پاکستان میں انتخابات کوئی بھی ہوں،اسے عوام اور میڈیا
دونوں میں ہی بہت پذیرائی ملتی ہے چاہے وہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی
یا پھر بلدیاتی ،یہ سب پاکستان کی سیاست کے پارہ ہائی کر دیتے ہیں۔
باحیثیت ایک سیاسی جماعت ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ
لے اور عوام کا ووٹ حاصل کرے اور ایسا ہونا بھی چاہئیے اور ہوتا بھی ہے
کیونکہ یہ ہی جمہوری روایات ہوتی ہیں -
کچھ دن پہلے کراچی کےاس حلقے میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ضمنی الیکشن کی
تیاریاں خوب زوروں پر تھیں اور ہر سیاسی جماعت عوام کا بھروسہ اور ووٹ حاصل
کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن وہاں
یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا اور میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ شاید
صرف چہرے بدلے ہیں پر مزاج نہیں بدلے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ چونکہ
انتخابات کی تیاریاں خوب زوروں پر تھیں جس کے لیے ریلیاں اور جلسے کئے
جارہے تھے،اور اسب جماعتوں کے کارکنان بھی یہی کر رہے تھے لیکن اعتراض اس
بات پر ہے کہ کیا ریلیاں اور جلسے کرنے کے لیے روڈ بن کر دینا صحیح ہے اور
اس میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کے کارکنان بھی شامل تھے جنہوں نے اتوار کے
انتہائی مصروف دن اور وقت میں روڈ بن کر کے وہاں ریلی نکالنے کی غرض سے جمع
ہونے لگے اور وہ بھی بلکل تھانے کے سامنے اور کوئی کچھ نی بولا اور شاید
بول بھی نہیں سکتا تھا اور اس دوران وہاں مقامی رہنما بھی موجود تھے،اسی
طرح یہی کچھ حلقے کے دیگر جماعتوں نے بھی کیا کہ کبھی کہیں روڈ بن کر دیا
تو کبھی رات کے وقت لاؤڈ اسپیکر پر گلیوں میں شور کرتے نظر آئے اور عوام کے
لیے تکلیف کا باعث بنے جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ بلکل یہ تمام جماعتوں
کا حق ہے اور الیکشن کا حصہ ہے لیکن عوام کو ان کی وجہ سے مشکل میں ڈال
دینا کسی صورت جائز نہیں -
سوال یہ ہے کی آخر وہ دور کہاں گیا کہ جب ہمارے سیاسی کارکنوں کی بھی تربیت
ہوتی تھی اور انھیں بھی اخلاقی اقدار سیکھائے جاتے تھے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک عوام ہی مشکلات جھیلتے رہیں گے اور آخر
کب تک عوام کو ان جنونی کارکنوں کے رحم وکرم پر رکھا جائے گا؟؟؟؟؟ |