ڈاکٹر منصور خوشتر
ایڈیٹر ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ در بھنگہ
غلام نبی کمار ان نوجوان قلم کاروں کی صف میں کھڑے ہیں جنھیں ادب کی نئی
منزلوں کا پتہ ہے ۔ پیش نظر کتاب ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ کو غلام نبی کمار
نے اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین سے سجایا ، سنوارا ہے۔ 368صفحات پر محیط اس
کتاب میں 75 مضامین ہیں۔ مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے انھوں نے پوری کتاب
کو آٹھ ابواب مثلاً ’’تحقیق و تنقید کے شوشے گوشے، رواں صدی کی رواں شاعری،
عصری فکشن کے جھلملاتے ستارے، باب خود نوشت نگاری، باب مکتوب نگاری، باب
ادب اطفال، باب فن تبصرہ نگاری اور رواں صدی کی ادبی صحافت ‘‘میں تقسیم کیا
ہے۔
غلام نبی کمار فی الوقت دہلی یونی ورسٹی میں پی۔ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔ لیکن اس
کے ساتھ ساتھ انھوں نے پڑھنے لکھنے کی طرف بھی خوب توجہ دی۔ جس کی بنیاد پر
انھیں اردو کے سنجیدہ اور محنتی اسکالروں میں شمار کر سکتے ہیں۔انھوں نے
چند برسوں میں اپنی تحریروں سے پوری اردو دنیا کو بہت کم وقت میں اپنی طرف
متوجہ کیاہے۔ انھوں نے اپنے دائرہ نظر کو وسیع کرتے ہوئے کتابوں کا گہرائی
سے مطالعہ کیا اور ان کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کیاہے ۔ غلام نبی کمار
نوجوان نسل میں انتہائی فعال اورمتحرک ہیں۔عہدحاضر کے معتبر رسائل و جرائد
میں ان کے تبصرے اورمضامین مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں ۔
پیش نظر کتاب میں مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر محمد ابراہیم ڈار، پروفیسر
ارتضیٰ کریم، پروفیسر مجید بیدار، ڈاکٹر قمر جہاں ، ظہیر غازی پوری ، ناوک
حمزہ پوری ، ڈاکٹر عباس رضا نیر، شوکت پردیسی، حسن نعیم، اسلم مرزا، سلام
بن رزاق، دیپک بدکی، ڈاکٹر معصوم شرقی ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ڈاکٹر شاہ رشاد
عثمانی ، ڈاکٹر ایم، نسیم اعظمی، احمد جاوید، آفاق عالم صدیقی، خورشید
حیات، کلیم حاذق، اشتیاق سعید، افضال عاقل، ابرار احمد اجراوی، ڈاکٹر منصور
خوشتر، ڈاکٹر یوسف رامپوری ، ڈاکٹر حنا آفرین وغیرہ جیسے ادبا پر مضامین
قلم بند کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ کتاب کے باقی گوشوں میں بھی اکیسویں صدی
کے اہم ادیبوں،شاعروں، فکشن نگاروں اور صحافیوں کی خدمات کا جائزہ لیا گیا
ہے۔
’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘ کے مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب کا مطالعہ کس
قدر گہرائی سے کیا جاسکتا ہے اور اس سے کس قسم کے نتائج اخذ کیے جا سکتے
ہیں۔ ان مضامین سے مصنف کے تنقیدی اور تحقیقی نقطہ نظرکی وضاحت ہوتی
ہے۔غلام نبی کمار کا اسلوب بیان بہت سادہ اور دلچسپ ہے جو قاری کو مطالعہ
کی دعوت دیتا ہے اور مضامین کے مطالعہ میں دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے۔انھوں
نے اپنے مضامین میں مصنفیں و مرتبین کے تنقیدی ،تحقیقی اور تالیفی خوبیوں
اور خامیوں کی بڑی غیر جانبداری سے وضاحت کی ہے۔
پروفیسر صادق اپنے تقریظ میں لکھتے ہیں کہ ’’غلام نبی کمار اکیسویں صدی کی
دوسری دہائی میں روشن ہونے والا ایک ایسا نام ہے جسے عہد حاضر میں اردو کے
بیشتر نئے اور پرانے لکھنے والے جانتے ہیں۔ اس کے لکھے ہوئے تبصرے اور
مضامین گذشتہ چند برسوں سے ہندو پاک کے مختلف رسائل و جوائد میں تواتر کے
ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ‘‘
اپنی کتاب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی کمار یوں رقمطراز ہیں
کہ’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ میں مختلف موضوعات اور اصناف کی کتابوں پر پچھتر
تبصرے نما مضامین شامل ہیں۔ جو رواں صدی کی شائع شدہ کتابوں پر تحریر کیے
گئے ہیں اور ان کتابوں کے قلم کاراور ادیب و شاعرحضرات بھی اسی عہد کے ہیں۔
اس کتاب کے تمام مضامین ہندوستان کے مؤقر رسائل اور اخبارات میں مختلف
اوقات میں شائع ہوچکے ہیں جن میں اردو دنیا، آجکل ، ایوان اردو، کتاب نما ،
پیش رفت، تریاق ، شیرازہ ، اردو بک ریویو ، دربھنگہ ٹائمز،تحقیق دربھنگہ،
ثالث، عالمی میراث اور ہماری زبان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔‘‘
کتاب کے فلیپ پر معروف نقادر حقانی القاسمی اور ڈاکٹر مشتاق عالم قادری
جبکہ بیک کور پر پروفیسر عبدالستار ردلوی کی تحریروں نے کتاب کی اہمیت مزید
بڑھا دی ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کتاب نے اردو کے معروف ادیبوں کی
توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ کتاب’’اردو کی
عصری صدائیں‘‘ اردو حلقے میں خوب پذیرائی ہوگی۔
|