استاد تمہارے پاس فلاں کتاب ہے؟
طالبعلم : جی، گھر میں پڑی ہوئی ہے۔
استاد :کتاب کو پڑی ہوئی نہیں کہتے۔
طالبعلم: کیا فرق پڑتاہے ؟
استاد: بہت فرق پڑتاہے۔ الفاظ کا انتخاب ذہنی اورسماجی ترجیحات کامظہر ہے۔
قیمتی چیز کو تو کوئی نہیں کہتا گھر میں پڑی ہے۔نہ ہی وہ ادھرادھر گری پڑی
ہوگی۔ کیا علم اتنا ہی بے توقیر ہے کہ وہ گرا پڑا کہلائے؟
اسلئے کتاب گھر میں پڑی ہوئی نہیں بلکہ رکھی ہوئی ہے!اور اسے رکھا ہوا ہی
ہونا چاہئے۔آج علم اور متعلقہ اشیاء کی ناقدری ہماری ذلت کا باعث ہے ۔ عزت
و توقیر کرنے سے عزت ملے گی ۔
طالبعلم :سر!کیا کوئی معاشرہ علم کی بے توقیری بھی کرسکتاہے؟
استاد: اس سوال کا جواب میں حضرت ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری
علیہ الرحمہ کے مضمون" احترام علم وحکمت " کے ایک اقتباس سے دوں گا۔ آپؒ
اپنے مضمون "احترام علم وحکمت"میں فرماتے ہیں :
"احترام علم وحکمت کے موضوع کے سلسلے میں ابتدائی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ
کیاعلم وحکمت کا عدم احترام ممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں،ممکن
ہے۔اوریہ کیفیت تاریخ انسانی میں قدیم زمانے سے موجود رہی ہے۔ اس المیے کی
داستان یہ ہے کہ ایک جانب انسانوں کے تمام گروہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی"نظام
معتقدات" کے پابند رہے ہیں اوردوسری جانب انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہمیشہ
موجود رہا ہے کہ علمی تحقیق وتفحص کے راستے سے حقائق کا صحیح ترادراک
کیاجائے۔اس طرح ایمان (Faith) اور عقل (Reason) کے تصادم کامسئلہ پیدا
ہوا۔اس مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ "اہل ایمان" نے مجرداً علم کی نفی نہیں کی،
مگر ان کے نزدیک علم کی جائز حدود صرف ان کے "نظام معتقدات" کے علم کے حصول
تک تھی۔یہ معتقدات کے لئے"حقائق معلومہ" تھے۔"اہل ایمان" کا تصادم
دراصل"حقائق غیرمعلومہ" کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔ اسی تصادم کے نتیجے
میں سقراط کو زہرکاپیالہ پیناپڑا۔اسی تصادم کے نتیجے میں مسیحی کلیسا نے
علم اوراہل علم پر بے پناہ مظالم ڈھائے لیکن جب اسلام کا انقلابی پیغام آیا
تو اس نے صورتِ حال کو یکسربدل دیا۔" (صقالۃ القلوب،احترام علم وحکمت،ص60)
بیٹا: جیسا کہ حضرت صاحب نے فرمایا بالکل بعینہ یہ اسلام ہی تھا جس نے علم
وحکمت اوراس سے وابستہ اشیاء کو احترام و قدرومنزلت سے دیکھا۔ قرآن مجید نے
کہیں فرمایا:
الذی علم بالقلم،کہیں والْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ ،اورکہیں فرمایا فی
صحف مکرمة،الغرض قلم،کاغذ، سیاہی،دوات، سب ہی کو مکرم بناکر پیش کیاہے۔ ایک
حدیث مبارکہ میں تو عالم کے قلم کی سیاہی کو شہداء کے خون سے زیادہ ترجیح
دی گئی ہے :
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله
عليه وآله وسلم: يُوْزَنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ وَدَمُ
الشُّهَدَاءِ فَيَرْجَحُ مِدَادُ الْعُلَمَاءِ عَلَی دَمِ
الشُّهَدَاءِ.رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.(أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5/
486)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو
تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے
گی۔
الغرض اسلامی تاریخ علم اور اس کی متعلقہ اشیاء کی عزت وتکریم کے واقعات سے
بھری ہوئی ہے۔مسلم معاشرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کا مصداق تھا جس
کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے مجھے ایک بات سکھائی اس نے مجھے اپنا غلام
بنالیا۔کتنے بادشاہ ایسے گزرے ہیں جوبادشاہت کے باوجود اپنے اساتذہ کے
سامنے بچھے جاتے تھے۔
ماضی بعیدنہیں بلکہ ماضی قریب میں ایک وقت تھا معاشرے میں طلباء کی بہت عزت
تھی۔ یہ طالب علم ہے یہ مقامِ شرف و عزت تھا۔جب طالب علم ہونا عزت کا
معیارتھا تواساتذہ کے کیاکہنے۔اسکول کے ہیڈ ماسٹرکی پوراگاؤں ایک سردار کی
مانند عزت کرتاتھا۔اب تو یہ ماضی کی فرضی داستانیں لگتی ہیں لیکن حقیقتاً
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے معاشرے میں اقدار کا خاتمہ نہ ہواتھا۔یہ وہ
وقت تھا کہ بچوں کے بیگ اول توتھے ہی نہیں، تھے توبہت ہلکے لیکن بچوں کی
جسمانی، ذہنی،معاشرتی، روحانی نشوونما بہت بہترین اور نہایت اعلیٰ
وشاندارتھی اسی بناء پر وہ بلندکردار کے حامل تھے۔
