ۔
قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ، جس سے
مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح حیا کا حسین لبادہ اوڑھ کر
گھر سے نکلے ۔حضرت موسی ٰ ؑ ایک عظیم پیغمبر تھے ، جو اللہ تعالیٰ سے براہ
راست ہم کلا م ہوئے ۔ مصر سے مدین کی طرف ہجرت کررہے تھے ۔ سفر کی تھکاوٹ
کی وجہ سے ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ کیا
دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں
کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہی ۔ جب
آپ نے ان کو دیکھا تو حضرت موسی علیہ السلام نے وجہ دریافت کی ۔پتہ چلا کہ
ان کا کوئی بھائی نہیں ، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے اور
وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے
جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی
پلائیں گی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور
خود پانی کنوئیں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلادیا ۔ لڑکیاں جب خلاف
معمول جلد ی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ
کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ نے کہا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلا کر لاؤ
تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں ۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ ؑ کو بلانے آئی
تو وہ کس طرح آئی ، اس کا اند ازکیا تھا ۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جو
کہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے :
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:۔
فجاءتہ احدٰھما تمشی علی استحیاءقالت ان ابی یدعوک لیجزیک اجر ماسقیت
لنا(القصص:26)
پس ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس حیا سے لجاتی ہوئی آئی۔ اس نے کہا یقیناً
میرا باپ تجھے بلاتا ہے تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہماری خاطر پانی
پلایا۔
اس لڑکی نے شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی ۔ بات بھی شرما کر
زیادہ کھل کرنہیں کی ۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا
کو قرآن بنا کر حضرت محمد ﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ
چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن
اٹھاکرنہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے ۔
آج دنیا بھر کا میڈیا ایک خاص محنت میں مصروف ہے ۔ وہ اخبارات ہوں یا ٹی وی
چینلز ، وہ رسائل و جرائد ہوں یا ریڈیوچینلز ، سب مسلمانوں سے وہ دولت بے
بہا اور متاع بیش بہا چھین لینا چاہتے ہیں ، جسے ہم "شرم و حیاء" کہتے ہیں
۔ اسلام کا مزاج شرم و حیا ء کا ہے اور مغربی ثقافت کی ساری بنیادہی بے
حیائی اور بے شرمی پر کھڑی ہے ، حیا ء ہی وہ جوہر ہے ، جس سے محروم ہونے کے
بعد انسان کا ہر قدم برائی کی طرف ہی اٹھتا ہے اور ہر گناہ کرنا آسان سے
آسان تر ہوجاتا ہے ۔ شرم و حیا ء آپ کیلئے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے ،
جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔
قول رسولﷺ بابت شرم و حیا
شرم و حیا کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں ہمیں بار بار اس کی طرف
متوجہ کیا گیا ہے ۔ اور شریعت اسلامی میں اس صفت کو نمایاں مقام حاصل ہے
اور پیارے رسول اللہ ﷺ نے امت کو اس کی نہایت تاکید فرمائی ہے ۔اس سلسلہ کی
چند احادیث درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد
فرمایا :
الحیاء لا یاتی الا بخیر و فی رعایۃ الحیاء خیر کلہ (بخاری شریف )
یعنی حیا کا نتیجہ صرف خیر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ حیا ساری کی ساری
خیرہی ہے ۔
2۔حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے
بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :" ان لکل دین خلقا و خلق الاسلام
الحیاء"ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خاص خلق
حیا ء ہے۔
(مؤطا امام مالک ؒ جامع ما جاء فی اھل القدر باب ما جاء فی الحیاء،مشکوٰۃ
شریف)
3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
ان الحیاء والایمان قرناء جمیعاً فاذا رفع احدھما رفع الاخر
(مشکوٰۃ شریف)
یعنی حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک
بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے ۔
4۔"ان مماادرک الناس من کلام النبوۃ الاولیٰ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت"
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سابقہ
انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے جو لوگوں تک پہنچتے ہیں ان میں سے ایک یہ
ہے کہ جب حیا ء اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرے (کسی نے فارسی میں اس کا
