بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کیا داعش کو واقعی شکست ہو چکی ہے ؟ مشرق وسطیٰ کے بحران پر تجزیہ کرنے
والوں کے لیے اس سوال کا جواب فی الحال موجود نہیں ہے ۔ امریکہ کی جانب سے
شام سے فوجی انخلاء کے اعلان نے جہاں بشار الاسد اور اس کے اتحادیوں کے لیے
خوشی کی نوید سنائی ہے وہاں یہ سوال بھی بہت تیزی کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ
کیا شام میں بحران ختم ہو چکا ہے یا پھر امریکہ کی معاشی صورتحال اور دیگر
خطوں میں دلچسپی کے باعث جلد بازی میں اعلان کیا گیا ہے۔ بظاہر امریکی
تجزیہ نگار اپنے صدر ٹرمپ کی اس بات سے متفق ہوتے نظر نہیں آرہے کہ شام سے
داعش کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے ۔گزشتہ دنوں امریکہ محکمہ خارجہ میں اعلان
کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ شام کے کچھ علاقوں میں داعش
موجود ہے اور چند دنوں میں ہی داعش کا شام سے مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا ۔
دوسری جانب امریکی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹرڈان کوٹز کا یہ
اعتراف کہ داعش کے آٹھ گروہ اور ہزاروں جنگجو اس وقت بھی موجود ہیں جو مشرق
وسطیٰ کے ممالک کے لیے خطرہ ہیں ۔ڈان کوٹز اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ
شام میں امریکی و اتحادی فورسز شام کے خلاف تاریخی کامیابی حاصل کر چکے ہیں
تاہم شام اور عراق میں ہزاروں داعشی جنگجو موجود ہیں جن کی آٹھ مختلف شاخیں
، بارہ نیٹ ورکس اور ہزاروں حامی دنیا میں موجود ہیں جو کسی بھی وقت خطرہ
بن سکتے ہیں ۔امریکی حکام کو یہ بھی خطرہ ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کی
کارروائیوں کے باعث داعش کے جنگجو وقتی طور پر زیرزمین جا چکے ہیں اور یہ
لوگ امریکی افواج کے انخلاء کے منتظر ہیں ۔داعش کے جنگجوؤ ں نے فی الحال
اپنی تمام کارروائیوں معطل کر دی ہیں اور جونہی امریکی افواج کا انخلاء
مکمل ہو گا یہ لوگ فوری طور پر اپنی سرگرمیوں کا اعلان کر دیں گے ۔ داعش کے
جنگجو حملوں اور جوابی حملوں کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے
سربراہ جنرل جوزف بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ تاحال داعش شام کی سلامتی کے
لیے خطرہ ہے ان کا کہنا تھا کہ داعش اپناوجود، قیادت ، جنگجو ،معاونت اور
سہولت کا مکمل نیٹ ورک رکھتی ہے ، وسائل کی موجودگی کے باعث وہ یہ لڑائی
جاری رکھ سکتے ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو بھی واشنگٹن میں اجلاس سے
خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے ہی کلمات کہہ چکے ہیں ۔ مائیک پومپیو اپنے صدر
ٹرمپ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب جنگ کی نوعیت تبدیل ہوئی
ہے البتہ ہدف وہی ہے ۔ داعش کے خلاف لڑائی میں ایک نیا موڑ آیا ہے یہ لڑائی
مکمل ختم نہیں ہوئی ۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ماہ
داعش کی جانب سے امریکی فورسز پر چھوٹے پیمانے پر حملے جاری رکھے گئے ۔ ایک
ہفتہ میں داعش نے دو مختلف مقامات پر امریکی فورسز پر حملے کیے ۔پہلے حملے
میں دو امریکی فوجی ، دو امریکی شہری اور پندرہ عام شہری مارے گئے تھے جبکہ
دوسرے حملہ ایک بکتر بند گاڑی پر کیا گیا تھا جس میں تین امریکی فوجی زخمی
ہونے کی اطلاعات ملی تھیں ۔
یہ بات تو مسلمہ ہے کہ داعش دوبارہ سے شام میں خطرہ بن کر ابھر سکتی ہے
تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا داعش کے خاتمہ سے شام کا داخلی بحران
بھی ختم ہو سکتا ہے ۔ شام کی داخلی صورتحال افغانستان کی صورتحال سے قطعی
مختلف تو ہے تاہم افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا سلسلہ وہاں بھی ختم نہیں
ہو سکتا ۔ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ امریکی افواج کا انخلاء کی
بنیادی وجہ کیا ہے ۔ امریکہ شام میں تین مختلف مقاصد لے کر پہنچا تھا ۔
پہلا مقصدعراق کے بعد شام میں موجود تیل کا بڑا ذخیرہ موجود تھا جس کے لیے
امریکہ کی دلچسپی میں اضافہ ہو گیا ۔ دووسرا بڑا مقصد مشرق وسطیٰ میں کسی
بھی ایسی ریاست کو ابھرنے سے روکنا تھا جو خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ
بن جائے ۔ شام اور ایران کا گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل کر
رہا تھا دوسری طرف دونوں ممالک کا اپنے سابقہ حلیف روس کی طرف جھکاؤ بھی
امریکہ کے لیے خطے کی گھنٹی بجا رہا تھا ۔ دوسری جانب بشار الاسد امریکی
حلیف سعودی عرب کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بنتا جارہا تھا چانچہ ایک طرف تو
