ایک بچہ کے قرآن کریم کے متعلق سوال اور اس کے جوابات

انا انزلنٰہ قرآنا عربیا
الخیرکلہ فی القرآن

سوال نمبر 1:۔ قرآن مجید مختلف پہلوؤں سے معجزہ ہے۔واضح کریں۔
سوال نمبر 2:۔ قرآن کریم کن معنوں میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ؟ ثابت کریں۔ اور واضح کریں۔
سوال نمبر 3:۔ قرآن مجید انسانوں کے لئے جسمانی و روحانی معاملات میں ھدایت کا ذریعہ ہے۔ مثالیں دے کر واضح کریں۔
سوال نمبر 4:۔ وضاحت کریں کہ قرآن کی تلاوت ایمان والوں میں روحانی نشو ونما اور دلی سکون کا باعث بنتی ہے۔

سوال نمبر 1:۔ قرآن مجید مختلف پہلوؤں سے معجزہ ہے۔واضح کریں۔
اما الجواب:۔ معجزہ کیا چیز ہے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ ہر خارق عادت چیز یا بات کو معجزہ کہتے ہیں۔ یعنی جو بات عام عادت سے ہٹ کر ہو۔ جیسے آگ جلانے کا کام دیتی ہے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہو گئی۔ پس آگ سے خدا تعالیٰ نے اس کی عام عادت یعنی جلانے کی صلاحیت سے ہٹ کر اس سے کام لیا ،اس لئے یہ فعل معجزہ کہلایا۔
قرآن کریم ہر لحاظ سے معجزہ نما ہے۔ مثلاً
1:۔ قرآن کریم کا 1400 سال سے بحفاظت چلے آنا اور کسی نقطہ یاشوشہ کی تحریف سے بھی محفوظ رہنا۔ اور یہ دعویٰ بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہوا ہے کہ وہ ہی اس کلام کو اتارنے والا ہے اور وہی اس کی حفاظت فرمائے گا۔ مستشرقین (مغربی غیر مسلم علماء جو مشرقی مذاہب کے سکالر ہیں )بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس آج وہی قرآن موجود ہے جو آج سے 1400 سال پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اکٹھے کیاتھا۔ پس اس کا باحفاظت چلے آنا خارق عادت ہے۔ اس سے قبل نہ بعد میں کوئی ایسی کتاب نہیں گزری نہ لکھی گئی جس میں تحریف نہ ہوئی ہو یا تحریف کا خدشہ نہ ہو۔ تورات ، انجیل ، وید، اور دیگر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والی کتابیں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محرف و مبدل ہوگئیں۔
2۔ آج بھی عرب میں اسی زبان کا بولے جانا جو آج سے 1400 سال پہلے عرب میں بولی جاتی تھی۔
جو عربی زبان مکہ مدینہ میں بولی جاتی تھی اسے فصحیٰ کہتے ہیں۔ آج بھی قومی زبان کے طور پر عرب میں فصحی ٰ کو ہی ترویج دی جارہی ہے۔ جبکہ ہم دوسری زبانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ زمانہ گزرنے کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں مثلاً آج سے تین سو سال قبل کی انگریزی اور آج کی انگریزی کا موازنہ کیا جائے تو پرانی انگریزی کے اکثر الفاظ کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ اسی طرح عبرانی ، یونانی ، سنسکرت وغیرہ تمام زبانیں جو کہ الہامی بھی مانی جاتی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلتی گئیں اور بعض تو مفقود ہو گئیں۔
3:۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ایک معجزہ ہے۔ قرآن کریم اہل زبان والوں کو ہی دعوت دیتا ہے کہ اس فصیح و بلیغ قرآن کی مثل کوئی کلام لے آؤ۔ لیکن مخالفین میں سے کسی کو اس بات کی مجال نہ ہوئی کہ وہ قرآن کریم کے اس چیلنج کو قبول کرے۔ اسی طرح قرآن کریم نہ تو نثر میں ہے اور نہ ہی شاعرانہ کلام ہے۔ قرآن کریم نے ایک نئی طرز تحریر پیش کی۔ اس لحاظ سے بھی یہ معجزا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کو جس خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اس میں نہ تو دوسری نثر پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی نظم۔ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم معجزہ ہے۔
