بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور جارحیت کے شکارکشمیر ی
جنگ بندی لائن کے آر پار اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں 26جنوری (
بھارت کا یوم جمہوریہ )یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔26؍ جنوری 1950ء
کو بھارت میں انگریزوں کے قانون گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935 کی جگہ
بھارت کے آئین نے لی۔اور اسے نافذ العمل کیا گیا۔ یہ آئین 26نومبر
1949کو منظور ہوا۔26جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ منانے کی ایک وجہ یہ
بیان کی جاتی ہے کہ 26جنوری 1929کو لاہور میں کانگریس کے اجلاس میں
جواہر لعل نہرو کو کانگریس کاصدر منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر پہلی بار
ہندوستان کی مکمل آزادی کے لئے قرارداد منظور کی گئی۔ اور
26جنوری1930کو یوم آزادی کے طور پر منایا گیا۔ 20سال بعد اسی دن بھارتی
آئین کے نفاذ کے بعد سے یہ دن یوم جمہوریہ کے طور پر منایاجانے لگا۔تب
سے ا س دن دہلی میں پریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہندوستان کے صدر
سلامی لیتے ہیں۔اس موقع پر کسی ملک کے سربراہ مملکت یا حکومت کو پریڈ
پر سلامی لینے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال بھارتی وزیراعظم
نریندر مودی نے ایسوسی ایشن آف جنوب مشرقی ایشین ممالک یا آسیان کے
10ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک ساتھ یوم جمہوریم پر مہمان خصوصی کے
طور پر مدعو کیا ۔ جن میں تھائی لینڈ، ویتنام، انڈونیشیا، ملیشیا،
فلپائن، سنگاپور، برمایا میانمار، کمبوڈیا، لاؤس اور برونئی شامل ہیں۔
ایک کے بجائے 10سربراہاں مملکت کی دہلی میں آمد اور چیف گیسٹ کے طور پر
یوم جمہوریہ پر شرکت کو بھارت نے بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔ بھارت کا
اپنی نام نہاد جمہوریت کا دنیا میں اس طرح چرچا کا یہ موقعہ ملا ۔کیوں
کہ اس موقعہ پر بھارت اپنی فوجی طاقت کی نمائش کرتا ہے۔ پریڈ پر مہمان
سلامی لیتے ہیں۔بھارت دنیا کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
2019کے یوم جمہوریہ کے لئے بھارت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مہمان
خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت دی ، مگر ٹرمپ نے بھارتی دعوت مسترد کر
دی اور شرکت سے انکار کر دیا۔ امریکی صدر کے انکار کے بعد بھارت نے
جنوبی افریقہ کے صدر سرل راماپھوسہ کو مدعو کیا۔ اس بار رام چند موہن
داس عرف گاندھی جی کی 150ویں سالگرہ تقریبات ہو رہی ہیں۔ گاندھی جی 70
سال قبل ہندو دہشتگردی کے شکار ہوئے تھے۔ کیوں کہ وہ مسلم ہندو اتحاد
کی وکالت کر رہے تھے۔ انھیں ہندو دہشتگرد نتھو رام گوڈسے نے قتل کر
دیا۔گاندھی کے اس قاتل کو ہندو انتہا پسند عظیم قرار دیتے ہیں۔ بلکہ وہ
میرٹھ شہر کو گوڈسے کے نام پر رکھنے کی مہم بھی چلا رہے ہیں۔یہی انتہا
پسند اور ان کی سرپرست بی جے پی اور شیو سینا، آر ایس ایس بھارت پر آج
حکومت کر رہی ہیں۔ اگر چہ مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت شمال مشرقی بھارت
کی ریاستوں میں یہ دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مگر اس کی کم
تشہیر ہوتی ہے۔ دنیا کو بھارتی نام نہاد جمہوریت کے اس تاریک اور
بدترین پہلو کا علم نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے برعکس
مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں لوگوں کو کریک داؤن کی زد میں لایا
جاتا ہے۔ انہیں ان کے گھروں میں بند رکھ کر اور سخت محاصرے میں پریڈوں
کا بندو بست کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی تقریب سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں
ہوتی ہے۔ بھارتی فورسز26 جنوری کی آمد سے ہفتوں پہلے ہی بخشی اسٹیڈیم
اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضہ جما لیتے ہیں، سرکاری عمارتوں کے ساتھ
ساتھ رہائشی عمارتوں پر بھی جبری قبضہ کرکے چھتوں پرمورچہ بندی کی جاتی