یوں ترجمہ کیا ہے :
بے حیا باش ہر چہ خواہی کن
(بخاری کتاب الادب باب اذالم تستحی فاصنع ماشئت)
5۔ "الحیاء شعبۃ من الایمان"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ایمان
ساٹھ یا ستر سے بھی کچھ زائد حصوں میں منقسم ہے ۔ ان میں سب سے افضل لاالہ
الا اللہ کہنا ہے اور عام اور آسان حصہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو دور
کرنا ہے ۔ حیا بھی ایما ن ہی کا ایک حصہ ہے ۔
(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان ،بخاری شریف)
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کاارشاد ہے :
الحیا ء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار
یعنی حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان( یعنی اہل ایمان )جنت میں ہیں ۔ اور بے
حیائی بدی میں سے ہے اور بدی (والے ) جہنمی ہیں ۔
(ترمذی )
7۔ "ماکان الفحش فی شئی الاشانہ وماکان الحیا ء فی شئی الا زانہ"
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حد سے بڑھی
ہوئی بے حیا ئی ہر مرتکب کو بدنما بنادیتی ہے اور شرم و حیاء ہر حیا دار کو
حسن سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے ۔
(ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی الفحش )
8۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ محسن انسانیت حضرت
محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے حیا کی
صفت چھین لیتا ہے ۔ پس جب اس سے حیا نکل جاتی ہے تو وہ خودبغض رکھنے والا
اور (دوسروں کی نظر میں ) مبغوض ہوجاتا ہے ۔ پھر جب وہ بغیض و مبغوض ہو
جاتا ہے تو اس سے امانت نکل جاتی ہے ۔ جب اس سے امانت نکل جاتی ہے تو وہ
خائن اور لوگوں کی نظر میں بد دیانت ہوجاتا ہے ۔ جب وہ خائن اور بد دیانت
ہو جاتا ہے تو اس میں سے رحم کا مادہ نکل جاتا ہے ۔ جب اس سے رحمت نکلتی ہے
تو وہ لاعن و ملعون ہوجاتا ہے پس جب لاعن اور ملعون ہوجاتا ہے تو اس سے
اسلام کا پھندا (عہد ) نکل جاتاہے ۔ (ابن ماجہ )
اسلامی شریعت میں حیا سے مراد محض انسانوں سے حیا نہیں بلکہ اسلام اپنے
ماننے والوں کو اس اللہ علیم و خبیر سے بھی شرم کرنے کی تلقین کرتا ہے جو
ظاہر و پوشیدہ ، حاضرو غائب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ اس سے شرم
کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی اس کی نظر میں براہو اسے کسی بھی حال
میں ہر گز ہرگز نہ کیا جائے اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کا پابند
بنایا جائے کہ ان سے کسی بھی ایسے کام کا صدور نہ ہو جو اللہ تعالیٰ سے
شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو ۔ اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ نے امت کو واضح ہدایت
فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے خطاب کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا :
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ اللہ
تعالیٰ کی شرم دل میں ہو جیسا کہ اس سے شرم کرنےکا حق ہے ۔ صحابہ رضی اللہ
عنھم نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کا شکر ہےکہ اس نے ہمیں شرم بخشی ہے ۔ حضور ﷺ
نے فرمایا ۔ یوں نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر
اور اسمیں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے ۔ پیٹ اور اس میں جو خوراک وہ
بھر تا ہے اس کی حفاظت کرے موت اور ابتلاء کو یاد رکھنا چاہیئے ۔ جو شخص
آخرت پر نظر رکھتا ہے ۔ وہ دنیاوی زندگی کی زینت کے خیا ل کو چھوڑ دیتا ہے
پس جس نےیہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی اللہ تعالیٰ کی شرم رکھی ۔
(ترمذی صفۃ القیامۃ ۔ رسالۃ قشیریہ باب الحیاء صفحہ 107)
کوئی مستشرق کہہ سکتا ہے کہ یہ صرف تعلیم ہی تعلیم ہے اس پر عمل کرنا مشکل
ہے ، یا کیا کسی نے اس پر عمل کرکے بھی دکھایا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
"لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ " ہمارے رسول ﷺ نے خود بھی اس تعلیم
پر عمل کیا اور پھر اس پر صحابہ و صحابیات کو بھی عمل پیرا کروایا۔نمونہ کے
طور پر چند روایات آنحضرت ﷺ کی سادگی اور حیا کے متعلق درج ہیں ۔
اسوہ رسول اللہ ﷺ
حیا کے نمونے
حضر ت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ پردہ نشین کنواری
لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے اور جب آپ ﷺ کسی بات کو ناپسند فرماتے تھے تو
آپ ﷺ کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا اور ہم حضور ﷺ کے چہرہ سے پہچان لیتے تھے
کہ حضور ﷺ نے کسی بات کو ناپسند فرمایا ہے ۔
(صحیح بخاری ، مسلم کتاب الفضائل باب کثرۃ و حیائہ بحوالہ شمائل محمد صلی
اللہ علیہ وسلم از عبد السمیع خان صاحب)
