اسلام کی حقانیت اور امن و سلامتی کا اعتراف ہر دور کے
غیر مسلم کرتے رہے ہیں۔لیکن دوسری طرف بزعم خویش اسلام کو اپنے لئے خطرہ
سمجھنے والوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر الزام تراشیوں میں بھی کو ئی
کسر باقی نہیں چھوڑی ۔عالمی سطح پر ماضی قریب سے لے کر حال تک بعض واقعات
پے در پے رونما ہوئے جن کے نتیجے میں حالات نے وقتی طور پر اپنا ردعمل بھی
دکھایا لیکن اس پس منظر میں پیدا ہونے والے آفٹر شاکس وقتی اور لمحاتی ثابت
ہوئے۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا، اس کے محرکات، اسباب اور اثرات سب کے سامنے
ہیں، دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان واقعات میں اسلام اور اہل اسلام پر جو
سنگینی آئی، اس نے وقتی طور پر مسلمانوں کے لئے انتہائی مشکل حالات اور
مسائل پیدا کئے۔ خصوصاً یورپ اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں کیلئے یہ وقت
بہت کڑا تھا۔ کچھ ہی وقت گزرا کہ برطانیہ میں سیون سیون برپا ہو گیا یوں
مسلمانوں پر پھر سے ایک نئی افتاد نے جنم لیا۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس
سے قبل جب کمونزم کو شکست فاش ہوئی، سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو اس کے
بعد مسلمانوں کو’’ انتہا پسند اوربنیاد پرست‘‘ کا لقب دیا گیا ۔ نائن الیون
کے بعداسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔ امریکہ
نے نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان اور عراق میں مسلمانوں پر ڈیزی کٹر بم اور
کروز میزائل برسانے شروع کیے تو صلیبی جنگ کے آغاز کا اعلان کر دیا گیا ۔
اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب ثابت کرنے کی
ہر ممکن کوشش کی گئی۔ بش، ٹونی بلیئراور ان کے ہم نوا مطمئن تھے کہ چند ماہ
میں ’’بنیاد پرستوں‘‘ ’’انتہا پسندوں‘‘ ’’دہشت گردوں‘‘ کا مکمل خاتمہ کر کے
’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ ہو گا اور پوری دنیا اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں
اسلام کو اپنے لئے مستقل خطرہ سمجھ کر ان کی ہم آواز ہوگی۔ابھی یہ سلسلہ
جاری تھا کہ ہالینڈ سے گیرٹ ویلڈرز میدان میں اترگیا۔ اس نے اسلام کی توہین
کیلئے ہر ہربہ استعمال کیا۔توہین پر مبنی فلم بنائی،توہین آمیز کارٹون
چھاپنے کے مقابلے کا اعلان کیا۔مغربی میڈیا بھی اس کے ان منفی رجحانات کا
بھرپور پرچار کر رہا تھا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کاتب تقدیر کے
فیصلوں کے سامنے ایسی بے جا تدبیریں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اسلام کے بد
خواہوں کا خیال تو کچھ اور تھا لیکن نتیجہ کچھ اور نکلا۔ افغانستان، عراق
پر وحشیانہ فوجی حملے کے بعد اقرآن مجید اور سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کے بارے تحقیق و مطالعہ کا شوق عام ہوا، غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی
لگن پیدا ہوئی اور مسلمانوں میں بھی اپنی شناخت کا جذبہ پوری طاقت سے ابھرا۔
آج امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور ڈنمارک میں اسلام تیزی سے
پھیلنے والا مذہب ہے۔ امریکہ اور یورپین ممالک میں قبول اسلام کی موجودہ
رفتار Demography تبدیل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔افغانستان اور عراق میں
لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے والے بش کے دست راست ، برطانیہ کا سابق وزیر
اعظم ٹونی بلیئر کی سالی ’’Lauren Booth ‘‘ 2010میں اسلام قبول کر کے مشرف