ہے۔ بخشی اسٹیڈیم کے نزدیک لعل دید چلڈرن ہسپتال کے مریضوں تک کو نہیں
بخشا جاتا اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔آج بھی یہی حال ہے۔
کشمیری عوام اس دن ہندوستان کے ناجائز قبضے کے خلاف اور آزادی کے حق
میں مکمل ہڑتال کرتے ہیں۔ دن کو یومِ سیاہ اور رات کو مکمل بلیک آؤٹ
کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری عوام بھارتی جبری قبضے اور نسل کش پالیسی و
مظالم کے خلاف اپنے سخت ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔
لوگ کرفیو کو توڑ کر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ جگہ جگہ سیاہ پرچم
لہراتے ہیں اور ہندوستانی پرچم کو اور بھارتی حکمرانوں کے پتلوں کو نذر
آتش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری جنگ بندی لائن کے آرپار اور دنیا بھر
میں ہندوستانی نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ کشمیری ہر روز
بھارتی ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر کے انکار کے بعد افریقی صدر کی بھارتی دن پر مہمان خصوصی کے
طور پر شرکت جنوبی افریقہ کی آزادی کی جنگ پر سیاہ دھبہ بن سکتی ہے۔
دنیا کی ایسی جمہوریت کا جشن جس نے کشمیر ہی نہیں بلکہ شمال مشرقی
بھارت کی ریاستوں میں کروڑوں عوام کی آزادی سلب کر رکھی ہے۔ جنوبی
افریقہ کے عوام کے لئے یہ سوالیہ نشان ہو گا کہ ان کا حکمران ایک ایسے
ملک کا مہمان خصوصی بن رہا ہے جس نے کروڑوں عوام کو غلام بنا رکھا ہے
اور عوام کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ہندوستان اپنی جمہوریت پسندی کا
ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور کہا جاتا ہے وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔
انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے والے ہندوستان نے جموں و کشمیر کے عوام کی
آزادی کو چھین رکھا ہے اور مقبوضہ ریاست کو اپنی فوجی چھاؤنی میں تبدیل
کر دیا ہے۔ دنیا پر جنت کا منظر پیش کرنے والے خطے کو قید خانہ بنا دیا
ہے۔ جہاں معصوم عوام کا قتل عام جاری ہے اور اس سرزمین کو لہو لہاں کر
دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان کو اپنا آئین بنانے میں 3سال لگ گئے۔
26 جنوری1950ء کو آئین نافذ کردیاگیا۔ لیکن یہ آئین کشمیریوں کی آزادی
اور ہندوستانی حکمرانوں کے وعدوں یا بھارتی فوج کے جبری قبضے کو ختم
کرنے کے سلسلے میں خاموش ہے۔اس آئین کی دفعہ 370کے خاتمہ کا
چرچاہے۔لیکن کشمیری ہندوستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور ہندوستان
کے اس غیر حقیقت پسندانہ آئین کے تحت مسئلہ کشمیر کا حل بھی قبول نہیں
کرتے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان کے جن لوگوں نے انگریزوں سے آزادی
کیلئے جنگ لڑی، انہیں بھارتی آئین فریڈم فائٹرز جبکہ کشمیر کی آزادی کی
جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ ایسے آئین کی کیا اہمیت ہے
جو تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ تضادات کے شکار اس آئین کا جشن منانے کیلئے
ہر سال 26جنوری کو تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ دہلی میں لال قلعہ کے
سامنے پریڈیں ہوتی ہیں۔ 21توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ فوجیوں کو سب سے
بڑے ایوارڈز ’’اشوک چکر، کیرتی چکر اور پرم ویر چکر‘‘ دیئے جاتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں معصوم اور مظلوم و نہتے کشمیریوں کو قتل کرنے
پر بھی ہندوستانی فوج کو تمغے دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ تمغے 26 جنوری کو
ہی دیئے جاتے ہیں۔ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ کشمیری نہتے
لوگوں، بچوں اور بزرگوں کو قتل کرنے پر ہندوستانی فوج کو26جنوری کے دن
تمغے دیئے جاتے ہیں۔ جن وردیوں پر لاکھوں کشمیریوں کے خون کے چھینٹے
ہیں ان پر تمغے سجا دیئے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے انتہا پسندوں اور دہشت
