عالمی و سیاسی منظر نامے روز
بروز بدل رہے ہیں کئی ممالک کے سربراہان اپنے اپنے عہدو ں سے سبکدوش ہو کر
جلا وطنی کی زندگی گزارنے کی دوڑ میں کھڑے نظر آ رہے ہیں جن میں تیونس ،مصر
،اردن وغیرہ شامل ہیں ۔کیونکہ تیونس کی طرف دیکھا جا ئے تو اس کی عوام کو
مہنگا ئی، غربت ،بے روز گاری اور کرپشن نے اس کو بغاوت پر مجبور کر دیا تھا
زین اور اس کی لیلیٰ پوری طرح ملک کو دیمک کی طرح نوچ رہے تھے اور عوام
اندر ہی اندر گھٹ کر مر تی جا رہی تھی حکمرانوں کے اثاثے دن بدن بڑھ رہے
تھے اور غریب عوام غریب سے غریب ہو تی جا رہی تھی اور اس طرح مصر کی طرف
نظر دوڑائیں تو وہاں بھی حالات اس سے قدرے مختلف نہ تھے ، اس کے صدر کے
خلاف بھی ملکی عوام اٹھ کھڑی ہو ئی ہے جس نے اپنے ملک پر کئی دہا ئیوں سے
”قبضہ “کیا ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ جلسے و جلوس پر بھی پا بندی اس کی ایماء
پر لگائی گئی تھی اخبارات اور باقی میڈیا کو بھی اپنے گھر کی لو نڈ ی
سمجھنا شروع کر دیا تھا وزارت اطلاعات پوری طرح اخبارات کو مانیٹر کرتی تھی
۔اور باقی کاموں میں بھی اس کی ایماء چلتی تھی ان سارے مظالم سے تنگ آ کر
عوام نے اپنے حقوق کے لئے جا نیں دینے کا عزم کر کے اس اقدام کی طرف قدم
بڑھا ئے کیو نکہ وہ دن بدن زیادہ مشکلا ت کا شکار ہو رہے تھے اس کے ساتھ
ساتھ شخصی آزادی بھی کھو چکے تھے اور وہ اس سے اپنے آ زادی حا صل کر نا چا
ہتے تھے-
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہو ئے پاکستان کے بڑے بڑے مبصرین ،تجزیہ نگار و
کالم نگار بھی اس پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ کہہ رہے ہیں اور پاکستان
کا موازنہ مصر ، تیونس سے کر رہے ہیں کہ جیسے وہاں انقلاب آ یا یہا ں بھی آ
سکتا ہے راقم کو خوشی ہے کہ وہ ہماری راہنما ئی کر رہے ہیں۔مگر تھوڑا
اختلاف بھی ہے کیو نکہ اپنے ملک کا با ریک بینی سے مطالعہ کیا جا ئے تو یہ
با ت واضح طور پر سا منے آ تی ہے کہ پا کستانی عوام ااور انقلاب کے درمیان
موازنہ کیا جا ئے تو حالات انقلا ب سے کو سوں دور نظر آ تے ہیں کیو نکہ
پاکستانی عوام نے ان 63سا لوں میں ہر ایک کو آ زما کر دیکھ لیا ہے اس ملک
نے”جمہوریت کی خو بصورتی“ کا راگ الاپنے والوں کو بھی دیکھ لیا ہے اور
ڈکیٹر شپ کے بھی33سا ل گزار لیئے ہیں-
نواز شریف صاحب کو بھی دیکھ لیا ہے اور محترمہ بینظیر صاحبہ کے ساتھ بھی
وقت گزار چکا ہے بھٹو صاحب کو بھی اس ملک نے ویلکم کہا اور چوہدری برادران
و مشر ف کو بھی اس نے اور عوام نے برداشت کر لیا۔ دینی جما عتوں کے سیاسی
جا ل بھی دیکھ لیئے ہیں اور آزادی خیالی کے نعرے بھی سن لیئے ہیں۔ بتانے کا
