آخری عباسی خلیفہ معتصم باﷲ کا دور تھا۔ ہلاکو بہت
تیزی سے بغداد کی طرف گامزن تھا۔کسی نے اس کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی
کوشش کی کہ مسلمان کے خلیفہ کی حیثیت گو بڑی رسمی ہے مگر مسلمانوں کی
تمام ریاستیں اور پوری دنیا کے مسلمان اپنے خلیفہ کا حد درجہ احترام
کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بغداد پر چڑھائی کی صورت میں تمام مسلمانوں
میں خفگی کی لہر دوڑ جائے اور سارے مسلمان اپنے خلیفہ کی تکریم میں
یکدم متحد ہو جائیں، ہر طرف بغاوت پھوٹ پڑے اور ہلاکو کے لئے کچھ مشکل
کھڑی ہو جائے ۔ہلاکو پریشان ہوا اور اس نے اس وقت کے مشہور مسلمان
سائنس دان نصیر الدین طوسی سے مشورہ طلب کیا۔طوسی مسکرایا اور بادشاہ
کو رائے دی کہ وہ عام افواہوں پر بالکل دھیان نہ دے۔ لوگوں نے نبی کریمﷺ
کے کئی صحابہ کو شہید کیا ہے۔ کئی خلفا شہید کر دئیے گئے لیکن کچھ نہ
ہوا، کسی قسم کا انقلابی طوفان نہیں اٹھا۔ آپ پیش قدمی جاری رکھیں۔
بغداد کی فتح کا فقط ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ وہاں خلیفہ مستعصم کی جگہ
ہلاکو کی حکومت ہو گی۔
جنوری 1257 کے آغاز میں ہلاکو ہمدان سے روانہ ہوا اور اپنے افسروں کو
بھی موصل کے راستے بڑھنے کا حکم دیا۔بغداد انتظامیہ اور خلیفہ نے بغداد
کو بچانے کے لئے گفت و شنید شروع کی۔ گفت و شنید کو طول دینے کے دوران
ہلاکو بغداد کے ارد گرد کی زمینوں کو زیر کرتا رہا۔ خلیفہ نے اپنے
پیغام میں اپنے خاندان کی عظمت بتائی اور ہلاکو کی واپسی کی صورت میں
سالانہ خراج کا وعدہ کیا۔ہلاکو نے جواب دیا کہ اتنا قریب پہنچ کر وہ
خلیفہ کو ملے بغیر کیسے واپس جا سکتا ہے اور وہ ملاقات کے بعد ہی واپسی
کی اجازت چاہے گا۔30 جنوری 1258 کو بغداد پر منگولوں کا خوفناک حملہ
شروع ہوا۔ محاصرہ چھ دن جاری رہا۔ بغداد کی انتظامیہ اور سپاہیوں کو
باہر نکال کر ایک ہزار اور دس ہزار کی ٹولیوں میں بانٹا گیا اور پھر
تمام کو مار ڈالا گیا۔
11 فروری کو خلیفہ اپنے تین بیٹوں اور تین سو ممتاز اشخاص کے ساتھ
ہلاکو کے سامنے پیش ہو گیا۔ہلاکو نے مودبانہ انداز میں بات کی اور
خلیفہ سے درخواست کی کہ شہر کے لوگوں کو کہیں کہ اپنا اسلحہ پھینک کر
باہر نکل آئیں۔ خلیفہ کے کہنے پرلوگ ہتھیار پھینک کر گروہوں کی صورت
میں باہر آئے اور منگولوں نے ان سب کو قتل کر دیا۔14 فروری کو منگول
فوج شہر میں داخل ہوئی اور عام لوٹ مار شروع ہو گئی۔چند بہت غریب لوگوں
کے جھونپڑوں کو چھوڑ کر تمام شہر کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ 16 فروری
کو ہلاکو محل کی طرف بڑھا اور خلیفہ کو طلب کیا۔خلیفہ کو کہا گیاکہ ہم
تمہارے مہمان ہیں، ہمیں کچھ تحائف دو۔ خلیفہ اس وقت ہلاکو کے سامنے
کھڑا کانپ رہا تھا۔ اس نے فوراً بیس ہزار ملبوسات، دس ہزار دینار اور
اور بہت سی دوسری قیمتی اشیا پیش کیں جو ہلاکو کے حکم سے وہاں موجود
لوگوں میں بانٹ دی گئیں۔ہلاکو نے خلیفہ سے کہا کہ زمین کے اوپر جو کچھ
تم رکھتے ہو، ہم نے دیکھ لیا۔اب بتاؤ زمین کے نیچے تمہارے خزانے کہاں
ہیں؟ خلیفہ نے اقرار کیا کہ محل کے وسط میں موجود تالاب سونے سے بھرا
ہوا ہے۔ ہلاکو کے حکم سے سو مشقال کے سونے کے ٹکروں سے بھرا ہوا وہ
تالاب کھود لیا گیا۔خلیفہ کی بار بار کی درخواست پر اس کے حرم میں
موجود سات سو عورتوں اور ایک ہزار غلاموں میں سے سو عورتوں کو اس کے
پاس چھوڑ دیا گیا۔باقی لوگ منگول فوج کے حوالے کر دئیے گئے۔
21 فروری کو شہر میں سڑتی لاشوں میں اس قدر تعفن پھیل گیا کہ وہاں رہنا
مشکل ہو گیا چنانچہ ہلاکو وہاں سے روانہ ہو گیا ۔اسی شام خلیفہ اور اس
کے بڑے لڑکے کو پانچ ملازموں کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد جو
عباسی بھی نظر آیا اسے مار دیا گیا۔ماسوائے چند کے جو بھاگنے میں
