آج کل مُلکی سیاست میں چھوٹا منہ بڑی بات والا محاورہ آئے
روز سُننے اوردیکھنے کو مل رہاہے، جس کی ایک تازہ مثال پچھلے دِنوں اُس وقت
سامنے آئی کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا کہ
اٹھارویں ترمیم کے تحفظ اور وفاق سے سندھ کے اسپتال چھینے کے لئے لانگ مارچ
سمیت جو بھی قانونی راستہ اختیار کرنا پڑا تو کریں گے‘‘ بلاول کے منہ سے
لانگ مارچ کرنے کا سُن کر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا کہ یہ بیچارہ
کتنا معصوم ہے؟ کہ اِس کے سینیئرزاِسے جیسا لکھ کر دے دیتے ہیں یہ معصوم
بغیر کچھ سوچے سمجھے ویسا ہی میڈیا میں پڑھ دیتا ہے۔ حالانکہ اِسے معلوم
ہوناچاہئے کہ یہ جس پارٹی کا سربراہ ہے اِس پارٹی کی پرانی اور آج والی
ساکھ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔یعنی کہ اَب وہ والی پی پی پی کہاں رہ
گئی ہے۔ جو کبھی محترم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید رانی محترمہ بے
نظیر بھٹو کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ اِن شہدا ء کی زندگیوں میں پی پی پی کی
ہر سانس میں عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر ہوا کرتاتھا۔ جو اپنے قائدین کے
ایک اشارے پراپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتاتھا ۔
ایسا ماضی میں ہوتا ہوا کئی مواقعوں پر نظر بھی آیا۔مگر آج نہ پی پی پی کی
وہ پہلے والی مدبرانہ سوچ و فکر اور سیاسی فہم وفراست والی قیادت ہے۔ اور
نہ ہی موجودہ قیادت اُن شہداء کی پیروں کی دھول ثابت ہوسکتی ہے۔جو اپنے
ساتھ(سِوائے مفادپرستوں اور موقعہ پرستوں کے ) عوام کا سمندر لے کر چلے، وہ
تو پہلے والے ہی تھے جو بے باک ، نڈر ،سچے وکھرے اور اپنے قول و فعل او ر
کردار میں غنی تھے۔ مگر افسوس ہے کہ آج والی پی پی پی کی قیادت جھوٹ و فریب
، دھوکہ بازی اور کرپشن میں غنی ہے۔خود سوچیں، بھلا ایسی قیادت کے پیچھے
بھی کوئی چلے گا؟جو نعرہ تو جمہوریت اور عوام کے لئے روٹی ، کپڑا،مکان اور
زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے کا لگواتی ہے۔ مگر حکمرانی ملنے کے بعد قومی خزانے
اور سندھ بجٹ سے کام سارے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے نکالتی ہے
مُلک کے چاروں صوبوں اور دبئی اور امریکاو برطانیہ میں اربوں کی جائیدادیں
بناتی ہے۔
اَب اِس پس منظر میں کہنے دیجئے کہ آج یہ بات عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں
کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق زرداری اور بلاول زرداری کی پاکستان پیپلز
پارٹی کے پاس اربوں کے جعلی بینک اکاؤنٹس ، روٹی ، کپڑا اور مکان سے عاری
بھٹو ازم اور شہداء کی قبروں کے سِوا حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف دینے
والا کوئی نعرہ نہیں ہے، مگر اِس کے باوجود بھی ایک خاص مائنڈ سیٹ اور
سیاسی وذاتی مفادات رکھنے والے لوگ ہی زرداری اور بلاول زرداری کے گرد
گھیرا ڈالے جھوم رہے ہیں ۔ اِنہوں نے ہی پارٹی کو آکسیجن دے رکھی ہے۔ ورنہ
تو درحقیقت پی پی پی کا سیاسی باب تو ختم ہونے کو ہے، جس کی عمارت چند منہ
توڑ سینہ زور ، چرپ زبان چیلے چانٹوں پر ٹھیری ہوئی ہے۔ اگر اِنہیں ٹی وی
پر آ کر چیخ چلانے کا شوق نہ ہوتا، تو پی پی پی کی کہانی تو کب کی ختم ہی
سمجھی جاتی.. یہی کچھ جیالے ہیں ۔جو آج بھی پی پی پی کے ادھ موئے گھوڑے کو
زبردستی ک ازندہ رکھنے کی کوشش کئے ہوئے ہیں ورنہ تو...؟؟ بہرکیف، اگر آج
بھی پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ یہ اگلے الیکشن میں وفاق میں اپنی
حکومت بنائے تو ضروری ہے کہ پارٹی مائنس زرداری اورمائنس فریال کا فارمولا
استعمال کرے، تو ممکن ہے کہ پی پی پی کا تیزی سے گرتا ہوا گراف اگلے جنرل
انتخابات سے پہلے سنبھال جائے اور اِس طرح پی پی پی بلاول کی مالکِ کل اور
مکمل اختیارات رکھنے والی قیادت کے سہارے وفاق اور سندہ سمیت دیگر صوبوں