4۔ آئندہ زمانہ کی پیش خبریاں۔ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم معجزہ ہے کہ یہ غیب کی بکثرت خبریں دیتا ہے۔ بلکہ ہر لفظ قرآن کریم کا اپنے اندر پیش گوئی رکھتا ہے۔ مثلاً "الم "سورۃ البقرہ کی دوسری آیت ہے۔ اس کے ابجدی حروف 71 بنتے ہیں۔ اور یہ اسلام کی شان و شوقت سے لبریز سالوں کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح آئندہ زمانہ کی پیشگوئیوں کے حوالہ سے فرمایا:واذا البحار سجرت (یعنی جب نہریں جاری کی جائیں گی۔ اس میں آئندہ نہری نظام کی طرف اشارہ ہے۔ جو ہم آج اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ )واذا الجبال سیرت۔ یعنی جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ (آج پہاڑوں میں بارود رکھ کر اس سے باریک بجری بنائی جاتی ہے اور پھر اس سے سڑکیں تیارکی جارہی ہیں۔ )اسی طرح فرمایا: واذاالصحف نشرت۔ یعنی جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔ آج کل کے دور کے اخبارات و رسائل ،کتب ، میگزین وغیرہ اس پیشگوئی کی صداقت کا منہ بولا ثبوت ہیں۔
5۔ قرآن کریم کے نام میں بھی ایک معجزہ مخفی ہے۔ قرآن کہتے ہیں ایسی کتاب کو جو بار بار پڑھی جائے۔ آج دنیا میں جس کثرت سے قرآن پڑھا جارہا ہے اس کثرت کا عشر عشیر بھی کوئی کتاب نہیں پڑھی جارہی۔ خواہ کوئی عربی ہویا ہندی ہو یا انگریزی بولنے والا، خواہ چینی ہو ، جاپانی ہو ، یا کسی اور ملک سے تعلق رکھنے والا یا اور زبان بولنے والا ، اسے قرآن کریم کی سمجھ آئے یا نہ آئے وہ (مسلمان)قرآن کریم کو عربی زبان میں ہی پڑھتا ہے۔ اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسی ساعت نہیں آتی کہ قرآن کریم دنیا کے کسی نہ کسی کنارے پر پڑھانہ جارہا ہو۔
6۔ قرآن کریم اپنے اندر ایک ایسی مکمل اور کامل تعلیم رکھتا ہے کہ جس پر عمل کرکے انسان مقصد حیات کو پالیتا ہے یعنی اس مقصد کو جو اسکے خالق نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔اور وہ خدا تعالیٰ کی کامل عبودیت اختیار کرنا ہے۔ اور کامل طور پر اسی کی طرف جھکتے ہوئے سر تسلیم خم کر دینا ہے اور معرفت الٰہی حاصل کرنا ہے ، اور اسی کی خاطر اپنی عبادات ، قربانیوں ، زندگی اور موت کو وقف کر دینا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی آمد سے قبل جو حالت اھل عرب کی تھی وہ تاریخ کا علم رکھنے والوں کے علم میں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان وحشی صفت انسانوں کو پہلے بنیادی اخلاق سکھائے۔ پھر انکو اعلیٰ اخلاق پر فائز کیا۔ اور پھر انکو لقائے الٰہی کے درجہ تک پہنچادیا۔ قرآن کریم کی تعلیم پر سب سے پہلے آپ ﷺ نے خود عمل کیااورپھر انکو اس پر عمل کروا کر یہ مدارج تہہ کروائے۔حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
فجعلتھم کسبیکۃ العقیان صادفتھم قوماً کروث ذلۃ
یعنی اے رسول ﷺ آپ نے ان اہل عرب کو گوبھر کی مانند ذلیل پایا۔ پس آپ نے انہیں سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا۔