کامیاب ہو گئے۔یوں 750 میں وجود میں آنے والی عباسی سلطنت 1258 میں
پانچ سو سال سے زیادہ حکمرانی کرنے کے بعد ختم ہو گئی۔ یہ ایک زبردست
سانحہ تھا مگر کوئی سیاسی رد عمل نہ ہوا اور نہ ہی کوئی آواز اٹھی۔اور
بقول نصیر الدین طوسی بغداد کی فتح کا فقط ایک ہی نتیجہ نکلا کہ وہاں
خلیفہ مستعصم کی جگہ ہلاکو کی حکومت قائم ہو گئی۔
تاریخ کے صدیوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ حکمرانی کے لئے سب سے ضروری چیز
خود اعتمادی ، ایمانداری اور قوی ہونا ہے۔ حکمران حکومت کے استحکام کے
لئے اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتے ۔یہ ساری چیزیں موجودہ حالات میں نظر
نہیں آ رہیں۔سب سے پہلی چیز حکومت کا مستحکم ہونا ہے جس کے لئے ایسے
اقدامات کی ضرورت ہے جن سے عوام کی فلاح کا سامان ہو۔ یہاں سارے کا
سارا آوہ خود سر، مغرور اور ڈھولچی قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ چار ماہ
کی کارکردگی بڑی واضع ہونا چاہیے تھی ۔ مگر کرپشن کے سوا انہیں کوئی
بات نہیں آتی۔ سردیوں کا موسم ہے مگر بجلی کی صورت حال انتہائی خراب
ہے۔اگر یہ صورتحال بر قرار رہی توگرمیوں میں لوگوں کو باہر آنے سے کوئی
روک نہ سکے گا۔ شاید اس کا ادراک حکومت کی ترجیحات میں نہیں۔ ڈالر کی
قیمت میں اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس کا انہیں احساس ہی
نہیں۔ بند انڈسٹری آج بھی کسی مسیحا کی منتظر ہے ۔ بے روزگاروں میں کمی
نہیں اضافہ ہی ہوا ہے۔ الیکشن نعروں کے سارے باغ آج تک سبز ہی سبز ہیں۔
امن و امان کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔ کوئی بات کرو یہ کرپشن
کہانی شروع کر دیتے ہیں جو آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ ایسی غیر
سنجیدہ اور غیر مستحکم حکومت فطری طور پر زیادہ دن نہیں نکال سکتی،
لیکن ان میں بالغ سوچ کے لوگ ہی نہیں انہیں کون اور کس طرح سمجھائے۔
کرپشن پر ہر وقت بات کرنے والی یہ حکومت اگر احتساب میں مخلص ہے تو اسے
سنجیدگی سے قدم اٹھانے تھے۔ کسی احتجاج اور دھمکی کی پرواہ کئے بغیر
اور بلا وجہ شور مچانے کی بجائے یہ جان لینا چائیے کہ مثبت قدم اٹھانے
سے کچھ نہیں ہو گا۔مگر آپ نے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہی نہیں۔ یہ احتساب
اب تک کچھ اس انداز میں ہو رہا ہے کہ اک مذاق بنتا جا رہا ہے۔ لوگ مطمن
نہیں۔ یہ کیا کہ اپنے لوگوں کے خلاف سرے سے کچھ کاروائی نہیں ہو رہی
حالانکہ الزام ان پر بھی ہیں ۔ اشرافیہ کے جن لوگوں پر الزام ہیں اور
ان کا ریفرنس چل رہا ہے ان لوگوں کو پکڑا ہی نہیں جاتا، ان کا ریمانڈ
لیا ہی نہیں جاتا۔ احتساب عدالت اختیار نہ ہونے کے باوجود اپنی مرضی کے
لوگوں کی ضمانت لے لیتی ہے۔نیب کے ملزم آسانی سے ہائی کورٹوں میں جوڑ
توڑ کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور ضمانتیں حاصل کر لیتے ہیں۔ ملزموں کے
لئے اسمبلی کے سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کر دیتے ہیں۔ نیب اشرافیہ کو وی
آئی پی سہولتیں دیتی ہے۔ وائٹ کالر کرائم سے نپٹنے کے لئے تفتیشی
اداروں میں جو حربے استعمال ہوتے ہیں نیب اشرافیہ کے لئے اس میں بہت
گنجائش پیدا کرتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جو چور ہے وہ ہر حال میں چور ہے
اور جو ڈاکو ہے وہ ہر صورت ڈاکو ہے۔ مجرم کا تعلق کسی طبقے سے ہو۔ اس
سے سلوک مجرم کے طور پر ہونا بہت ضروری ہے جو نہ ہونے کے سبب احتسابی
عمل ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اپنی ساکھ کی بحالی کے
لئے حکومت نیب کو فری ہینڈ دینے کے ساتھ ساتھ اس پر دباؤ رکھے کہ وہ
اپنے رولز سے ہٹ کر کسی سے کوئی رو رعایت نہ کرے۔ اسی میں حکومت کی بقا
ہے۔ ورنہ نظر آ رہا ہے کہ یہ چند روزہ شور ہے جس کا نتیجہ یہی ہے کہ اس
حکومت کی جگہ کسی اور کی حکومت ہو گی اورکچھ نہیں ہو گا۔
|