حضور ﷺ کا سفر ہجرت

تیرہ سال کے بعد بے پناہ دکھوں اور بے مثال صبر و تحمل کے بعد جب مدینہ کی شکل میں ایک پناہ نصیب ہو گئی تو رسول اﷲ ﷺ نے سب ایمان والوں کو وہاں ہجرت کا حکم دے دیا تاکہ اپنی قوتوں کو مجتمع کر کے کفر پر کاری ضرب لگا سکیں ۔ ہجرت کوئی جان بچانے کا عمل نہ تھا ۔نہ اس کا منشا ایک پر امن جگہ پہنچ کر باقی زندگی ذکر الہٰی میں گزارنا تھا ۔اس کا مقصد ایک مضبوط قلعہ میں بیٹھ کر کفر سے پنجہ آزمائی کرنا اور اسے سرنگوں کرنا تھا ۔کفر و شرک کو صفحۂ ہستی سے ملیا میٹ کرنا تھا ۔ بادشاہِ حقیقی کی سلطنت سے باغیوں کا خاتمہ کرنا تھا ۔حکومت کی باگ ڈور اﷲ کے بندوں کے حوالے کرنا تھا تاکہ وہ اسے بادشاہ کی مرضی کے مطابق چلائیں ۔

ہجرت آغاز تھا اس نصب العین تک پہنچنے کا جس کے لئے رسول اﷲ ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا تھا ۔یہ ابتدا تھی اس کوہ شکن عمل کی جس نے کرۂ زمین پر اﷲ کے جھنڈے کے سوا ہر دوسرے جھنڈے کو اکھاڑ پھینکنا تھا ۔جس نے ساری دنیا کو کفر و شرک کی آلائش سے پاک کر کے انسانی جماعت کو ایک برادری اور زمین کو جنت بنانا تھا ۔

یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں سے ہجرت پر بیعت لی گئی اور وہ فتح مکہ تک جاری رہی ۔یہی وجہ تھی کہ ہجرت نہ کرنے والوں کے متعلق قرآن نے کہا کہ ان سے تمہاری کوئی دوستی نہیں ۔تمہارے دوست اور سچے مومن صرف وہ ہیں جو ہجرت کرتے اور جان و مال سے جہاد کرتے ہیں یا انہیں پناہ اور مدد دیتے ہیں ۔چنانچہ حکم ملتے ہی ہر جگہ سے مسلمانوں نے اپنے گھر بار ،بیوی بچوں اور مال و متاع کو چھوڑ کر مدینہ کا رخ کیا۔ مکہ کے مسلمانوں نے ایک ایک کر کے خاموشی سے جانا شروع کیا حتیٰ کہ پیچھے صرف رسول اﷲ ﷺ ،سیدنا حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اور سیدنا حضرت علی رضی اﷲ عنہ رہ گئے ۔

مکہ سے پنتالیس (45)مسلمانوں نے ہجرت کی ۔یمن سے باون(52)مسلمانوں نے کشتی پر بیٹھ کر مدینہ کا رخ کیا مگر ہوا کی لہریں انہیں حبشہ لے گئیں اور وہ بہت بعد میں حبشہ کے مہاجروں کے ہمراہ مدینہ پہنچے ۔مضافات کے قبائل کے مسلمان بھی مدینہ چل دئیے ۔

ان حالات میں مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے دار الندوہ میں مشاورت کی اور ان میں نجد کا ایک شیطان بھی شامل ہوا ۔تین تجویزیں پیش ہوئی ۔رسول اﷲ ﷺ کو شہر بدر کر دیا جائے ،قید کر دیا جائے یا قتل کر دیا جائے ۔پہلی دو تجویزوں کو غیر تسلی بخش قرار دیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ ہر خاندان میں سے ایک شخص نکلے اور یکبارگی حملہ کر کے آپ ﷺ کو قتل کر دیا جائے ۔اس طرح بنی ہاشم انتقام نہ لے سکیں گے ۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ خون بہا دیا جائے گا۔

27صفر اعلان نبوت کے 14سال آپ ﷺنے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اطلاع دی کہ رات کو روانگی ہے ۔رات ہو تے ہی کفار نے بھی آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور دروازے پر بیٹھ کر آپ ﷺ کے نکلنے کا انتظار کر نے لگے ۔آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو لوگوں کی امانتیں سپرد کیں اور اپنے بستر پر سلا دیا ۔خود دشمن کی آنکھوں میں دھول ڈال کر گھر سے باہر نکلے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر پہنچ کر انہیں ہمراہ لیا ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنا کل سر مایہ(چھ ہزار درہم )ساتھ رکھا ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیٹی اسما ء رضی اﷲ عنہا نے کمر بند پھاڑ کر کھانا باندھا اور آپ دونوں مکہ سے تین میل دور جبل ثور پر واقع ایک غار میں جا کر چھپ گئے ۔دونوں وہاں تین راتیں چھپے رہے اور کفار ان کی تلاش میں سر گرداں رہے ۔ایک کافر غارِ ثور تک ایسی جگہ آن پہنچا کہ جھک کر دیکھتا تو دونوں کو سامنے بیٹھے پاتا ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اس بات سے گھبرائے لیکن رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’فکر نہ کر و، اس غار میں ہم دو کے ساتھ تیسرا اﷲ ہے ۔‘‘قریش نے آپ ﷺ کو پکڑنے کے لئے ایک سو اونٹوں کا انعام مقرر کر دیا ۔

