ملک کی بہتری کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی حمایت اور
حکومت وقت کی ستائش میں چند جملے لکھ دئیے جائیں تو اپوزیشن کی طرف سے
خوشامد یا مالی فائدے کا اعلان غیر متوقع نہیں۔ یہ بات چند صحافیوں تک
محدود نہیں، میڈیا ہاؤسز بھی ایسے الزامات کی زد میں رہے ۔ماضی قریب میں
تحریک انصاف نے کھلے عام ایک بڑے میڈیا ہاؤس پر مکمل جانبداری کا الزامات
عائد کئے۔ ایسے سیاسی حالات میں حکومت کے کسی بھی فیصلے کی تائید اور ستائش
میں کچھ لکھنا یا بولنا آسان نہیں،ا ب جبکہ تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے
مالی فائدے حاصل کرنے کے الزام ختم ہونے کے ساتھ ہی تبدیلی سرکار پر تنقید
کرنے سے صرف لعن طعن کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ حال ہی میں راقم الحروف نے
اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی غیر سیاسی اور غیر
شائستہ گفتگو پر کالم "شائستگی اورسیاست" لکھا۔ شیخ رشید کا تعلق بنیادی
طور پر تو پی ٹی آئی سے بھی نہیں اور تنقید موجودہ حکومت کی کار کردگی کے
کے حوالہ سے بھی نہیں تھی مگر پی ٹی آئی کے حمائیتیوں کا بر داشت کایہ عالم
ہے مجھے سوا نیزے پر لے لیا۔مجھے اعتراف ہے نہ میں سقراط زمانہ ہوں ،نہ
منصور وقت ،نہ مجھ میں حوصلہ ذیاد ہے نہ جذبہ قلندرانہ ، صحافت کے طالبعلم
ہونے کے ناطے حقیقت سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں ، اس لئے لکھنے سے نہیں
چونکا ۔
قارئین کرام ! الیکشن سے قبل عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بڑے دعوے کئے
معیشت میں بہتری کے پروگرام، حقائق پر مبنی ترکیبیں، عوام کو ریلیف جیسے
خواب، لو ٹی دولت واپس لانے کے اعلانات، کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کا نعر ہ
ان باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام نے پی ٹی آئی کو موقع فراہم کیا۔ پہلی
دفعہ حکومت میں آنے والی اس نئی سیاسی جماعت میں پرانے سیاستدان اکھٹے ہیں
۔ عوام کیلئے تبدیلی کے دعویدار ہی تو حکومت میں آئے۔ چھوڑیں وزیر اعظم
الیکٹڈ ہیں یا سیلیکٹڈ۔۔۔۔۔ بر سر اقتدار تو عمران خان ہیں۔ریاست مدینہ کا
قیام یا نیا پاکستان ۔۔۔۔؟کچھ بھی کہیں ایک بات تو درست ہے یہ پرانا
پاکستان نہیں۔1کروڑ 68لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے لیڈر عمران خان
22سال سے میدان سیاست میں موجود تھے ،مگر خاطر خواہ کامیابی 2013 ء کے
الیکشن کے بعد ہی ان کے حصہ میں آئی۔قلیل وقت میں حیرت انگیز مقبولیت جو
روز افزوں بڑھتی ہی گئی، سیاسی پنچھیوں کے ڈار کی ڈار پی ٹی آئی کی چھتری
پر اترنے لگیں۔25جولائی 2018کو اقتدار کی ہما بھی عمران خان کے سر آ
بیٹھی۔پی ٹی آئی بر سر اقتدار آ گئی ، 6ماہ کا وقت گزر گیا آج بھی وزراء کے
پاس اپنی اچھائیاں ہونے کی بجائے اپوزیشن کی برائیاں زیادہ ہیں، جب نیا
پاکستان ہے تو روائتی انداز سیاست کیوں، وزیر اعظم عمران خان بھی بیرون
ممالک دوروں پر بھی سابق حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سنانے لگتے ہیں ۔
قرض، امداد کچھ بھی تبدیلی سرکار کو عمران خان کے ویژن کی بنیاد پر نہیں،
سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے چاہئے ۔ ان کرپٹ حکمرانوں کو عدالتیں
سزا دیں یا با عزت بری کر دیں ۔ پی ٹی آئی نے تو شریف فیملی ، آصف علی
زرداری اور ان کے رفقاء کو کرپٹ قرار دے دیا۔ اب ان کا مقدر جیل ہے ۔عمران
خان سے دوستی کا تقاضہ ہے کہ شیخ رشید سیاسی مخالفین کا نام بھی مہذب انداز
میں نہیں لیتے ۔ ماضی میں شیخ رشید نواز شریف سے عقیدت میں پیپلز پارٹی کی
قیادت کیلئے بھی ایسا ہی انداز تکلم اختیار کئے رہے اب عمران خان کی خاطر
شریف فیملی کو کیسے نظر انداز کر دیں ۔۔؟سیاسی نصاب تو تبدیل نہیں ہوا،
انہی خدمات کی بدولت تو شیخ صاحب کی اپنی انفرادی پہچان ہے۔ عمران خان تو
انہیں چپٹراسی رکھنے پر بھی تیار نہ تھے ۔ شیخ صاحب کے اسی دانشورانہ انداز
بیان سے متاثر ہو کر عمران خان نے انہیں وزارت کا منصب عطا کیا اور آج شیخ
رشید صاحب سیاسی اور ابلاغی ارسطو بن کر پی ٹی آئی کے ووٹروں کو نئے الفاظ
سے روشناس کرواتے ہیں ایسے موضوعات کو چھیڑتے ہیں جن سے عام آدمی نا آشنا
ہو۔شیخ رشید صاحب نے سیاست کا جو اعلیٰ معیار قائم رکھا ہے وہ اسی لب و
لہجہ اور اسلوب سے حاصل کیا۔ اگر وہ اسے اختیار نہ کرتے تو شائد گمنام
