اُن کا لباس

جس سے اُس نے مجازی محبت کی تھی اور جسے مجازی عشق نہیں کہا جا سکتا تھا کیونکہ عشق تو محبت کی انتہا ہے اور وہ عام سی محبت تھی اور اور ویسے بھی عشق کہنے سے لگتا ہے جیسے کوی بگڑ گیا ہے اور محبت معاشرہ قبول کر ہی لیتا ہے اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا یا وہ اس کی عادی ہو گئ تھی مگر کچھ تو تھا درمیاں

اور وہ غیر محسوس طریقے سے بڑھتا ہی جا رہا تھا اور نشہ تھا کہ چڑھتا ہی جا رہا تھا اور زمانہ ان سے لڑتا ہی جا رہا تھا اور ایک قانونی رشتے میں ڈھلتا ہی جا رہا تھا اور یہ رومانوی جوڑا نکھرتا ہی جا رہا تھا کہ یکایک کوی آگیا ان کے درمیاں اور اسے شدید دھچکہ پہنچا اور غلط فہمیاں جنم لینے لگی تھیں اور اس سے پہلے کیا خوش فہمیاں تھیں اور کیا وہ محبت ایک دھوکہ تھی یا سراب یا تقدیر کا لکھا اور ایک امتحان سے گزر کر صبر کا سیکھنا اور وہ آہستہ آہستہ آزاد ہونے لگا تھا خود یا وہ خود آہستہ آہستہ آزاد کر رہی تھی اپنی بے مروتی سے یا وہ خود بیزار ہوتا جارہا تھا یا وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی اور وہ دوسروں کی مرضی پر چل کر تھک چکی تھی ان سوالوں کے جواب تو شائد کبھی نہ مل سکیں اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے اور بیک گراونڈ میں گانا عابدہ پروین کا چل رہا ہو

آپ غیروں کی بات کرتے ہیں
ہم نے اپنے بھی آزماے ہیں

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں
ہم نے پھولوں سے زخم کھاے ہیں
اُس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گُزری ہو گی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

لیکن ایک بات سمجھ آ گئ تھی کہ اگر خوشگوار زندگی گزارنی ہے تو دونوں کی خوشی ضروری ہے اور فکر تونسوی کا خوبصورت فقرہ یاد آگیا
" دونو کی خوشی میں ہی دونوں کی خوشی ہے "

اور خوشی تو دونوں طرح مل سکتی ہے کوی آزاد رہ کر خوش رہنا پسند کرتا ہے اور کوی کسی کا پابند اپنی خوشی سے رہنا چاہتا ہے یا کسی کی محبت میں قید رہنے میں ہی خوشی محسوس کرتا ہے اور اس قید با مشقت میں ہی اس کے لیے مشقت کرنا لُطف دیتا ہے اور وہ ایسا کرتا رہا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ اس نے محسوس کیا کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں میں اس کو کوی تحفہ دوں تو اس کو اچھا نہ لگے اس کے قریب جاوں تو وہ دور ہو جاے مسکرا کے بات کروں تو روکھے انداز میں بات کرے اب کرے تو کیا کرے اگر کوی غلطی ہو جاے تو معافی بھی مانگ لی بہر حال یہ صورت حال کہیں نہ کہیں لے جا رہی تھی اور ایک سادہ یہ بات سمجھ آرہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے اندر اتنا زیادہ جزب کر چکے تھے کہ وہ ہوا جو شکم سیری اور وافر پانی پینے کے بعد ہوتا ہے کہ غزا کی طرف بالکل التفات مفقور ہو جاتا ہے دوسری بار بھوک اور پیاس لگنے تک اور وہ دوسری بار کا آنا کسی وجہ سے رک جاے اور پیاس نہ لگے اور لگے تو دریا کے بجاے سمندر کی اور یا پھر اطراف کے لوگوں کی بے جا مداخلت اور قریبی لوگوں کی نادان خیر خواہی یا تقدیر کچھ کام لینا چاہتی تھی کسی ایک سے اور اس سے گزرنا ضروری تھا اور یا کسی عمل کا رد عمل کچھ واضع نہیں تھا مگر وجہ جو بھی ہو ہوا وہی جو ہو رہا تھا اور جو ہو گیا تھا جو ہونا ہی تھا اور بات وہی ہونی تھی اور ہونی انہونی میں بدل رہی تھی اور انہونی دعا سے ہو جایا کرتی ہے مگر دعا بھی بہتری اور مصلحت کی پابند ہے اور جو ہو چکا تھا وہ بھی غنیمت تھا اور صد شکر کہ یہیں تک تھا اور کسی کی دعا سے اس سے آگے نہ بڑھا تھا اور جتنا ہو چکا تھا اس کے باوجود خدا کی بے شمار نعمتوں کا شکر تو ادا کرنا تھا اور اب سواے صبر شکر اور اور خاموشی کے اور خوشگوار لاتعلقی کے جو زندگی گزارنے کے لیے اور عاقبت سنوارنے کے لیے ضروری تھی اور اس رشتہ کو جوڑے رکھنے کے لیے اور اور اس رشتہ سے جڑے دوسرے رشتوں کی بقا اور بہتری کے لیے خاموشی سے وقت گزارنا تھا اور اس وقت کو کچھ نہ کچھ تو سنوارنا تھا اور کم از کم خاندان کا بھرم تو قائم تھا اور محبت کی جھوٹی سچی لاج تو رکھنی تھے اور اس محبت کے ان پر احسانات بھی تو تھے اور وہ تعلق ان کے لیے لباس بھی تو تھا

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ

وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.