تحریر:جویریہ جاوید،پکی شاہ مردان میانوالی
کیا خوب سوچ آئی؟مگراس سوچ کے الفاظ سے بننے والے جملے بھی الجھے
تھے،آخرپاکستان کی بہتری ہے کس میں ؟آخریہ سوالیہ نشان ہمارے ملک کی
بھاگ ڈورسنبھالنے والوں کے دماغ میں کیوں نہیں آتے؟اس تصدیق پر بھی
کامل ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں پانی کی قلت ہوگی،ملک کے آبی ماہرین
پانی کی قلت پر پریشان ہیں اور اس کے حل کے طریقے سوچ رہے ہیں۔کئی بین
الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان تیزی سے ایک ایسی صورتِ حال کی طرف
بڑھ رہا ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے شدید پانی کی قلت کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان آنے والے سات برسوں میں
پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ کئی آبی ماہرین کا خیال ہے کہ
حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ اگر ہم نے
فوری اقدامات نہ کئے تو مستقبل میں ہم تباہی سے دو چار ہو سکتے
ہیں۔پانی کو ذخیرہ کرنے والے ڈیموں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف
ہم نے ایک ڈیم کی گنجائش کو بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن ہم نئے ڈیموں کے
بارے میں نہیں سوچ رہے۔ کالا باغ ڈیم کو ہم نے سیاست کی نظر کر دیا ہے
جب کہ بھاشا ڈیم میں کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے اس کے باوجود بھی ہم اس
ڈیم کو نہیں بنا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے سے سب سے
زیادہ نقصان سندھ اور جنوبی پنجاب کو ہوگا اور سندھ سے ہی سب سے زیادہ
ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر سب سے پہلے ایک بیانیہ
تیار کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دے سکیں
اور پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بھی شروع کر سکیں۔بلین ٹری جیسے کئی
منصوبے ہمیں شروع کرنے پڑیں گے لیکن ان منصوبوں کے نتائج فوری طور پر
نہیں آئیں گے۔ فوری طور پر تو ہمیں ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ دیامر
بھاشا ڈیم اس لئے بنایا نہیں جارہا کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر بارہ
برس لگیں گے جب کہ کوئی بھی حکومت پانچ سال سے آگے سوچنا نہیں چاہتی۔
اس معاملے میں ہمیں قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر سوچنا ہوگا۔
پاکستان میں بارش کا پیٹرن بہت مختلف ہے اور اب اس پیٹرن کے ساتھ گلوبل
وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا، جس کی وجہ سے پاکستان سمیت کئی
ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں،’’مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے
برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لئے زیادہ بارش ہوتی ہے، جو صحیح طرح زیر
زمین جذب نہیں ہوتی اور چونکہ ہمارے پانی جمع کرنے کے ذخائر بھی کم ہیں۔
اس لئے ہم اس پانی کا ذخیرہ بھی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے یہ پانی
ضائع ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے ڈیموں کو تعمیر کرنے کے لئے پہلے
ہمیں بہت سے سیاسی مسائل سے لڑنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں گوٹھ اور دیہات
کی سطح پر چھوٹے اسٹوریج ٹینک بنانے چاہیں، جس سے نہ صرف پانی جمع ہوگا
بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی، جو بلوچستان سمیت کئی
علاقوں میں خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ ہمیں سیلابی نہریں بنانی
چاہیں اور اگر مون سون کے دور میں بارش بہت زیادہ ہو اور سیلابی شکل
اختیار کر لے تو ان سیلابی نہروں کے ذریعے ایک طرف ہم اپنی فصلوں کو
تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور دوسری طرف ان نہروں کی بدولت بھی زیرِ
زمین پانی کی سطح کو بلند کیا جا سکتا ہے۔اب آتے ہیں پاکستان میں ہوتی
انسانی حقوق کی مسلسل پامالی کی طرف اگردیکھا جائے توپاکستانی سیاستدان
ڈیم نہ بنا کربھی انسانی حقوق کی پامالی کرنے کے زمرے میں آتے ہیں،کیا
کہا جاسکتا ہے کہ یہ دیکھ بھال کر جان بوجھ کرکیا جارہا ہے؟اگرایسا ہے
بھی تو اس ملک کو سنبھالنے کی بات کرنے والے اس مسئلے کو سدھارکرمثالی
نمونہ کیوں پیش نہیں کرتے ؟اگرپاکستان کے لئے کچھ کرنا ہی ہے توفوری
ڈیمزبنا کر انسانی جانوں کی حفاظت کریں کیونکہ یہی انسان جانیں مل
کرایک مضبوط پاکستان کی تعمیرکرسکتی ہیں،اس ملک کی فوج تمام ملکوں کی
فوج سے بہادرہے جوکہ کسی قسم کی بھی مشکل اپنے ملک پر آنے نہیں دیتی ،کیونکہ
وہ اتحادکا سب سے بڑا مظاہرہ کرتی ہے،تب اس نسل کے جوکہ
انجینئر،ڈاکٹرخصوصا اساتذہ کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہیں،یہ شخصیات
بغیرکسی کرپشن کے اپنے تمام ترفرائض انجام دے رہی ہیں،مگرافسوس ان کی
بنیادہماری حکومت ان کی کاوشوں کومدنظرنہ رکھتے ہوئے سوچتی ہے کاش یہ
سوچ ہمارے رہبروں کو آجائے اوروہ ہمارے ملک کے قابل رہبربننے کے لائق
بن سکیں۔
|