ہوتے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شیخ رشید کی اپنی جماعت کی کوئی اہمیت
و حیثیت نہیں۔ عوامی مسلم لیگ میں شیخ رشید تو ہیں مگر عوام نہیں۔ عمران
خان کے اقتدار کی ٹرین میں سوار ہو کر حکومت کا حصہ بننے والے شیخ رشید ہمہ
وقت اپوزیشن کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں۔موصوف پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے رکن بننے
کے بھی متلاشی ہیں ان کی منطق ہے کہ وہ ایک پارٹی کے طور پر پی اے سی میں
نمائندگی چاہتے ہیں، میڈیا میں کچھ یوں اظہار خیال فرماتے ہیں عمران خان نے
انہیں پی اے سی کا رکن بنایا ، میں رکن بن چکا ہوں ، سپیکر قومی اسمبلی کی
حیثیت پوسٹ آفس کی سی ہے مجھے کوئی اجلاس میں جانے سے روک نہیں سکتا ۔جبکہ
تاحال وہ پی اے سی کے رکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی ان کو ممبر بنانے
کی مخالفت سامنے آئی ، سپیکر قومی اسمبلی نے بھی شیخ صاحب کی خواہش اور
باتوں کو اہمیت نہیں دی۔ اب سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پی
اے سی کے معاملے میں دو ٹوک فیصلہ کیوں نہیں کرتے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز
شریف کو چئیر مین مقرر کرنے کے خلاف پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا پھر
سیاسی مصلحت یا مصالحت کے تحت یہ فیصلہ ہوا شہباز شریف چئیر مین بنے تو شیخ
رشید فواد چوہدری اور دیگر چند وزراء روز پھلجھڑیا ں چھوڑنے لگے ، شہباز
شریف کو چئیرمین پی اے سی سے ہٹانے خواہش نے محازآرائی کی صورت اختیار کر
لی۔ارے بس کیجئے اب بہت ہوا یہ کھیل تماشہ ۔۔ وزیر اعظم عمران خان ایک مدبر
اوردور اندیش سیاستدان کا کردار نبھائیں ، اقتدار کا کھیل ، ماورائے اصول
نہ کھیلا جائے ، اور اس کو اصولوں سے منضبط کیا جائے ۔ پارلیمان کی بالا
دستی کو راسخ کیا جائے ۔
سیاسی استحکام کیلئے وسیع تر مفاہمت کی ضرورت ہے ، برداشت پر مبنی سیاست کی
جائے نہ کہ تناؤ اور ٹکراؤ کی ۔ معاملات ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ
ڈالے بغیر حل کر لئے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی
تینوں پارٹیوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، سب سے زیادہ ذمہ داری پی
ٹی آئی کے کندھوں پر ہے ، سیاسی ماحول کو خوشگوار رکھنا ، پارلیمنٹ کو
چلانا حکومت وقت کا ہی کام ہے ۔ملک معاشی مسائل کا شکار ہے اب کسی سیاسی
بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔یہ پی ٹی آئی کی قیادت کی اہلیت کی آزمائش کا
وقت ہے ۔ اگلے چند دنوں میں اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا ،عمران خان ، شیخ
رشید کی لائن پر چلنا چاہتے ہیں یا انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔ شیخ رشید کا
انداز تکلم کسی طور پر بھی عوامی خواہشات کے مطابق اور قابل برداشت نہیں۔
اب اگر پی ٹی آئی کی قیادت نے خود اپنے لئے بربادی کا راستہ چن لیا ہے اور
انہیں خوار ہونے کا اتنا ہی شوق ہے تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں روکنے والے۔۔؟
ہاں ، حالات کی صحیح تصویر اور حقائق عوام الناس کے سامنے لانا میرا فرض ہے
۔
وزیر اعظم عمران خان سے استدعا ہے کہ وہ قوم سے کئے گئے وعدوں کو پایا
تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ اپنی توانائیاں مخالفین کی تذلیل کرنے میں
صرف نہ کریں اگر پی ٹی آئی کی حکومت ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو
اپوزیشن کو اس سے بڑا جواب کوئی نہیں، تنقید برائے تنقید سے سیاسی ماحول تو
خراب ہو سکتا ہے عوام کو فائدہ نہیں ۔پی ٹی آئی کار کنوں کو بھی صبر کا
مظاہرہ کرنا چاہئے ، مخالفین پر تنقید بہت ہو گئی اب برداشت کرنا بھی
سیکھیں ، عوام نے اعتماد کیا ہے تو سوالات کا سامنا تو کرنا پڑے گا ، شیخ
رشید کی حمایت پی ٹی آئی کے کارکنوں کو زیب نہیں دیتی ۔ پاکستان پیپلز
پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اشرف خان سوہنا ریلوے اسٹیشن
اوکاڑہ پر شیخ رشید کے پہلو میں کھڑے ہو کر بلاول بھٹو زرداری کے بارے غیر
اخلاقی اور غیر سیاسی گفتگو پر خوش دکھائی دیں تو یہ سیاسی نظا م کیلئے
اچھا نہیں۔وزیر اعظم عمران خان سیاسی حالات کو سمجھیں،شیخ رشید سے بھلے
دوستی رکھیں مگر سیاست کو سیاست رہنے دیں، فریق نہ بنیں قائد بنیں۔
|