سوچنے کا انداز بدلیے اللہ تعالی کا شکر کیجیے اور ہمیشہ خوش رہیے

محترم قارٸین ! آج آپ کے سامنے ایک ہے جیسے حالات کی شکار دو خواتین جن میں سے ایک کا فرضی نام ناشکری اور دوسری کا فرضی نام شکر گزار ہے کے سوچنے کے انداز پیش کرتا ہوں جو بالکل مختلف تھے۔

قارٸین کرام! دونوں رات کو سونے سے پہلے ایک کاغذ پر کچھ تحریر کیا کرتی تھیں ان میں سے ناشکری کی عادت یہ تھی کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی پریشانیاں تلاش کرتی اور ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی اور شکر گزار کی عادت یہ تھی کہ وہ ان پریشانیوں میں بھی خوشیاں تلاش کرتی ۔

ایک دن ناشکری نے لکھا کہ
”میں بہت زیادہ پریشان ہوں کیونکہ میرا خاوند رات کو بہت زیادہ خراٹے لیتا ہے جس کی وجہ سے میں چین سے سو بھی نہیں سکتی میری تو رات کی نیند بھی حرام ہو چکی ہے۔“

جبکہ اس کے برعکس اسی شب شکر گزار نے لکھا کہ:
”میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہےاس کے باوجود میں خوش ہوں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں کم از کم وہ زندہ ہے اور میرے پاس تو موجود ہے نا۔“

ناشکری نے لکھا کہ
”میرا بیٹا ہر روز صبح سویرے میرے ساتھ جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر اسے مچھر کھٹمل سونے نہیں دیتے ایک طرف تو میں ان مچھروں اور کھٹملوں کی وجہ سے رات بھر صحیح طرح سو نہیں پاتی تو صبح صبح ہی بیٹے کے جھگڑنے سے بھی زندگی عذاب بنی ہوٸی ہے ۔“

جبکہ دوسری طرف شکر گزار نے انہی حالات کو اس طرح لکھا کہ

”میرابیٹا صبح سویرے اس بات پر جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر مچھر،کھٹمل سونے نہیں دیتے اس کے باوجود میں خوش اور مطمٸن ہوں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وہ رات گھر پہ ہی گزارتا ہے اور آوارہ گردی نہیں کرتا اور نہ ہی باہر کسی سے جھگڑتا ہے۔“

ناشکری نے لکھا کہ
” میں بہت زیادہ پریشان ہوں کہ ہر مہینے بجلی گیس اور پانی وغیرہ کے بہت زیادہ بل آتے ہیں اور ادا کرنا پڑتے ہیں ۔“

اس کے برعکس شکر گزار نے لکھا کہ
”ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی وغیرہ کے اچھے خاصے بل ادا کرنا پڑتے ہیں اس کے باوجود خوش ہوں اور اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں کہ کم از کم یہ سب چیزیں میرےاستعمال میں تو ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔“

ناشکری نے لکھا کہ
”سارا دن کام کر کر کے تھکن سے برا حال ہو جاتا ہے آرام نام کی چیز میسر نہیں زندگی عذاب بنی ہوٸی ہے ۔“

اس کے برعکس شکرگزار نے لکھا کہ
”دن بھر کام کرنے کی وجہ سے میرا تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے اور آرام کے چند لمحات بھی میسر نہیں آتے اس کے باوجود میں اللہ تعالی کا شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ مجھ پر اللہ تعالی کا فضل و کرم ہی تو ہے کہ اس نے مجھے دن بھر سخت کام کرنے کی طاقت عطا کی ہے اگر وہ یہ طاقت مجھے نہ عطا کرتا تو میں کیا کر لیتی۔“

ایک دن ناشکری نے لکھا کہ کیا کروں بہت زیادہ پریشان ہوں مساٸل میں گھری ہوٸی ہوں یہاں تک کہ نہ کوٸی ملازمہ ہے نہ خادمہ گھر کی ساری جھاڑ پونچھ اور دروازے کھڑکیاں بھی خود ہی صاف کرنا پڑتی ہیں

