شہرقائدکی ملیرندی۔گٹرباغیچہ وباغات زرعی اجناس کی کمی
کوپورا کرسکتی ہیں
معاشی انجن کو زرعی انجن بنانے کی ضرورت کب تک نظر انداز کی جاتی رہے گی،
کراچی کے زرعی انجن کو مضبوط بنانے کیلئے ملیر، لیاری اور گٹر باغیچہ کو
استعمال کرنے کی ضرورت انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے ماہرین کا خیال ہے
کہ مستقبل میں وہ ہی شہر بہترین ہونگے جو اپنی اجناسی ضروریات پوری کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہونگے اور کراچی کو قدرت نے اس خصوصیت سے بھی مالامال رکھا
ہوا ہے جسے استعمال میں لانے کی ضرورت ہے صرف ”ملیر ندی“ وباغات کا ذکر کیا
جائے تو کراچی میں مون سون سیزن میں ملیر ندی میں آنے والا پانی ضائع
ہوجاتا ہے، اگر اسے ڈیم کی شکل میں محفوظ بنا لیا جائے تو کراچی کی زرخیز
زمین اس قابل ہے کہ یہاں کاشت کاری کے لحاظ سے اسے استعمال میں لاکر غذائی
ضروریات پوری کرنے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے ماضی میں ملیر کے باغات ملک
بھر میں پہچانے جاتے تھے نایاب قسم کے گلاب۔ہری مرچ سمیت ملیر کا امرود ملک
میں شہرت کا حامل رہا ہے مگر گندے اور کیمیکل زدہ پانی کے فصلوں میں
استعمال کی وجہ سے کئی مرتبہ کمشنر کراچی نے ملیر میں کاشت ہونے والی
سبزیوں و پھلوں پر پابندی عائد کر کے پابند بنایا کہ کاشتکاری کیلئے ضروری
لوازمات کا خیال رکھا جائے، شہر کی بڑھتی آبادی کی ضروریات کو سامنے رکھا
جائے تو اب ضروری ہوگیا ہے کہ غذائی اجناس کیلئے کراچی میں بھی کاشتکاری کو
فروغ حاصل ہو، اندرون سندھ میں شدید برسات کی صورت میں ملیر ندی میں وافر
مقدار میں پانی آتا ہے جسے ڈیم بنا کر محفوظ کر لیا جائے تو کم ازکم
کاشتکاری کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اسے استعمال میں لایا جا سکتا ہے،
کراچی کی آبادی کی سبزیوں وپھلوں کی ضروریات اندرون ملک سے پوری کی جارہی
ہیں جبکہ کراچی کی زمین خود اس قابل ہے کہ یہاں زراعتی عمل سر انجام دیکر
سبزیوں اور پھلوں کی فصلیں پیدا کی جاسکتی ہیں اسوقت زہریلا پانی ملیر ندی
میں فصلوں کی کاشت کیلئے استعمال ہو رہا ہے جس کے متوازی حکومت سندھ کو
فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے زرخیز زمین صرف اس لئے بدنام ہو رہی ہے
کہ اس میں کاشت کیلئے ضرورت کے اعتبار سے پانی فراہم کرنے سے اجتناب برتا
جا رہا ہے.
|