الیکشن میں عوام نے عمران خان کے نظریہ کرپشن سے پاک
پاکستان کو دیکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیا اور اس امید پرکہ عمران خان کی حکومت
میں وزیراعظم سے لیکر ایک چوکیدار تک کا احتساب ہو گا ۔اس دوران سابق
وزیراعظم نواز شریف ‘ شہباز شریف اور ان کے خاندان سمیت آصف زرداری و دیگر
افرادکے خلاف آج کل نیب نے شکنجہ ٹائٹ کیا بھی ہیں اس کے علاوہ بہت سے
سرکاری محکمے احتساب کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ اس ملک میں کرپٹ مافیا بہت مضبوط ہے اور احتسا ب کرنے والے
کمزور لگتے ہیں ۔پاکستان میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جس شخص یا افسر
نے کرپٹ مافیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی اسی کے خلاف الٹا اس مافیا
نے ایسی ایسی چالیں چلیں کہ سچائی اور احتساب کے عمل کے علم بلند کرنے والے
ماند پڑجائیں بلکہ مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کی صورت میں جان سے مار
دینے جیسی مثالیں بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ ایان علی کیس میں ایف آئی اے کے
آفیسر کے ساتھ ہوا اسی طرح کی اور بھی بے شمار مثالیں موجو د ہیں ۔ضلع جھنگ
چونکہ ایک تاریخی اور قدیم ضلع ہے لیکن آج تک ترقی نہیں کر سکااس کی بھی
ایک یہی وجہ ہے کہ کرپٹ عناصر برسر اقتدار رہے اور کرپٹ افسران نے بھی اپنا
حصہ وصول کرنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ جھنگ کے محکمہ صحت کی ہی مثال لے لی
جائے کہ جس کے کسی بھی افسرکوکوئی لگام نہیں دے سکا اور نہ ہی عوام نے بھی
کبھی محکمہ صحت میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے بارے آواز اٹھانے کی کوشش
نہیں کی بلکہ اہل قلم کے کچھ نگینوں نے بھی لفافے وصول کرنے کو اپنا حق
سمجھا یہی وجہ ہے کہ محکمہ صحت بالخصوص ڈی ایچ کیو ہسپتال میں اس شہر کے
باسی فسٹ ایڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں مجبوراًالائیڈ ہسپتال فیصل آبا د یا
لاہور علاج معالجہ کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں گزشتہ دور حکومت
میں جھنگ کے ہسپتالوں کی تزئین و آرائش پر تو کروڑوں روپے خرچ کردئے گئے
لیکن آج بھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ کے ایمرجنسی وارڈ میں بلڈ پریشر
چیک کرنے والا آلہ تک خراب ہے ایسے میں دوران الیکشن 2018ء ایک فرض شناس
اور دیانتدار آفیسر کا تبادلہ بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ اتھارٹی جھنگ
ہوا موصوف ڈاکٹر یونس رشید کھوکھر سے میری ملاقات ایک تقریب میں ہوئی تو
دوران گفتگو حیران کن اور ہوشربا انکشافات سننے کو ملے بعد از ملاقات مجھے
تجسس ہوا کہ ایسے ایماندار افسر سے لازمی ملاقات کرنی چاہیے لیکن ان کے
دفتر میں داخل ہونے سے قبل بدقسمتی سے میری محکمہ صحت کے کچھ کرپٹ مافیا
عناصر سے ملاقات ہوئی سب کو یہی کہتے سنا کہ یہ افسرصحیح نہیں ہے یہ ہمارے
ساتھ نہیں چل سکتا اور نہ ہم اس کو چلنے دیں گے۔ ان میں میری ملاقات باؤ
عبدالغفار اور محکمہ صحت کی کرپشن کی ماں نہ کہا جائے تو کم نہ ہو گا جس کا
نام حاجی منظور اکاؤنٹنٹ کے نام سے مشہور ہے کو اس کی بہت بد تعریفیں کرتے
سنا لیکن جب میں دفتر میں گیا اور ڈاکٹر یونس رشید سے ملاقات ہوئی تو اس
دوران مختلف ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف سمیت محکمہ صحت کے دیگر اہلکار
دفتر میں موجود تھے یا بعد میں آئے جواپنے کام کروانے آئے تھے موصوف افسر
نے دفترآنے والے اہلکاروں کو چائے پانی کے علاوہ عزت سے بٹھایا اور تسلی سے
اس کی بات سنی اور قانون کے مطابق احکامات جاری کرنے کیساتھ ساتھ اس دوران
دین اسلام کی روشنی میں ہر ایک کو کرپشن نہ کرنے مخلوق خداکی خدمت کرنے کی
تلقین کرتے نظرآئے خیر یہ ساری صورتحال کو دیکھ کرہر باشعور شخص کوآہی جاتی
