سانحہ ساہیوال،ایک سوالیہ نشان۔۔۔۔۔۔۔۔

سانحہ ساہیوال، حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان۔۔۔۔۔۔۔۔

اے آرطارق

ساہیوال واقعہ نے جہاں ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالات کو جنم دیا ہے،وہیں عوام میں خوف وہراس اور دہشت پھیلانے کا بھی سبب بنا ہے۔ معصوم خاندان کو نشانہ بنانے والے پولیس اہلکار وں سے بھی بڑے مجرم وہ ہیں ،جنہوں نے سی ٹی ڈی کو غلط انفارمیشن دی،ریاست شہریوں کی ماں ہوتی ہے،یہ کیسی ماں ہے جو دودھ پلانے اور تحفظ دینے کی بجائے شہریوں کا خون پی رہی ہے،پنجاب حکومت کے وزراء
مسلسل جھوٹ در جھوٹ بول کر مجرموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں،سی ٹی ڈی کا عالم یہ ہے کہ اب تک بارہا اپنے موقف بدل چکی ہے مگر بات یہ ہے کہ دن کی روشنی میں ہونے والے اس سانحے کو کسی بھی طرح سے دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی حقائق سے نظریں چرائی جاسکتی۔حکمرانوں نے قوم سے اپنی الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے جبکہ ساہیوال واقعہ میں حکومت اور حکومتی کرتا دھرتانے چوبیس گھنٹوں میں ایک دو بار نہیں،بارہا بار جھوٹ بولا اور اپنا موقف بدلا۔آئین پاکستان کی دفعہ 9 شہریوں کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہے مگر پنجاب حکومت اور اس کے اداروں نے کمال پھرتی اور مہارت کا مظاہرہ کرتے،اپنی ’’بے مثال‘‘کارکردگی سے’’ ناممکن کو ممکن‘‘ کرکے ذیشان کے تانے بانے دہشت گردوں سے ملا کر،بالکل اس طرح جس طرح کراچی میں 13جنوری2018 کو نقیب اﷲ محسود کے ہمراہ مارے جانے والے محمد اسحاق کے تانے بانے نقیب اﷲ محسود سے ملائے جاتے تھے،جس کا تعلق احمد پور شرقیہ سے تھا،جسے سی ٹی ڈی پنجاب نے پورے علاقے کے سامنے اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا،نجانے وہ کون سے کرشماتی طریقے ، کراچی کیسے پہنچا اور راوٗ انوار کے ہاتھ کیسے لگا۔لاہور کے ایک خاندان سے زندگی کا حق چھین لیا اور ایک خاندان کو برباد کرکے اس کے فرزند ارجمند کو دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ کہا گیا کہ یہ دہشت گرد ہیں تو وزیر قانون نے ان کے گھر والوں کو 2 کروڑ دینے کا اعلان کیوں کیا،دو کروڑ دینے کا اعلان کر کے حکومت نے خود اعتراف کیا کہ پولیس نے بے گناہ خاندان کو قتل کیا،پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر میں اب جا، کے 16 میں سے 5 افراد کو نامزد کیا گیاہے اور باقی کو بچالیا گیا ہے،کچھ کو معطل اوربہت سوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے،5افراد کو نامزد کرکے 11 افراد کو غیر محسوس انداز سے چھوڑ دیا گیا ہے،یہ ہی چھوڑے گئے پولیس افسران ہی ان پھنسے ہوئے اہلکاروں کے نکلنے کا کوئی نہ کوئی سامان کریں گے اور ان پھنسے ہوئے افراد کو وقت گزرنے کے ساتھ عوامی پریشر ہلکا ہونے پر پرنکال باہر کریں گے،ویسے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ آنے کے بعد یہ بیان کہ آپریشن سو فیصد درست تھا،ان کو نکالنے کی راہوں میں معاون کردار ادا کرے گا،حالانہ ایسا بیان نہیں آنا چاہیئے تھا ،جوکہ سیکیورٹی اداروں کے پریشر اور دباوٗ کے سلسلے کی ایک کڑی،اہلیت وصلاحیت سے عاری گورنمنٹ اپنی سیاسی بقاء کی یقین دہانی پر ایسا دباوٗ قبول کرنے