امریکہ سعودی عرب کے تحفظ کے لیے تو دوسری جانب شام و ایران کے گٹھ جوڑ کو
شکست دینے کے لیے شام تک آ پہنچا( سعودی عرب کا تحفظ بظاہر ایک بہانہ ہی ہو
سکتا ہے جس کے ذریعے امریکہ سعودی عرب سے کئی قسم کے مفادات سمیٹ سکتا ہے
جس میں اسلحہ کی فروخت اور مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج کے خرچ کی ادائیگی کے
لیے معاشی مدد شامل ہے )۔مشرق وسطیٰ میں تیسرا بڑا ہدف اسرائیلی مفادات کا
تحفظ ہے۔ امریکہ کسی صورت بھی کسی ایسی قوت کو مشرق وسطیٰ میں نہیں دیکھنا
چاہتا جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے ۔ اسرائیل کے تحفظ کے لیے
مشرق وسطیٰ میں مذہبی بنیادوں پر تفریق بہت بڑی ضرورت ہے۔ عراق میں شیعہ
سنی کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی سازشیں کامیاب تو نہیں ہو سکیں تاہم
وہاں ایسے گروہ بن چکے ہیں جو شیعہ سنی کی بنیاد پر آپس میں ہی اپنی
توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔ یہی کچھ شام میں بھی کیا گیا ایک طرف بشار
الاسد کی افواج کو سنی علاقوں میں لوٹ مار، کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرنے
اور عمارتوں کو تباہ کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تو دوسری جانب اس کے خلاف
لڑنے والے سنی گروپوں کے خلاف بھی حملے جاری رکھے گئے ۔ داعش کا خاتمہ شاید
امریکہ کی پہلی ترجیح نہیں تھی ۔ شام میں کئی قسم کی قوتیں آپس میں
برسرپیکار تھیں ۔ تاہم ان سب قوتوں کا آپس میں لڑنا اسرائیل کو مضبوط کرتا
جارہا تھا اور یہی امریکہ کا مقصد تھا ۔ داعش کے حوالہ سے کئی قسم کے خدشات
موجود ہیں کہ امریکہ کی کئی خفیہ قوتیں اس ادارے کے پیچھے موجود رہی ہیں یا
پھر کئی مواقع پر جان بوجھ کر اسے ختم نہیں کیا گیا ۔دنیا میں دہشت گردی پر
مطالعہ کرنے والے ماہرین حیران ہیں کہ داعش کی موجودگی سے اسرائیل کو کبھی
خطرہ محسوس کیوں نہیں ہوا ۔ یہ وہ سوال ہے جو سارے مطالعہ کو امریکہ کی طرف
لے جاتا ہے ۔
شام میں تقریبا دو ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن کے انخلاء کا اعلان کیا
جا چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی انخلاء سے کیا بحران ختم ہو جائے گا
جس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہے ۔ شام میں اصل مسئلہ شاید داعش نہیں
تھا بلکہ داعش کی موجودگی بھی شاید شام کے اصل بحران کو چھپانے کے لیے تھی
۔ عراق میں شکست کھانے والے جنگجو داعش کے نام سے شام میں منظم ہو رہے تھے
اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں منظم ہونے دیا گیا ۔ شام میں داعش کی
موجودگی سے قبل سنی گروہ بشارالاسد کے اقتدار کے خلاف لڑ رہے تھے ۔ شام میں
اکثریت چونکہ سنی مسلمانوں کی ہے اس لیے بشارالاسد رجیم سے انہیں مسئلہ تھا
۔ داعش کے شام میں داخلہ کے ساتھ ہی ان کا پہلا ہدف یہی سنی گروہ تھے ۔ اس
لیے شامی بحران سے براہ راست متاثرہ فریق وہاں کی عوام ہے ۔ انسانی حقوق کے
لیے کام کرنے والے ادارے کے مطابق گزشتہ سال 20ہزار افراداس جنگ کا نشانہ
بنے ۔ اگرچہ بشار الاسد کے خلاف جاری انقلابی جنگ کے شروع ہونے کے بعد یہ
اعدادوشمار سب سے کم ہیں تاہم اس کے باوجود یہ معمولی تعداد نہیں ہے ۔ ان
میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب ہے۔ اسی طرح اس جنگ سے
سنی علاقوں کی اکثریت تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور انہی علاقوں سے لاکھوں
افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ پناہ
گزین کیمپوں میں شدید سردی کے باوجود نہ تو وہاں سردی سے بچاؤ کی خاطر خواہ
سہولتیں موجود ہیں اور نہ ہی طبی سہولتیں موجود ہیں جس کے باعث نومولود
بچوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ امریکی فوج کا انخلاء
بھی مکمل ہو جائے گا ، روس کی افواج بھی بشار الاسد کی فوج کو مضبوط کرکے
واپس جا چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ 2011سے جاری اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا
۔ کیا اس کا انجام لاکھوں افراد کے پناہ گزین ہونے ، جاں بحق ہونے اور
شہروں کے ملیامیٹ ہو نے کی صور ت میں ہو سکتا ہے ۔ شام کے لیے کوئی سیاسی
حل کیوں نہیں نکالا جا سکتا ۔ یہ خطہ پھر سے عالمی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا
ہے اور عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات میں انسانیت کو سسکتا بلکتا چھوڑ کر
پھر کسی دوسرے مفادات کی تلاش میں جا چکی ہیں ۔ اسرائیل پہلے سے ذیادہ
محفوظ اور مضبوط ہو چکا ہے ۔ |