با اسلام ہو چکی ہیں ۔وہ ایک سینئر صحافی اور براڈ کاسٹر ہیں۔ پنجگانہ نماز
کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ حجاب اوڑھ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتی ہیں۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں بے ہودہ فلم بنانے والا ہالینڈ کا’’
Arnoud Van Doorn‘‘ اور اس کا بیٹا پچھلے سال مسلمان ہو چکے ہیں۔ عمرہ کی
سعادت حاصل کرنے کے بعد ڈچ فلمساز ’’ Arnoud Van Doorn‘‘نے ایک انٹرویو میں
بتایا کہ ’’اسلام کامطالعہ کر کے اس امن پسند مذہب کے بارے میں میرے
متعصبانہ خیالات تبدیل ہوئے اور اب میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور
نبی رحمت صلی ﷲ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لینے کے لئے مقدس سر زمین پر
آیا ہوں۔ گستاخانہ خاکوں کے شرانگیز اور شرمناک کام میں ملوث گستاخ رسول ڈچ
سیاستدان گیرٹ وائلڈر کے ہم خیال ساتھی joram van klaverenنے اسی ماہ فروری
2019کے اوائل میں میڈیا کے سامنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یورپ
سمیت دنیا بھر کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا
ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام مخالف جذبات کی حامل ڈچ سیاسی جماعت
’’پارٹی فار فریڈم‘‘ کا سربراہ’’ گیرٹ وائیلڈر‘‘ ہے جس نے گستاخانہ خاکوں
کا مقابلہ کرانے کا اعلان کیا تھا۔ ’’وین کلیورن‘‘ سے قبل اسی سیاسی جماعت
کے اہم رکنArnoud Van Doornنے اسلام قبول کیا تھا۔انہوں نےjoram van
klaveren کو اسلام قبول کرکے اپنا ہم مذہب بننے پر دلی مبارک باد بھی پیش
کی ہے۔ ‘‘جورام وین کلیورن ‘‘نے اسلام قبول کرنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے
بتایا کہ وہ اسلام مخالف کتاب لکھ رہا تھا کہ اس دوران اس پر اسلام کے
متعلق حقائق شکارہ ہو تے چلے گئے اور یوں اس کے اسلام دشمنی کے نظریات
تبدیل ہوگئے۔وین کلیورن 2010ء سے 2014ء کے دوران رکن پارلیمنٹ رہا۔ وہ سابق
سیاسی جماعت میں انتہا پسندی کی حد تک اسلام مخالف سیاستدان کے طور پر جانا
جاتا تھا۔ اس نے اسلام اور قرآن مجید کے متعلق سخت بیانات دیئے تھے۔ ایک
انٹرویو میں اس نے اسلام اور قرآن مجید کے متعلق اپنے سابقہ بیانات پر
شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس وقت غلطی پر تھا کیونکہ یہ اس سیاسی
جماعت کی پالیسی تھی کہ ہر غلط فعل کو اسلام سے جوڑنا ہے۔ ڈنمارک میں
دلآزار خاکوں کی نمائش اور بعد ازاں ان خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے بعد
اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھی۔ ایک نو مسلم’’
عبدالوحید ایڈیسن‘‘ کے مطابق کم و بیش چار ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا
اور قرآن مجید کی اشاعت و تقسیم کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ برطانیہ میں مجموعی طو
پر پچیس ہزار افراد نے کلمہ پڑھا۔ یہی حال ناروے، سویڈن کا ہے۔ یہ مسلمانوں
کو اجڈ، گنوار، وحشی، غیر مہذب ثابت کرنے کی نفرت انگیز مہم کا ردعمل ہے
یااسلام اورمحبوب خدا ﷺ کے خلا ف دلآزار کارروائیوں کا قدرت کی طرف سے جواب،
ﷲ ہی بہتر جانتا ہے ۔۔ البتہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ جن معاشروں
میں اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو جھکانے کی مہم زوروں پر ہے وہاں سلیم
الفطرت انسانوں کے دل اسلام کے نور سے منور ہو رہے ہیں۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں
گے
|