آزادکشمیر میں سیاسی تلملا ہٹ اور انڈین میڈیا کا شور

آزادکشمیر میں سیاسی تلملا ہٹ اور انڈین میڈیا کا شور

آزادکشمیر میں سرد موسم کی برف باری بارشوں کے سلسلے نے سارے ماحول اور زندگی کے گزر بسر کے اندازوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔جس میں گرم کیفیات کا امکان نہیں ہے مگر سیاست سے جڑے معاملات میں انتظامی لاپرواہی بے رُخی کے سبب گرم ہواؤں کا زور بے چین روح کی طرح تلملا رہا ہے۔ جس کا اظہار یہاں کے ڈرائنگ رومز کے اندر ہی ہوتا آ رہا تھا ۔مگر ترقی یافتہ جمہوریت کے شاہکار یو کے کے آزاد خیال ماحول کے اثرات نے طبع نازک شاعرانہ کلام والے سینئر وزارت کے قلمدان کوبے باک بنا دیا جن کی طرف سے ایک چینل کو دیئے گئے انٹرویو نے سیاسی بھٹکوں اور ان سے جڑے کونے کھدروں والوں کو زبان و خیالات کا ذائقہ بدلنے میں مدد فراہم کر دی ہے ۔تاہم اس کے اندر مرچ مصالحہ اور پکوائی کی آگ کا ایندھن کھانا تیار کرنے میں کتنا وقت لے گا یہ یو کے اور انڈونیشیاء ملائیشیاء سے واپس آنے والوں کے روابط و دسترخوان کے لوازمات پر منحصر ہے ۔جس کے ایجنڈے کے نکات تیار ہیں ان میں کون کون سے رنگ بھرنے ہیں ان کی گہری ہلکی سرخیوں اور بڑے میز کے درمیان پھولوں کا گلدستہ ترتیب دینے میں اونچ نیچ چوڑائی گولائی کے مختلف آئیڈیاز کو باہم سنوارنے کا بڑا مشکل کام ہے ۔مگر یہ سب اس کا پہلے بھی تجربہ رکھتے ہیں اور تجربہ تجربہ عقل عقل کا باہم دست و گریبان ہونے کی کشمکش کو دو قدم پیچھے دو قدم آگے کر کے موقع مل جائے تاہم پہلا والا پیار ختم ہو چکا ہے ۔
سہولتیں گرا دیتی ہیں انداز بے نیازی
ضرورتیں نہ ہوتیں تو ہر بند ناخدا ہوتا

تاہم سینئر وزارت کے قلمدان کے برہمی سے شروع ہو کر گزارش پر ٹونٹی تان کا ڈبل نائن کو نائن زیرو کہے بغیر شخصی حکومت بدنام زمانہ گریڈ والوں پر عنایات اور فیورٹ سے مراد ناموں کے ساتھ لاحقہ خاص راج اور یاران غار پر اعتماد کے سوا باقی سب کو نذر انداز کرنا مختصر خلاصہ ہے ۔لیکن سیاسی انتظامی لحاظ سے سحرش سلطان احتجاج کو مس ہینڈل کرنا مثال بنایا ہے ۔جس کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے ۔بلکہ ایڈہاک پولیس ملازمین ہوں یا اکلاس والوں کا کریا کرم ہو ۔اب یونیورسٹی طلبہ پولیس کے آمنے سامنے آنسو گیس گولوں ‘ پتھروں کا مقابلہ آرائی کا واقعہ ہے۔ یہ سب سیاسی عوامی انداز بات چیت سے طے کیے جا سکتے تھے جن کا دلی میڈیا میں اپنی قابض افواج کے مقبوضہ کشمیر میں قتل غارت ظلم و ستم بے نقاب ہوتے ‘ آئینہ کے توڑ کیلئے جھوٹ اور جھوٹ کا چربہ کر کے اسلام آباد کیخلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے ۔ حتیٰ کہ گاؤں ‘محلہ ‘ وارڈ کی سطح پر ٹولوں کے باہمی فطرتی چھوٹے موٹے جھگڑوں اور صحت مندانہ تمام معاشروں کو باہمی اُمور پر تنقیدی رائے بحث کو بھی طوفان بنا کر پیش کرنا معمول بن چکا ہے۔ تاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بدگمانی اور عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں اپنی قتل غارت گری کا بطور کاؤنٹر اٹیک توجہ کو تقسیم کیا جا سکے ۔تاہم سیاسی معاشرتی انتظامی اُمور معاملات پر احتجاج ‘ جلوس ‘ مظاہرے یا آنسوگیس پتھروں کا چل جانا اہمیت نہیں رکھتا ہے ‘۔ اس طرح کے واقعات ہونے سے پہلے الہام نہیں ہوتا ہے یہ فطرتی تقاضوں اور اچھے بُرے رحجانات کے طور پر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ‘ اصل امتحان ہر سطح ہر پہلو کے اعتبار سے لیڈر راہنما انتظامی ذمہ دار کی صلاحیت کا ہوتا ہے ‘ وہ اسے خوش اسلوبی سے کیسے طے کرتا ہے ‘۔ علامہ طاہر القادری کے دھرنے کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی والوں نے مذاکرات سے ختم کر دیا اور ن لیگ نے لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کو جنم دیا یہ فکر رحجان موجود گلوبل ویلج بن جانے کے بعد دنیا میں منظر عام پر نہ آنے کا دور قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اگر کسی ایک سینئر ‘ تجربہ کار ‘ فہم و فراست والے وزیر کو تمام واقعات میں ذمہ داری سونپ دی جاتی تو کسی معاملے میں بھی بات کا پتنگڑ نہیں بنتا اور ہر دو فریقین کا آمنے سامنے بٹھا کہ موقف سننے کے بعد اصل مرض کا علاج ہو جاتا مگر یہاں تو بندے کے پیچھے بندہ لگا کر لڑانے اور ککڑ لڑائی دیکھنے کا نشہ ہر طرف ہر جگہ کھلی مداخلت کر کے ذاتی وفادار پھر تماشے پر واہ واہ کرنے والوں کی چاندی چل رہی ہے ۔جس کا نتیجہ ہے کہ دو دِن قبل ایک ہوٹل سے زیڈ بی مقدمے میں گرفتار ہونے والے اصل محرک بھی طلبہ کے احتجاج میں شرانگیزی کررہا تھا۔ جس کے ساتھ پکڑے جانے والے حوالات میں ہیں مگر یہ باہر نکل آیا پھر کیسا انصاف کیسا قانون اور میرٹ ہے ۔ پھر تو ہر وزیر ‘ ایم ایل اے کا حق ہے وہ اپنے اپنے فیورٹ کام کاج چہرے لاحقہ والے ترجیحی دے جیسے اوپر چل رہا ہے ؟ مگر یہ سب واقعات اداروں ناموں گروہوں کے مابین پسند ناپسند کے معیار معمولی سے اُلجھے اُمور کو سلجھانے کا فقدان ثابت کرتا ہے کہ سردار ابراہیم خان ‘ سردار عبدالقیوم خان ‘ کے ایچ خورشید مرحومین نے اختیار اور بڑے بڑے ذہنی عیاشی کے نعرے کیوں نہیں لگائے تھے ۔بلکہ اندر کا سب گردوغبار ناکامی نااہلی کو چھپانے کیلئے پردہ پوشی کر کے برہم سربلند رکھتے ہوئے رُخصت ہو گئے ؟
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.