ان تین دنوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے بیٹے عبد اﷲ ،بیٹی اسما ء اور غلام عامر رضی اﷲ عنہم کھانا اور دودھ لاتے رہے اور شہر کی خبریں بھی دیتے رہے ۔چوتھے دن عبد اﷲ بن اُریقط جو مسلمان نہ تھا تین اونٹنیاں لایا اور دو اونٹنیاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی پالی ہوئی تھیں ۔رسول اﷲ ﷺ نے کسی اور کی اونٹنی پر سفر کرنے سے انکار کیا اور قیمت ادا کی ۔عبد اﷲ بن اُریقط اُجرت پر راہ دکھا نے پر مامور تھا اور باوجود کافر ہونے کے اس پر اعتبار کیا گیا ۔ایک اونٹنی پر رسول اﷲ ﷺ سوار ہوئے ۔ایک پر حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عامر رضی اﷲ عنہ اور ایک پر ابن اُریقط ۔رات کو سفر شروع ہوا اور مسلسل بائیس گھنٹے یہ قافلہ چلتا رہا ۔اچانک ایک کافر سراقہ نے آپ لوگوں کو آلیا مگر اس کے گھوڑے نے دو بار ٹھوکر کھائی اور اس نے فال نکالی تو وہ بھی ناموافق نکلی ۔وہ ڈر گیا اور امان کا خواست گار ہوا ۔حضرت عامر رضی اﷲ عنہ کو امان لکھنے کا حکم دیا گیا ۔حضرت سراقہ رضی اﷲ عنہ نے یہ امان فتح مکہ کے دن پیش کی ۔

کہتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے اس وقت حضرت سراقہ رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ میں تو تمہارے بازو ؤں میں کسریٰ کے گنکن دیکھ رہا ہوں ۔ جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں ایران فتح ہوا توحضرت سراقہ رضی اﷲ عنہ کو سچ مچ و ہ کنگن پہنائے گئے ۔سفر سمند رکی قریبی راہ پر ہوا ۔

ہجرت کے وقت آپ کی عمر تریپن (53)سال کی ہو چکی تھی ۔

10روز بعد 8ربیع الاول 1ھ بمطابق 10ستمبر 622ء بروز جمعہ آپ ﷺ مدینہ سے دو میل باہر قبا کی بستی میں وارد ہوئے اور رک گئے ۔ مکہ کے اکثر مہاجر یہیں آکر ٹھہرے تھے ۔پہنچتے ہی آپ ﷺ نے مسجد قبا کی تعمیر شروع کی اور اپنے ہاتھ سے کام کرتے رہے ۔14دن یہاں قیام ہوا ۔

جمعہ کے دن وہاں سے روانہ ہوئے اور اس طرح کہ بنی نجار (آپ ﷺ کے دادا کے ننھیال ) ہتھیار لگائے چل رہے تھے ۔عورتیں چھتوں پر چڑھ آئیں اور انہوں نے ترانے پڑھے کہ ہم پر چودھویں کا چاند نکلا ہے اور ہم پر شکر کرنا واجب ہو گیا ہے ۔’’ طلع البدر علینا ۔۔۔ وجب الشکر علینا ‘‘حبشیوں نے نیز ہ بازی کر کے خوشی کا اظہار کیا ۔چھوٹی بچیوں نے بھی ترانے پڑھے ۔ہر شخص نے آپ ﷺ کو مہمان کر نے کی خواہش کی ۔آپ ﷺ مدینہ میں بطور نجات دہندہ داخل ہو رہے تھے ۔پہچان کے لئے آپ ﷺ کی سواری پر کپڑا تان دیا گیا ۔


شہر میں داخل ہو نے سے پہلے محلہ بنو سالم میں نماز جمعہ کا وقت آگیا اور آپ ﷺ نے وہاں اسلام کا پہلا خطبہ دیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اپنی آئندہ زندگی کی فکر کرو۔ تم مرنے کے بعد اﷲ کے حضورحاضر کئے جاؤ گے ۔وہ تم سے ہم کلام ہو گا اور کہے گا کہ ’’اے شخص !کیا تیرے پاس میرا رسول نہیں آیا تھا جس نے تجھے میرے احکام پہنچائے ؟ کیا میں نے مال دے کر تجھ پر فضل نہیں کیا تھا ؟ پھر تو نے کیا توشہ آگے بھیجا ؟‘‘ وہ شخص دائیں ، بائیں اور پیچھے دیکھے گا ۔کچھ نہ پائے گا ۔پھر سامنے دیکھے گا تو جہنم کو پائے گا ۔پس اے لوگو ! جہنم سے بچو اگر چہ وہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی ہو او ر جس کے پاس وہ بھی نہ ہو وہ خوش کلامی اختیار کرے اور اچھی بات سے سائل کو رد کرے ۔‘‘

آپ ﷺ نے اپنا قیام اونٹنی پر چھوڑا اوروہ محلہ بنو نجار میں بیٹھ گئی اور آپ ﷺ ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کے مکان کی نچلی منزل میں ٹھہرگئے ۔

اب آپ ﷺ نے حضرت زید رضی اﷲ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر بھیجا تاکہ آپ ﷺ کے گھر والوں یعنی زوجہ حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا اور بیٹیوں حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاکو لے آئے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر والوں کو ان کا بیٹا لے آیا ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ آپ کے آنے کے تین دن بعد پیدل چل پڑے اور چھپتے چھپاتے کئی دن کے بعد مدینہ پہنچے اور ہجرت کی پہلی قسط مکمل ہوئی ۔

Peer Muhammad Tabasum Bashir
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir: 85 Articles with 163143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.