7۔ قرآن کریم زندہ کلا م ہے۔ اور اسکا فیضان جس طرح 1400 سال قبل جاری ہوا تھا اسی طرح اب بھی جاری ہے بشرطیکہ کوئی اس پر عمل کرے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کا حربہ ہاتھ میں لو ، تمہاری فتح ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ قرآن کریم تمہیں 7 دنوں کے اندر پاک کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے آپ کو اس میدان میں پیش کیا کہ اس پر عمل کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ مجھ سے بھی ہم کلام ہوتا ہے اور قرآن کریم ایک زندہ خدا کو پیش کرتا ہے۔ اور قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ پہلے لوگوں سے کلام کرتا تھا اب بھی وہ کلام کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا الہام ہے کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یعنی خدا تعالیٰ تیری ایسے مردوں سے مدد کرے گا جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔ پس آج جماعت احمدیہ میں ایسے رجال رشیدون موجود ہیں جن سے خدا تعالیٰ کلام کرتا ہے۔ اور خلفاء مسیح موعود ؑ کے بارے میں ہم بلا شک و شبہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کلام کرتا ہے۔
پس سوال کے جواب میں دلائل تو بہت ہیں۔ لیکن آپ پڑھتے ہوئے شائد تھک جائیں اس لئے اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 2:۔ قرآن کریم کن معنوں میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ؟ ثابت کریں۔ اور واضح کریں۔
اما الجواب :۔1۔ قرآن کریم شریعت کے لحاظ سے آخری شریعت ہے۔ اور خاتم الکتب ہونے کی وجہ سے سب کتابوں سے افضل ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ انا خاتم الانبیاء وھذا کتابی خاتم الکتب۔ جس طرح آنحضرت خاتم النبین ہونے کی وجہ سے تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ اور شریعت کے لحاظ سے آخری نبی۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد شرعی نبی نہیں آسکتا اسی طرح قرآن کریم کے بعد کوئی دوسری شریعت کی کتاب نہیں آسکتی۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کی اتباع سے ہٹ کر کوئی نبی نہیں آسکتا اسی طرح قرآن کریم سے ہٹ کر کوئی کلام نہیں آسکتا۔ جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ آنحضرت ﷺ کی کامل پیروی میں آئے اور آنحضرت ﷺ کے دین اور کتاب کی خدمت کے لئے آئے اسی طرح آپ ؑ پر اترنے والا کلام الٰہی بھی قرآن اور دین اسلام کی خدمت کے لئے اترا۔
2۔ اس بارے میں قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ "الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً"یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔ جب قرآن کریم تمام دینی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے۔ اور اس میں کوئی کمی نظر نہیں آتی تو دوسری کتب کی ضرورت نہیں رہتی۔ فرمایا "ما فرطنا فیہ من شییء یعنی ہم نے اس کلام میں کسی قسم کی کمی کوتاہی سے کام نہیں لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ کہ تمہاری کوئی ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں بیان نہ ہو۔ (اپنے الفاظ میں )۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے مخالفین اسلام کو چیلنچ کیا کہ تمہارے جو اعتراضات قرآن کریم ، یا اسلام کے بارے میں ہونگے میں اسکا جواب قرآن کریم سے ہی دوں گا۔ مگر آپ کے اس چیلنچ کے باوجود آپ کے مقابلے پر کوئی نہ آیا۔
مزید ضرورت ہوتو بعد میں بتا دیں۔