بہرحال کتابوں اور کاپیوں کی تعدادموضوع بحث نہیں وہ کتنی بھی تھیں بچہ
اپنی کتابیں سینے سے لگائے کشاں کشاں مکتب جاتاتھا۔ جس سے اس کا کتابوں سے
قلبی تعلق پیدا ہوجاتا تھا۔وہ حقیقی معانی میں علم کی لذت سے آشنا تھے اور
اسی کی لذت کشاں کشاں انہیں اپنی جانب کھینچتی تھی:بقول علامہ اقبال
چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
ایسا نہیں تھا آج بیگ اتنے بڑے،مضبوط،مہنگے اور خوبصورت ہیں لیکن آج کے بچے
انہیں گدھوں کی مانند اپنی کمرپر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھوتے ہیں یا
پھر چھوٹے پہیوں کی مدد سے بیگ کھینچتے کم گھسیٹتے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔جب
وہ بیگ اتاررہے ہوں یا پہیہ گاڑی ہاتھ سے چھوڑرہے ہوں تو ایسا لگتا ہے قلی
اپنے سرسے کسی ناپسندیدہ ترین چیز کواٹھاکرپھینک رہاہو۔ یا پھر طلباء الطاف
حسین حالی کے اس مصرعہ کے مصداق "وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی " اپنے
بیگ وغیرہ سے جان چھڑاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ بھاری بیگ اٹھانے سے ان کی ریڑھ کی ہڈی تک متاثر ہورہی
ہے،ان کی کمریں دوہری ہورہی ہیں ایسی صورت حال میں یہ بچے بیگ کی عزت کر
بھی کیسے سکتے ہیں اور جب تک یہ کتابوں اورکاپیوں کی عزت نہیں کریں گے
تومعاشرے میں علم کی عزت کیسے پیداہوسکتی ہے۔اپنے پیشے سے متعلق اشیاء کو
عزت نہ دینے والا معاملہ یہ صرف پڑھے لکھے طبقے اور طلباء میں ہے ورنہ آج
بھی اگر دیگرپیشوں کے لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ کیاجائے عموماً لوگ جس پیشے
سے وابستہ ہوں اس کے اوزار وں اورکام کی جگہ کی تکریم کرتےہیں۔ ان کاتصور
یہ ہوتا ہے کہ اس جگہ سے اوران اوزاروں سے وہ روزی کماتے ہیں یہ ان کی روزی
روٹی کا باعث ہیں، اسی سے انہیں رزق حاصل ہوتاہے لہذا ان کی عزت کرنا ہم پر
فرض ہے ۔
افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ علم اوراس کی متعلقہ اشیاء کی عزت نہ اس کے حاملین
کرتے ہیں اورنہ دیگر پیشہ کے افراد(چلیں دیگرپیشے سے وابستہ افراد تومرفوع
القلم ٹھہرے وہ اگر کاغذوں میں چنے ،شکرقند ،رول یا روٹیاں ڈال کربیچ رہے
ہیں ۔۔۔)لیکن اس پیشہ کے حاملین کو کیا ہوگیا وہ بھی اس کی عزت نہیں کرتے
ہیں۔ الا چند۔اورعربی محاورہ ہے للاکثر حکم الکل۔ اکثریت پر کل کا اطلاق
ہوتاہے۔ جب تک معاشرے میں قلم،کاغذ،دوات، اورکتاب کی عزت تھی ہم میں ایک سے
بڑا قلم کار،افسانہ نگار،شاعر،ادیب،مصنف، مفکروغیرہ پیدا ہوتے تھے اب معیار
گرتے گرتے یہاں تک آگیا ہے کہ بقول ساغرخیامی:
گندگی ذہن کی کتابوں میں خوب کیچڑاچھالتے ہیں قلم
پہلے لکھنے کے کام آتے تھے اب کمربند ڈالتے ہیں قلم
نیز یورپین ممالک بھی علم دوستی اور استاد کی عزت کرنے میں ہم سے کہیں آگے
ہیں ۔یوں تو ہمارامعاشرہ مغربی تہذیب اور یورپ کے بارے میں ہمیشہ منفی
انداز سے ہی سوچتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو ان کی ترقی کا ایک راز علم
دوستی اوراساتذہ کی عزت ہی کی وجہ سے ہے۔ جیسا کہ جناب اشفاق احمدمرحوم کے
اس واقعہ سے مترشح ہوتاہے۔
عدالت میں ا یک استاد تشریف لائے ہیں:
"جب میں اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ
کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ
جرمانے کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں
اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔ اس سے پہلے کہ
میں اپنا جملہ مکمل کرتا، جج اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور بآواز بلند کہنے
لگا ”عدالت میں ا یک استاد تشریف لائے ہیں!“ یہ سنتے ہی عدالت میں موجود سب
لوگ کھڑے ہو گئے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے"
مسلمانوں کے لئے قرآن واحادیث مبارکہ کے فرامین کافی ہیں لیکن جن افراد کے
سامنے رول ماڈل یورپ ہے تو ان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے صرف یہ ایک واقعہ
کافی ہے۔
خلاصہ کلام:اقوام عالم میں ایک باعزت مقام حاصل کرنے کے لئے علم کوفروغ
دینا ہوگا۔لہذا اگرہم معاشرے میں دوبارہ فروغ علم سے بہرہ مند ہونا چاہتے
ہیں تو اس کےلئے اساتذہ کو عزت دو، کتاب کو عزت دو،قلم کو عزت دو، کاغذکو
عزت دو۔اسکول ومدرسہ کوعزت دو۔ لائبریری کو عزت دو۔انشاء اللہ ایسا کرنے کی
صورت میں وہ وقت دور نہیں جب ان کی عزت کرتے کرتے تم خود باعزت ہوجاؤ گے۔
اللہ رب العزت ہمیں علم اورمتعلقہ اشیاء کی عزت کی توفیق عطافرمائے۔آمین ثم
آمین |