میں اپنی اگلی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے، نہیں تو بہت مشکل ہوگا۔
جبکہ اُدھرپی پی پی کی طرح ن لیگ کا چراغ بھی بجھنے کو ہے کیوں کہ ن لیگ نے
بھی اپنے تین دورِ حکمرانی میں کرپشن کی جتنی حدیں عبور کیں ہیں۔اِس کی بھی
مثال مُلکی تاریخ میں نہیں ملتی ہے یہ اِس کا ہی نتیجہ ہے کہ اِن دِنوں ن
لیگ کے سربراہ بیچارے بیمارنوازشریف کوٹ لکھپت جیل کے ایک کمرے میں کس طرح
مچھروں کی میزبانی میں اپنی زندگی کے دن رات گزار رہے ہیں۔ یہ بھی سب کے
سامنے ہے۔ اِس موقع پر نواز شریف اور زرداری کو پیچھے پلٹ کر اپنا احتساب
خود بھی کرنا چاہئے کہ اِن کے پاس اﷲ کا دیا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ
ناشکری ہی کرتے رہے اور شیطان کے چیلے بن کر قومی خزانہ یہ سمجھ کر لوٹتے
رہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے یہ جو چاہیں کرلیں کب یہ کسی کی پکڑ میں آئیں
گے؟ مگر اَب اِنہیں لگ پتہ جانا چاہیے کہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جب
اﷲ کی لاٹھی پڑتی ہے اور جب بندے کی پکڑ ہوتی ہے۔ تو ایسے ہی ساری دنیا
دیکھتی ہے، جیسے کہ آج چار دانگ عالم کو لگ پتہ گیا ہے کہ نواز شریف کو
کیوں اور کس جرم میں سزا ہوئی ہے اور عنقریب زرداری کی پکڑ کے بعد لمبی جیل
ہونے والی ہے۔
بہر حال ،اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی
اپنے سربراہان کی ظاہر اور باطن ، حاضر اور غائب کرپشن کی وجہ سے سخت
مشکلات کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کے گرد احتساب کا
دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ آج ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت کے دامن
میں کرپشن و لوٹ مار کے سِوا کچھ نہیں ہے، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت
کی چادر اُوڑھ کر اقتدار کی باریاں لگائیں، اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد اور
مفادات کے لئے اٹھارویں ترمیم کی طرز کی کئی ترامیم کیں تاکہ قومی خزانے کی
کڑاہی میں اِن کی انگلیاں اور سر تیرتا رہے اور یہ مزے سے پلٹ پلٹ کر
اقتدار کی مسند پر سوار ہوں؛ تو یہ قومی خزانہ جس طرح چاہیں لوٹ کھائیں
کوئی اِن کی قومی کرپشن پر اِن سے کچھ پوچھنے والا نہ ہو ،یہ جس طرح دن
دہاڑے چاہیں قومی خزانے پر ڈاکہ ماریں اور بچ نکلیں۔
اگرچہ خود کو بچانے کے لئے کچھ عرصہ کی ناراضگی اور دوریوں کے بعد ایک
مرتبہ پھر اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت
بغل گیری ہونے جارہی ہے اِن کا اِس طرح سے ملنا اور جن کا حکومت مخالف
اتحاد بنانا یہ بتا رہا ہے کہ مُلکی سیاست میں بڑا بھونچال آنے والا ہے ،
جو نہ صرف حکومت بلکہ خطے میں بڑی سیاسی تبدیلی کا بھی پیش خیمہ ثابت
ہوگا،عوام کی دہلیز پر پیشانیاں رگڑ کر جمہوریت بچانے والے سیاسی پجاری
کہیں وبال نہ پیدا کردیں؟اور جمہوریت کے لئے آہ وفغاں کرنے والی دونوں
جماعتیں کہیں جمہوریت کے لئے ڈائن نہ ثابت ہوجائیں ؟ اگر واقعی ایسا ہوگیا
جس کا خدشہ ہے تو پھر مورخ قرطاس پر جلی حرفوں کے ساتھ رقم کردے گا کہ
دراصل پی پی پی اور ن لیگ جمہوریت کا گلا گھوٹنے کے لئے ہی متحد ہوئیں
تھیں‘‘ وہ یہ بھی تاریخ کے باب میں درج کردے گا کہ ’’ جب اِن دونوں جماعتوں
کو اپنی بقاء کی ناؤ ڈوبتی محسوس ہوئی تو دونوں نے اپنی سلامتی اِسی میں
جانی کے جمہوریت کی مالا جپتے ہوئے جمہوری کشتی میں سوراخ کر کے جلد ڈبو دی
جائے ‘‘ ہمیں کسی حیل حجت یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ پی پی پی اور ن لیگ کو
اپنا سیاسی کیرئیر واضح طور پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے اِسی لئے دونوں
جماعتیں اپنی سیاسی خودکشی کرنے سے پہلے اپنے وجود کے سیاسی ٹمٹماٹے چراغ
کو اپنے ہی ہاتھوں بجھانے کے لئے متحد ہورہی ہیں۔(ختم شُد) |