سوال نمبر 3:۔ قرآن مجید انسانوں کے لئے جسمانی و روحانی معاملات میں ھدایت کا ذریعہ ہے۔ مثالیں دے کر واضح کریں۔
جواب:۔ روحانی لحاظ سے تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ھدایت کا ذریعہ ہے۔ فرمایا "ھدی للمتقین "اسی طرح نزول کی غرض ہی یہ بتائی "ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم اٰیٰتہ ویزکیھم "کہ وہی خدا تعالیٰ ہے جس نے امیوں میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان پر اس خدا تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے۔
اسی طرح بےشمار آیات اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ قرآن کریم روحانیت کی طرف راہبری کرتا ہے۔
اس کا نمونہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں صحابہ کی حالت کو دیکھنے سے ہمیں ملتا ہے۔ جس طرح قرآن کریم نے ان کی اصلاح فرمائی وہ ہزار معجزوں سے بہتر ہے۔انکو وحشی صفت پایا اور انکو وہاں سے اٹھا کر ایسا مہذب اور باخدا بنا دیا کہ انکو آسمان کے ستارے بنا دیا اور دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے وہ بڑی بڑی سلطنتوں پر قابض ہوگئے۔
قرآن کریم کا طریق ہے کہ وہ یک لخت کسی برائی کو چھوڑنے کا حکم نہیں دیتا۔ بلکہ مدارج میں اپنے متبع کو برائی چھوڑنے کا حکم دیتا ہے۔ سب سے پہلے قرآن کریم نے شرابی کو یہ بتایا کہ اس میں نفع بھی ہے مگر نقصان نفع سے بڑھ کر ہے۔ پھر اسی طرح دوسرے سٹیج پر شراب کی برائی بیان کی اور کہا کہ شرابی نماز کے نزدیک نہ جائیں جب تک کہ وہ ہوش و حواس کی حالت میں واپس لوٹ آئیں۔ اور تیسرے سٹیج پر خداتعالیٰ نے کلیۃ ً ہی شراب حرام کردی۔
اسی طرح قرآن کریم محرک بدی کو ختم کرتا ہے اور گناہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ تم کسی عورت کو بد نظر سے نہ دیکھو۔ یعنی ویسے تم دیکھ سکتے ہو۔ مگر جب دیکھ لیا تو دل میں خود بخود ہی ایک نوجوان کے بدی پیدا ہوجائے گی۔اس بارے میں قرآن کریم کامل تعلیم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ "قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظو ا فروجھم "یعنی تو مومنوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ پس جب نگاہ ہی نہیں پڑے گی تو انسان بدی سے بچا رہے گا۔
پس قرآن کریم بدی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ پھر اس سے بچنے کا طریق بھی بتاتا ہے۔ روحانیت کے لحاظ سے کسی بھی درجہ پر انسان فائز ہو قرآن کریم اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ علت غائی قرآن کریم کی یہی بیان کی گئی ہے کہ جو متقی ہیں ان کے لئے بھی یہ قرآن کریم ہدایت کا موجب ہے۔
جسمانی لحاظ سے ھدایت اس جگہ پر دیتا ہے جہاں جسم کا روح یا دین کے ساتھ تعلق ہو۔
مثلاً خوراک ہے۔ خوراک کا انسانی اخلاق پر گہرا اثر ہے۔ اگر کوئی خنزیر کا گوشت کھاتا ہے تو وہ شہوت کی اور ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بکثرت گوشت ہی کھاتا رہے تو اسکی طبیعت میں شدت آجاتی ہے۔ اور اگر کوئی صرف سبزیاں ہی کھاتا رہے اور گوشت نہ کھائے تو وہ بزدل ہوجاتا ہے۔ پس قرآن کریم خوراک کے حوالہ سے بھی اعلیٰ تعلیم دیتا ہے۔ فرماتا ہے "کلوا حلالاً طیبا "اسی طرح فرمایا "کلوا من الطیبات ما رزقناکم "یعنی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اسی طرح فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ان میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔
طیب یعنی پاک چیز سے مراد یہ ہے جو طبیعت کے موافق ہو۔ یعنی اگر ایک مریض ہے اور اسے مرغی کا گوشت یا بڑا گوشت موافق صحت نہ ہو تو گوشت کھانا اس کے لئے حلال تو ہوگا لیکن طیب نہیں ہوگا۔ کیوں کہ گوشت کھانےسے اس کی طبیعت کا حرج ہوگا۔
پس قرآن کریم کی مکمل تعلیم فطرت صحیحہ کے مطابق ہے۔یعنی جو مطالبہ اس کی طبیعت کا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم اسے تعلیم دیتا ہے۔
2۔ میاں بیوی کے آپس کے معاشرت کے طریق کا بیان ، 3۔ پر امن معاشرے کے قیام کے بیان میں اسی طرح ہمسائے کے حقوق ، والدین کے حقوق ، قیدیوں کے حقوق ، غلاموں کے حقوق وغیرہ ان سب کی طرف قرآن کریم رہنمائی کرتا ہے۔

سوال نمبر 4:۔ وضاحت کریں کہ قرآن کی تلاوت ایمان والوں میں روحانی نشو ونما اور دلی سکون کا باعث بنتی ہے۔
سورج سب کے لئے روشنی فراہم کرتا ہے لیکن اگر کوٹھڑی کی تمام کھڑکیاں دروازے بند کردئیے جائیں تو اس کوٹھڑی میں اندھیرا ہی رہے گا۔ پس سورج کی روشنی سے حصہ پانے کے لئے کوٹھڑی کی کھڑکیوں دروازوں کو کھولنا پڑے گا۔
سوال میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔
انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم و اذا تلیت علیھم اٰیٰتہ زادتھم ایماناً وعلیٰ ربھم یتوکلون۔(الانفال آیت 3)
یعنی مومن صرف وہ ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جب ان پر خداتعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ انکو ایمان میں بڑھاتی ہیں۔ اور (مومن صرف وہ ہیں ) جو اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جو خداتعالیٰ کے ذکر پر اس کا خوف اپنے دل میں نہیں پاتے اور خداتعالیٰ کی آیات کی تلاوت انکو ایمان میں نہیں بڑھاتی اور وہ خدا پر ہر معاملے میں توکل نہیں کرتے وہ حقیقی مومن نہیں۔
اسی مضمون کی آیت قرآن کریم میں آئی ہے کہ "وذکرفان الذکری ٰ تنفع المؤمنین "(الذاریات آیت 56) یعنی اے محمد ﷺ! نصیحت کرتا چلا جا۔ پس یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس آیت کا یہ مطلب بھی ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ جو نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ ایمان کی حالت دل میں نہیں رکھتا اور اسکا دل سیاہ ہوچکا ہے۔ اور اسکے لئے فکر کا مقام ہے۔
پس ایک تو ظاہری الفاظ دہرا کر بیعت میں داخل ہو جانا ہے۔ وہ یہاں مراد نہیں۔ بلکہ ایمان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے عمل صالح کی ہر جگہ شرط لگائی ہے۔ ایمان لانا باغ لگانے کی طرح ہے اور عمل صالح اسکی آبشاری کرنا ہے۔
ایمان کی کئی اقسام ہیں۔ ایک تو کسی کو مان لینا یا اسکی بیعت کر لینا یہ بھی قرآن کریم کے بیان کے مطابق ایمان ہے۔ لیکن قرآن کریم میں ایمان کے اعلیٰ درجے کا ذکربھی ملتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا"قالت الاعراب اٰمنا۔قل لم تؤمنواولٰکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم۔ یعنی بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ اے رسول ﷺ تو ان سے کہہ دے کہہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم کہوکہ ہم نے اسلام قبول کرلیا اور ابھی ایمان تمہارے دل میں داخل نہیں ہوا۔
قرآن کریم کے بارے میں خدا تعالیٰ کا بیان ہے کہ "لایمسہ الا المطھرون "یعنی اس قرآن کے مطالب کو سوائے پاکیزہ لوگوں کے کوئی نہیں چھو سکتا۔