گردوں اور جنونیوں کی فوج اپنے یومِ جمہوریت پر جشن مناتی ہے۔آسیان
حکمران اس سال بھارت کیمہمان خصوصی ہیں۔ وہ اس پریڈکا معائنہ کریں گے۔
26 جنوری کو ہر سال ہندوستان دنیا کو گمراہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہندوستان کے پہلے نام نہاد یوم جمہوریہ
پر انڈونیشیا کے صدر سکارنو کو ہندوستان نے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو
کیا تھا اور انہوں نے ہندوستانی فورسز کی پریڈ کا معائنہ کیا اور 60
سال بعد 2011ء کے ہندوستانی یوم جمہوریہ پر بھی مہمان خصوصی کے طور پر
انڈونیشیا کے صدر کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔ اوریہ بھی ایک حیرت ناک بات
ہے کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد1955ء اور پاکستان کے وزیر
خوراک و زراعت رانا عبدالحمید1965ء کو ہندوستانی یوم جمہوریہ پر مہمان
خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔اور پھر اس ملک نے اپنے یوم جمہوریہ کے
مہمان خصوصی کے ملک پر قبضہ کے لئے جنگ کی۔ ایک ایسا ملک جس نے جموں و
کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا، کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا اس کے یوم
جمہوریہ پر پاکستان کی دو بار مہمان خصوصی کے طور پر شرکت اور قابض
افواج کی پریڈ اور جشن میں شریک ہونا ایک انوکھا واقعہ ہے ۔ ہندوستان
میں قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مسلم کش
فسادات میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو ریاستی پشت پناہی میں
انتہائی بے دردی سے شہید کیاگیا اور جس ملک کے آئین میں مسلمانوں کے
ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں سے امتیازی سلوک
برتا جاتا ہے۔ اسی ملک کے یوم جمہوریہ کے جشن میں مسلم ممالک سعودی
عرب، ایران اور انڈونیشیا کے حکمرانوں کی بطورِ مہمان خصوصی شرکت ایک
سوالیہ نشانسمجھا گیا۔ بھارتی فوجی سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہے۔جسے
لاکھوں کشمیریوں کے قتل عام میں مجرم قرار دے کر انٹرنیشنل ٹریبونل میں
مقدمہ چلا کر پھانسی دی جائے۔ انہیں میڈلز دیئے جاتے ہیں۔ ترقیوں سے
نوازا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا ایک عجیب جمہوریہ ہے۔ جو نہتے اور معصوم
عوام کے قتل عام اور نسل کشی کو جائز سمجھتا ہے۔ آج بھارتی فوجی کشمیر
کی جنگ بندی لائن کے آر پار نہتے عوام پر گولہ باری اور فائرنگ کر رہے
ہیں۔ خواتین، بچوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ورکنگ باؤنڈری اور
سرحد پر بھی بھارتی جارحیت جاری ہے۔ بھارت جنگ بندی معاہدے کی خلاف
ورزی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو سلامتی کونسل کی
قراردادوں کے مطابق کام کرنے سے روک رہا ہے۔ کشمیریوں کو ریفرنڈم کا
موقع دینے کے مطالبات کرنے والوں کو گولیوں سے خاموش کر رہا ہے۔ ایسے
ملک کے نام نہاد یوم جمہوریہ پر امریکی صدر کے انکار کے بعد جنوبی
افریقہ کے حکمران مدعو ہیں اور کوئی بھی امن پسند ملک اس پر احتجاج
نہیں کرتا ۔ کوئی دنیا کوبھارت کا اصلی چہرہ دکھانے کی طرف توجہ نہیں
دیتا۔ پاکستان کی سفارتی لابنگ بھی نظر نہیں آتی۔ جب کہ اسلام آباد میں
عمران خان حکومت کو بھارتی جارحیت اور انسان دشمنی سے دنیا کو آگاہ
کرنا چاہئے۔ دنیابھر میں پاکستان کے سفارتکار سرگرم ہو سکتے ہیں اور
اسلام آباد میں دنیا کے سفارتی مشنز کو بھی اس بارے میں کچھبتایا جا
سکتاہے۔ یہ غفلت اور سستی ہے یا بھارت کو جارحیت کے لئے کھلی چھوٹ دی
جا رہی ہے۔ بھارت کو تماشہ لگانے کی یہ آزادی دینے کی کیا وجہ ہے جب کہ
وہ کھل کر جنگ اور جارحیت کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور جنگ بندی لائن
کے آر پار ان پر عمل بھی کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ، ان کے وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی ، کابینہ رفقاء سمیت پاکستان کے لئے بڑا سوال
ہے۔
|