جبکہ اس کے برعکس شکر گزار نے لکھا کہ
” روزانہ اپنے گھر کاجھاڑو پونچا کرنا پڑتا ہے اور دروازے کھڑکیاں صاف کرنا پڑتی ہیں اس پر بھی میں اپنے اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کیونکہ میرے پاس رہنے کو گھر تو ہے، جن لوگوں کے پاس نہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔“

ایک دن ناشکری بیمار کیا ہوٸی تو لکھ ڈالا کہ
”ایک تو پہلے ہی اتنے مساٸل تھے اوپر سے بیماری بھی آدھمکی پتہ نہیں کب اس سے جان چھوٹے گی ۔“

دوسری طرف شکر گزار جب بیمار ہوٸی تو اس نے لکھا کہ
” مجھے یہ جو تکلیف آٸی ہے اس پر بھی میں اپنے رب کا شکر بجا لاۓ بغیر نہیں رہ سکتی کہ اس خالق کاٸنات نے دنیا میں یہ معمولی تکلیف دے کر مجھے گناہوں سے پاک کر دیا تاکہ آخرت کے عذاب سے بچ سکوں اور ویسے بھی سال میں کبھی کبھار تھوڑی بیمار ہو جاتی ہوں ورنہ زیادہ تر صحت مند ہی رہتی ہوں۔“

عید کا موقع آیا تو ناشکری نے لکھا کہ عید بھی کیا مصیبت بن کر آٸی ہے کہ ایک تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں اوپر سے عزیز و اقارب کو تحفے تحاٸف دینے کی وجہ سے پرس بھی خالی ہو گیا ۔“

دوسری طرف عید کے موقع پر ہی شکر گزار نے لکھا کہ یااللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنی زندگی میں ایک بار پھر خوشیوں بھرا دن دیکھنا نصیب کیا ۔ کیا ہوا جو تحفے اور عیدی دینے میں پرس خالی ہو گیا یہ اللہ تعالی نے دیے تھے میں نے بخوشی اپنے چاہنے والے عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب میں تقسیم کر دیے اللہ تعالی اور عطا کر دے گا لیکن کم از کم یہ احساس تو ہوا کہ میرے اپنے چاہنے والے بھی ہیں جنہیں تحفہ دے سکوں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو زندگی کتنی بے رونق ہو۔“

ایک دن ناشکری نے لکھا کہ
”صبح صبح الارم کی آواز سے اٹھنا پڑتا ہے نیند بھی پوری نہیں ہوتی زندگی عذاب بنی ہوٸی ہے جاٶں تو کدھر جاٶں۔“

جبکہ دوسری طرف شکر گزار نے لکھا کہ
”روزانہ الارم کی آواز پر صبح صبح اٹھنا پڑتا ہے اس پر جتنا بھی اللہ تعالی کا شکر ادا کروں کم ہے کیونکہ مجھے ہر روزایک نئی صبح دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔اور یہ صرف اور صرف اللّٰه تعالی کا ہی کرم و فضل ہے۔“

محترم قارٸین ! اپنا اپنا محاسبہ کیجیے اور اپنے کردار و افعال ، سوچنے کے انداز کا جاٸزہ لیجیے کہ کیا آپ منفی سوچیں سوچ کر اور دل میں اپنے عزیزواقارب کے لیے نفرت پیدا کر کے ناشکرا پن کرتے ہوۓ اپنی زندگی کو اجیرن تو نہیں بنا رہے کہیں اپنے اعمال و افعال کی بنا پر اپنی دنیا و آخرت تو برباد نہیں کر رہے اگر ایسا ہے تو فی الفور اپنے سوچنے کا انداز بدلیے اور ہر مشکل ، پریشانی اور دکھ تکلیف میں بھی بہتری کے پہلو تلاش کیجیے اور شکر گزار کی طرح جینے کے اس انمول فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی بھی اور اپنے سے وابستہ لوگوں کی زندگی پرسکون بنانے کی کوشش کیجیے اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو
 

عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 200325 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.