پر مجبورہے،نہیں سمجھتی کہ متاثرہ خاندان کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو بچانے پران کی حکومت کے دن بڑھے تو شاید نہ،مگرکم ضرور ہوگئے ہیں،جنہیں اس کا اندازہ اب نہیں،آنے والے وقتوں میں اپوزیشن موقف کی عوامی نبضوں پر ہاتھ ہونے کی صورت میں ہوگا،اس وقت صاحب اقتدار کا حال یہ ہوگا کہ نہ صنم ملا،نہ وصال صنم،یہ ان ظالم ،سفاک اہلکاروں کو بچانے کی صورت میں بہت جلد خود دھڑن تختہ ہوجائیں گے مگر اس کا احساس انہیں تب ہوگا ،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔حکومت کو سوچنا چاہئیے کہ معصوم بچوں پرتو جنگل کے درندے بھی حملہ نہیں کرتے،ہمارے معاشرے کو جنگل سے بھی بدتر معاشرہ بنادیا گیا ہے،جس میں کسی بھی غریب کے خون کی کوئی قیمت نہیں،اگر یہ قتل رات کے اندھیرے میں ہوتا تو سب کوسی ٹی ڈی کے جھوٹ پر اعتبار کرنا پڑتا،مگر دن کی روشنی اورسینکڑوں لوگوں کے سامنے ہونے والے اس قتل کو چھپانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکتی تھی،درجنوں لوگوں نے اپنے موبائل فونز میں تصویریں اور ویڈیو بنائی ہیں،اس لیے اس المناک واقعے کے لیے مذمت کے الفاظ بے معنی ہوکے رہ گئے ہیں۔پاکستان میں ریاست مدینہ اور تبدیلی کے دعویداروں کی نااہلی،بد نیتی کھل کے سامنے آگئی ہے،قلیل وقت میں ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی مناسب راستہ حکومت کے پاس نہیں،بس دلاسے ہیں جو دئیے جا رہے ہیں،ملک کا کسان دیوالیہ ہوچکا ،اقتصادیات کے چیمپیئن ہونے کے دعویداروں کوبجٹ دربجٹ پر منہ کی کھانا پڑ رہی،جب سے یہ حکومت آئی ہے مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے ،چیزیں مہنگی اور کام ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،ہر دفتر؍فیکٹری کے دروازے پر NO VACANCYکا بورڈ لگا ہوا ہے۔پچھلی حکومتوں کی ناقص حکمت عملی سے سرمایہ کار دیار غیر جابسے تو اس حکومت کی کرم نوازیوں سے یہاں کوئی بسیرا کرنے کو تیار نہیں،لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بری طرح خراب ہو چکی،شہریوں کی جان ومال غیر محفوظ ہوکر رہ گئی،ملک میں رعایا کا کوئی پرسان حال نہیں،بے گناہ لوگ مارے جارہے ، کنٹرول نہیں ہو پا رہااور امداد کے اعلانات کی بارش ژالہ باری کی طرح کی جارہی ہے اور یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے،یہ زندگی اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور یہاں پر حکومت پنجاب غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جو پولیس اہلکار سانحہ ساہیوال میں ملوث ہیں،ان کا درست تعین کیا جائے اور انہیں قرارواقعی سزادی جائے اور قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ وہ کون سی سیکیورٹی ادارے تھے ،جنہوں نے سی ٹی ڈی کوغلط انفارمیشن دی، جس کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا،اداروں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ جس کو چاہیئں،سڑک کنارے کھڑا کرکے گولیوں کا نشانہ بنا دیں،اگر یہ لاقانونیت اسی طرح جاری رہنی ہے توپھر عدالتوں کو تالہ لگادیں اور پولیس کو یہ اختیار دے دیں کہ وہ خود ہی منصف بنے اور فیصلے کرتی رہے۔

Muhammad Irfan
About the Author: Muhammad Irfan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.