اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ
وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ
اَجْمَعِیْن۔
(سورۂ المؤمنون کی ابتدائی ۱۱ آیات میں مومنین کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا
جن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے)
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ان ایمان والوں نے یقینا کامیابی حاصل کرلی جن
کی نمازوں میں خشوع وخضوع ہے۔ جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں۔جو زکوٰۃ کی
ادائیگی کرتے ہیں۔جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں سوائے
اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں کیونکہ ایسے لوگ
قابل ملامت نہیں ہیں۔ ہاں جو لوگ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا
چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے
عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔یہ
ہیں وہ وارث جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی۔ یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ
رہیں گے۔ (سورۃ المؤمنون ۱۔۱۱)
اﷲ تعالیٰ (جو انس وجن وتمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے، جو خالق مالک
رازق کائنات ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جو انسان کی رگ رگ سے ہی نہیں
بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے) نے انسان کی کامیابی کے لئے
ان آیات میں اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان کے علاوہ ۷ صفات ذکر فرمائی ہیں کہ
اگر کوئی شخص واقعی کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ دنیاوی فانی زندگی میں موت
سے قبل ان سات اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرلے۔ ان سات اوصاف کے حامل ایمان
والے جنت کے اُس حصہ کے وارث بنیں گے جو جنت کا اعلیٰ وبلند حصہ ہے، جہاں
ہر قسم کا سکون واطمینان وآرام وسہولت ہے، جہاں ہر قسم کے باغات، چمن، گلشن
اور نہریں پائی جاتی ہیں، جہاں خواہشوں کی تکمیل ہے، جس کو قرآن وسنت میں
جنت الفردوس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔یہی اصل کامیابی ہے کہ جس کے بعد
کبھی ناکامی، پریشانی، دشواری، مصیبت اور تکلیف نہیں ہے،لہذا ہم دنیاوی
عارضی ومحدود خوشحالی کو فلاح نہ سمجھیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کے
لئے کوشاں رہیں۔ایمان والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی
وحدانیت کا اقرار کیا ، حضور اکرمﷺ کو پیغمبر تسلیم کیا اور آپ ﷺ کی
تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔ انسان کی کامیابی کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی
شرط اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہے، اس کے علاوہ انسان کی
کامیابی کے لئے جو سات اوصاف اﷲ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمائے ہیں وہ
یہ ہیں:
۱) خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی:خضوع کے معنی ظاہری اعضاء کو جھکانے
(یعنی جسمانی سکون) اور خشوع کے معنی دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف
متوجہ رکھنے کے ہیں۔ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ
ہم نماز میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کی طرف دھیان رکھیں اور اگر غیر اختیاری
طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آجائے دوبارہ نماز
کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ غرضیکہ ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ نماز
کے وقت ہمارا دل اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم
نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اطمینان وسکون
کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز
پڑھی پھر (رسول اﷲ ﷺ کے پاس آئے اور) رسول اﷲ ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے سلام
کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ
گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھکر آئے، پھررسول اﷲ ﷺ کو
آکر سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔
اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو
حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز
سکھائیے۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو،
پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان
سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ
تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام
اپنی پوری نماز میں کرو۔ (صحیح بخاری)
۲) لغو کاموں سے دوری: لغو اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور
لا حاصل ہو، یعنی جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ مولائے حقیقی نے
اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ لغو کاموں کو کرنا تو درکنار اُن سے بالکل دور
رہنا چاہئے۔ہمیں ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہئے قطع نظر اس کے کہ وہ
مباح ہو یا غیر مباح کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کا اسلام اسی
وقت اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کو چھوڑدے۔ (ترمذی)
۳) زکوۃ کی ادائیگی:انسان کی کامیابی کے لئے تیسری اہم شرط زکوٰۃ کے فرض
ہونے پر اس کی ادائیگی ہے، زکوۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے،
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم زکوۃ کی ادائیگی
کا ہی دیا ہے۔ سورۃ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اﷲ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے
لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں
نکالتے۔ اُن کے لئے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ
اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اُس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں
کرتے، تو (اے نبی) آپ اُن کو ایک دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے، یعنی جو لوگ
اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں اور اُن کو اﷲ
کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پر اﷲ نے جو فریضہ عائد کیا ہے اُس کو ادا
نہیں کرتے، اُن کو یہ بتادیجئے کہ ایک دردناک عذاب اُن کا انتظار کررہا ہے۔
پھر دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب
اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس
آدمی کی پیشانی ، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گااور اس سے یہ
کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم اس
خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لئے جمع کررہے تھے۔
۴) شرمگاہوں کی حفاظت: اﷲ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ
یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ انسان کی کامیابی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک شرط یہ
بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اس
آیت کے اختتام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کا ایک دوسرے سے
شہوت نفس کو تسکین دینا قابل ملامت نہیں بلکہ انسان کی ضرورت ہے۔ لیکن جائز
طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے جیساکہ اﷲ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا
چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے
کو منع فرمایا ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۲) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آنکھ بھی زنا
کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے۔ آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت
سے اختلاط، مخلوط تعلیم، بے پردگی، TV اور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی
وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات
سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں کیونکہ
اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے
وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات
کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مردوعورت کے اختلاط
سے ہی بچا جائے۔
۵) امانت کی ادائیگی: امانت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمہ داری
کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پر اعتماد وبھروسہ کیا گیا ہو، خواہ اس کا
تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اﷲ سے۔ حقوق اﷲ سے متعلق امانت فرائض
وواجبات کی ادائیگی اور محرمات ومکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد
سے متعلق امانت میں مالی امانت کا داخل ہونا تو مشہور ومعروف ہے، اس کے
علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی کو بتلائی تو وہ بھی اس کی امانت ہے، اذن
شرعی کے بغیر کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ اسی طرح کام کی
چوری یا وقت کی چوری بھی امانت میں خیانت ہے۔ لہذا ہمیں امانت میں خیانت سے
بچنا چاہئے۔
۶) عہد وپیمان پورا کرنا: عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملہ
میں لازم قرار دیا جائے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ
کہتے ہیں یعنی کوئی شخص کسی شخص سے کوئی چیز دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا
وعدہ کرلے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً ضروری ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ اگر ہم کسی
شخص سے کوئی عہد وپیمان کرلیں تو اس کو پورا کریں۔
۷) نماز کی پابندی: کامیاب ہونے والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی بھی پوری
نگرانی رکھتے ہیں یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات پر اہتمام کے ساتھ
پڑھتے ہیں۔ نماز میں اﷲ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو
گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا
جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے
لئے ضروری ہیں،جیسا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (سورۃ
العنکبوت ۴۵) اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺکی خدمت میں آیا
اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو
نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ اس کی نماز عنقریب اس کو اس برے کام سے روک دے گی۔
(مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزاز)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی کامیابی کے لئے ضروری سات
اوصاف کو نماز سے شروع کیا اور نماز پر ہی ختم کیا، اس میں اشارہ ہے کہ
نماز کی پابندی اور صحیح طریقہ سے اس کی ادائیگی انسان کو پورے دین پر چلنے
کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں سب سے زیادہ نماز کی ہی تاکید
فرمائی گئی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال کیا جائے
گا۔ نماز کے علاوہ تمام احکام اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے
واسطہ دنیا میں اتارے مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ اﷲ تبارک
وتعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر حضرت جبرائیل کے واسطہ کے بغیر نماز کی
فرضیت کا تحفہ اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا
اہتمام کرنے والا بنائے آمین، ثم آمین۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کی طبیعت میں
کامیابی کی چاہت رکھی ہے چنانچہ ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ان آیات میں
اﷲ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کامیابی‘ ایمان کے بعد سات صفات میں
مضمر ہے، یعنی اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر
یہ صفات پیدا کریں۔ ان سات اوصاف سے متصف ایمان والوں کو اﷲ تعالیٰ نے ۱۰
اور ۱۱ آیات میں جنت الفردوس کا وارث بتلایا ہے۔ لفظ وارث میں اس طرف اشارہ
ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کے وارث کو پہنچنا قطعی اور یقینی ہے اسی طرح
ان سات اوصاف والوں کا جنت الفردوس میں داخلہ یقینی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان سات اوصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہمیں جنت الفردوس کا وارث بنائے، آمین۔ |