مقصد یہی ہے کہ ملک و عوام نے ہر کسی کو آ زما لیا ہے اور کو ئی حکمران بھی
ایسا نظر نہیں آ یا جس نے ملک کو نہ لوٹا ہو جس کا کردار صاف اور پالیسیاں
غریب محنت کشوں کے حق میں ہوں ہر کسی نے ”امریکی ڈالروں کی بھیک “ میں اپنا
ضمیر تک بیچ ڈالا اور اپنی عوام کو ان سیا ست دانوں ، وڈیروں ، جا گیر
داروں، نوازوں، چوہدریوں نے مزاروں سے زیادہ حیثیت نہ دی اس کے ساتھ ساتھ
عوام کے رویے کی طرف دیکھیں تو یہ ان سیا ستدانوں کو ایسے پو جتی ہے جیسے
ہندو اپنے بھگوانوں کو پو جتے ہیں ۔اور یہ عوام ابھی تک صحیح طور پر بیدا ر
نہیں ہو ئی نہ ہی اس میں ا نقلاب والا شعور آیا ہے جس کا فائدہ یہ حکمران
بہت خو بصور تی سے اٹھا رہے ہیں کیو نکہ آج بھی ان سیا ستد انوں نے عوام سے
ان کے ووٹ گندم سے لے کر پیسوں تک سے خریدے ہو ئے ہیں ۔اور عوام بھی ابھی
تک ہو ش میں نہیں آ ئی ان حکمرانوں کے کرتوتوں کو صحیح طور پر آ ج تک نہیں
جا ن سکی بس تصویروں کو پو جتی آ رہی ہے مر نے کے بعد بھی اس کی پار ٹی کو
اپنے لئے” محترم “جا نتے ہو ئے اس کا سا تھ دیتی ہے چا ہے وہ بعد میں زہر
قا تل بن جا ئے ۔ ا سکے سا تھ ساتھ عوام آ ج تک ابن بن ابن کی سیا ست سے ہی
با ہر نہیں نکل پا ئی۔ بلکہ ان بے حس اور بے ضمیر حکمرانوں کے جھو ٹے نعروں
کو ہی اپنے لئے ”آقا کے حکم“ جیسا مقدس سمجھتے ہو ئے اس پر خوشی خوشی تا
لیاں بجا تے بجا تے گھر آ جا تی ہے-
انقلاب اس لئے بھی نہیں آ ئے گا کیو نکہ انقلاب کے باہر نکلنا پڑتا ہے جا
نیں دینی پڑتی ہیں وقت نکلنا پڑتا ہے اور اپنے کا روبار بھی بند کر نے پڑتے
ہیں ۔اپنی آ واز کو بلند کر نا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ پاکستانی عوام کر
نہیں سکتی نہ اپنا کاروبار نہ ہی اپنی دیہاڑی چھوڑ سکتی ہے اور ایک صاف ،
مخلص، اور نڈر لیڈر بھی چاہیئے ہو تا ہے جو ان کی آ واز اقتدار کے ایوانوں
میں بیٹھے ”بہروں “تک پہنچا تا ہے۔ جب کہ پاکستان میں 63سال سے پا لیسیاں
ہی ایسی بنا ئی گئی ہیں کہ غریب کو اس قدر ذلیل کر دو کہ وہ کچھ سو چ سمجھ
نہ سکے اسے ایسے الجھا دو کہ اسے اپنے اور خاندان کے لئے روٹی کی پڑی رہے
اور وہ حکمرانوں کے کالے کر توتوں کو نہ جا ن سکیں نہ ان کی چا لیں ان کی
سمجھ میں آ سکیں-
میں ان الفاظ میں اپنا کالم ختم کر تا ہوں کہ راقم کو دور دور تک انقلاب کی
ہو ا آ تی نظر نہیں آ تی کیو نکہ عوام آ ج بھی خواب غفلت میں سو ئے ہو ئے
ہیں اور کو ئی لیڈر بھی ایسا نہیں جو اس بے حس عوام کو جگا سکے اور ان کے
حقوق کے لئے آواز بلند کر سکے اور نہ ہی کو ئی لیڈر کردار کا صاف ، امریکی
غلامی سے دور، ڈالروں سے انکاری اور اپنے بول پر قائم رہنے والا موجود ہے- |