نام نہ لیتے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ جب حضور ﷺ کو کسی شخص کے متعلق کوئی
شکایت پہنچتی تو حضور ﷺ اس شکایت کا ذکر اس شخص کا نام لے کر نہیں کرتے تھے
اور یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلاں آدمی کو کیا ہوگیا ہے وہ ایسی باتیں کرتا
ہے بلکہ ہمیشہ بغیر کسی کانام لئے یہ فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے وہ
ایسی باتیں کرتے ہیں یہ کہتے ہیں ۔
(سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی حسن العشرۃ )
اللہ نے آداب سکھائے
حضور ﷺ نے جب حضرت زینب رضی اللہ عنہ سے شادی کی تو آپ کی دعوت ولیمہ میں
صحابہ کرام دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے ۔ حضور ﷺ کی مصروفیات میں حرج
ہورہا تھا۔ مگر حضور ﷺ اپنی فطری حیا کی وجہ سے ان کو جانے کے لئے نہیں کہ
رہے تھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے خود مومنوں کو آداب سکھائے اور فرمایا
"تمہارا طریق نبی ﷺ کو تکلیف دے رہا تھا۔ مگر وہ تم سے حیا کررہا تھا مگر
اللہ تعالیٰ حق کے بیان میں کوئی شرم نہیں کرتا۔ "(احزاب 8)
بچپن کا واقعہ
آنحضرت ﷺ کے بچپن میں کعبہ کی تعمیر ہور ہی تھی ۔ اور حضورﷺ اور حضور ﷺ کے
چچا عباس پتھر اٹھا اٹھا کر جمع کررہے تھے تو آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس نے آپ
ﷺ سے کہا ۔ بھتیجے اپنا تہہ بند اپنے شانے پر رکھ لو ۔ تاکہ پتھروں کی رگڑ
وغیرہ نہ لگے ۔ اور غالباً حضرت عباس نے خود ہی ایسا کردیا مگر چونکہ اس سے
آپ ﷺ کے جسم کا کچھ ستر والا حصہ ننگا ہوگیا ۔ جس کی وجہ سے آپ ﷺ شرم کے
مارے زمین پر گرگئے اور آپ کی آنکھیں پتھرانے لگیں ۔ اور آپﷺ بے تاب ہو کر
پکارنے لگے میرا تہہ بند میرا تہہ بند ۔ اور پھر آپ ﷺ کا تہہ بند جب درست
کردیا گیاتو آپ ﷺ نے اطمینان محسوس کیا ۔
(صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب نمبر 1)
(شمائل محمد ﷺ صفحہ نمبر 21 از مکرم عبد السمیع خان صاحب )
ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار چیزیں
تمام رسولوں کی سنت ہیں :حیا، عطر لگا نا ، مسواک کرنا، اور نکاح کرنا۔
(مشکاۃ المصابیح حدیث نمبر 382)
آپ ﷺ کی سادگی پسند طبیعت
آپ ﷺ کس قدر سادگی پسند تھے ۔ اس کا نمونہ خاکسار صرف آپ کی خوراک کے حوالہ
سے بیان کرکے اسی پر اکتفاء کرے گا۔
خوراک و غذا
آپﷺ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی ۔ بسا اوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ
پر ہی گزارا ہوتاتھا۔
(بخاری کتاب الرقاق)
جوملی گندم کے ان چھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں
چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں ۔ یوں تو حضورﷺ کو دستی کا گوشت پسندتھا مگر جو
میسر آتا کھا کر حمدو شکر بجالاتے ۔ سبزیوں میں کدو پسند تھا ۔ سرکہ کے
ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا "یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے ۔ "
(بخاری کتاب الاطعمہ )
(از دیباچہ تفسیر القرآن ص:235 )
صحابہ رضوان اللہ میں حیا و سادگی کے نمونے
صحابہ رضوان اللہ علیھم آنحضرت ﷺ کی ہر حرکت و سکون پر عمل پیرا ہونے کی
پوری کوشش کیا کرتے تھے ۔ اس حوالہ سے آنحضرت ﷺ بھی اپنے صحابہ کی رہنمائی
فرماتے رہتے تھے ۔
اپنی بیٹی کو سادگی کی تلقین آپ نے کس احسن رنگ میں کی ۔ اس روایت میں آپ
اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو چکی
پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہو گئی اور ان دنوں آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ
قیدی آئے تھے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاحضور ﷺ کے پاس گئیں ۔ لیکن مل نہ
سکیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی ۔ جب حضور ﷺ
باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا کے آنے کا ذکر کیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پر آنحضرت
ﷺ ہمارے گھر آئے ۔ ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے ۔ حضور ﷺ کے تشریف لانے پر ہم
اٹھنے لگے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ حضور ﷺ ہمارے درمیان بیٹھ گئے ۔
یہاں تک کہ حضور ﷺ کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے پر محسوس کی پھر آپﷺ
نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں ۔ جب تم بستروں
پر لیٹنے لگو تو چونتیس دفعہ اللہ اکبر کہو تنتیس بار سبحان اللہ اور
تینتیس بار الحمد للہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے یعنی ان کلمات کی
بدولت اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے گا اور اس قسم کے سوال سے بے نیاز ہوجاؤگے
۔
( مسلم کتاب الذکر باب التسبیح اول النھار و عند النوم ) |