اسی طرح نماز کے بارے میں فرمایا کہ ان الصلوٰۃ تنھی ٰ عن الفحشاء والمنکر "یعنی یقیناً نماز ذاتی بدیوں اور کھلی کھلی برائیوں سے روکتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ پنجوقتہ نمازی بھی بعض اوقات برائیوں میں پڑے نظر آتے ہیں۔ توہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالیں گے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کا کلام غلط ہے بلکہ یقیناً اس شخص نے صلوٰۃ کے مفہوم کو نہ سمجھا اور نماز کو اسکی شرائط سے ادا نہیں کیا اسلئے نماز اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔
پس اگر مومن قرآن کریم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اسکی تعلیم پر عمل ضروری ہے۔ اور جب وہ عمل شروع کر دیتا ہے تو اسکو خدا تعالیٰ کا کلام نفع پہچاتا ہے۔
2:۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جس سے ہمیں پیار ہو اسکی ہر حرکت و سکون کو ہم غور سے دیکھتے ہیں۔ اور اسکے کلام کو ہم غور سے سنتے ہیں۔ اور اسکی تحریراگر ہمیں اپنے نام مل جائے تو ہم اسے مزے لے لے کر پڑھتے ہیں۔ہماری جماعت کے افراد خلفاء سے حقیقی محبت رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو خلیفہ وقت کی طرف سے خط آئے اور اسمیں خلیفہ وقت کی نصیحت ہو یا پیار کا اظہار ہو تو ہم اسے بار بار پڑھتے ہیں۔ اور اسے محفوظ رکھتے ہیں۔ جب ہم اپنے محبوب کی 4 لائنوں کو اتنی محبت اور مزے لے لے کر پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی بتاتے ہیں کہ حضور نے مجھے میرے نام سے یہ نصیحت فرمائی ہے۔ تو اندازا کریں کہ جس کو خداتعالیٰ سے محبت پیدا ہوجائے۔ پھر وہ اس کے کلام کو اٹھاکر بیٹھے اور اس یقین کے ساتھ پڑھے کہ اسکا اتارنے والا میراپیارا رب ہے جس نے مجھے دنیا میں سب سے زیادہ پیارکرنے والی ماں دی ،باپ دیا، بہن بھائی ، دوست۔ دیکھنے کے لئے آنکھیں ، سونگھنے کے لئے ناک ، چکھنے کے لئے زبان ،جس سے مختلف کھانوں کے ہم مزے لیتے ہیں۔ چلنے کے لئے ٹانگیں دی ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو چلنے کے قابل نہیں۔ غرض کہ خداتعالیٰ کی تمام نعمتوں کومد نظر رکھیں گے اور اس سے محبت کے نتیجہ میں اور اس ایمان و ایقان کے ساتھ کہ مکمل طور پر یہ کلام خدا تعالیٰ کا اتارہ ہوا ہے تو اس محبت کے نتیجہ میں جب قرآن کریم کو پڑھیں گے۔ تو ضرور یہ قرآن کریم ایمان میں ازدیاد کا باعث بنے گا اور سکون اور اطمئنان نازل ہوگا۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :۔
"وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمۃ ولایزید الظالمین الا کفارا"یعنی ہم نے قرآن میں ایسی آیات ہی اتاری ہیں جو روحانی و جسمانی شفا ء کا موجب بنتی ہیں اور رحمت کی تعلیم پر مشتمل ہیں۔ اور یہ کلا م ظالموں کو کفر میں ہی بڑھاتا ہے۔
پس قرآن کریم کو توجہ ، تفکرو تدبر ، اور الحاء سے پڑھنے کی ضرورت ہے اورپھر اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حقیقی لذات حاصل ہوتی ہیں۔ جب ایسی حالت تاری ہوتی ہے تو اس کا صرف پڑھنا بھی لذت دیتا ہے۔
اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئی ہو تو براہ مہربانی دوبارہ ضرور سوال کریں۔ تا ہمارا فرض پورا ہو۔

ZAFRULLAH KHAN
About the Author: ZAFRULLAH KHAN Read More Articles by ZAFRULLAH KHAN: 7 Articles with 39989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.