ہے ۔ میں بھی سمجھ گیا کہ یہ افسر ایماندار ہے جو کہ کرپٹ مافیا کو قبول
نہیں قبول ہوتے بھی کیوں آخر انہوں نے اپنے ہی محکمہ کے ہم منصب افسران کی
کرپشن جو بے نقاب کی تھی جیسا کہ سابق سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر مہار اختر بلوچ
نے درجہ چہارم سمیت دیگر بھرتیوں کے لئے 133آسامیوں کا اشتہار جاری کیا
اور250سے زائد افرا د کو بھرتی کر دیا اور تقریباًمبینہ طور پر چارسے پانچ
لاکھ رپے فی بھرتی کے حساب سے رقم وصول کی گی ہوئی تھی۔ میرٹ کی دھجیاں جو
بکھیری گئی نہ عمر دیکھی گئی نہ تعلیم نہ میڈیکل فٹنس کا خیال کیا گیا بوگس
بھرتیاں کر دی گئی اور یہ سب معاملات کو دبانے کے لئے اسی محکمہ کے شور
مچانے والے اہل کاروں کا منہ بند کرنے کے لئے ان کے عزیز و اقارب کو بھی
اسی گنگا میں نہلایا گیا لیکن جب ڈاکٹر یونس رشید نے چارج سنبھال کرکام
شروع کیا تو کچھ ماہ کے دوران ان کو انکشاف ہو گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے ۔کرپٹ
مافیا نے ان کی قیمت لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے تو ڈاکٹر یونس رشید کے
خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کی تو ڈاکٹر صاحب نے 54بوگس بھرتیوں پر ڈسٹرکٹ
اکاؤنٹ آفیسر کو خط لکھا کہ ان کی تنخواہیں بند کروا دیں اور ڈاکٹر یونس
رشید کا اپنے محکمہ کے کرپٹ عناصر کیخلاف جہاد کا عزم کیا اور سابق سی ای
او محکمہ صحت ڈاکٹر مہار اختر بلوچ سمیت ملوث اہلکاروں کے خلاف آئین بوگس
بھرتیوں پر نیب میں درخواست دے دی اور ان کے خلاف انکوائری شروع کروائی تو
جھنگ میں محکمہ صحت کے اہل کار جو کہ کرپٹ مافیا تھا سرگرم ہوگیا اور ڈاکٹر
یونس رشید کے خلاف محاذ کھول لیا ان کے خلاف جھوٹی درخواستوں کے انبار
لگائے محکمہ انٹی کرپشن محکمہ صحت میں ان کے خلاف من گھڑتاور بے
بنیاددرخواستیں دے دی اور اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے محکمہ صحت کے اعلی
حکام کو بھی ڈاکٹر یونس رشید کے خلاف کرنے میں بھی کردار ادا کیا اور متعدد
بار انکا تبادلہ کروانے کی کوشش کی حتی کہ اس کے خلاف پیڈا ایکٹ تک کی
دھمکی دلوائیں کہ نیب میں انکی کرپشن کے خالف دینے والی درخواست میں اپنی
درخواست اٹھا لو ورنہ نوکری سے فارغ ہو جاؤ گے ۔میں چند روزقبل ان کے دفتر
گیا تو پتہ چلا کہ انکا کلرک تک ان سے مخلص نہیں اور ڈاکٹر صاحب کو نیچا
دکھانے اور ناکام کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف عمل ہے میں نے
ڈاکٹر یونس رشید سے بات کی کہ جو کام عوام کو اورسیاست دانوں کے کرنے کا
تھا اتنا بڑاکام اکیلے کرنے چل پڑے تو ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کو
حلال کھلاتا ہوں میری عزت کی خیر ہے میرے اس جہاد سے اﷲ راضی ہو جائے کافی
ہے ۔اس ساری صورتحال میں محکمہ صحت کے کرپٹ ترین اکاونٹٹنٹ حاجی منظوراحمد
نے پس پردہ رہ کرتمام تر کارروائیاں سرانجام دی ۔حالانکہ سابق ڈپٹی کمشنر
جھنگ نے حاجی منظور اور دیگر اہلکاروں کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے انہیں جھنگ
سے فارغ کرکے محکمہ صحت کے سیکرٹری کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی تھی لیکن
ایسے مافیا کے آگے اعلی حکام بھی بے بس نظر آئے ۔اگر نیب حکام اس شخص کی
بھرتی سے لیکر اب تک کی انکوائری کرے تو بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے
۔ایسی صورتحال میں اگر وزیراعظم عمران خان اور وزیر صحت ڈاکٹر راشدہ یاسمین
اگر واقعی اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ایسے ایماندار افسروں کی
حوصلہ افزائی کریں اور ان کے خلاف غیر آئینی اقدامات کرنے والے اہل کار وں
ان میں چاہیے سیکرٹری صحت ہی کیوں نہ ہو کے خلاف ایکشن لیں تاکہ جو تبدیلی
اور احتساب کا نعرہ لیکر وہ حکومت میں آئے ہیں اس کو عملی جامہ پہنایا جا
سکے۔
|