حامد کچھ آزاد اور ہلکا محسوس کر رہا ہے
سانولی اپنے گھر گئ ہوئ ہے ۔ کچھ وقت تو اس نے آزادی کا لطف اٹھایا مگر جلد
ہی طبیعت اداس سی ہو گئ اور پھر سے سانولی کی قید یاد آنے لگی ۔ اس کا دل
کہہ رہا تھا مجھے پھر سے محبت کی ہتھکڑیاں پہنا دو۔
محبت میں کامیابی انسان کو کسی انسان کا قیدی بھی بنا دے اور ناکامی خدا کا
بھیدی بھی بنا دے۔
آج جب سانولی واپس آئ تو وہ نئ نئ لگ رہی ہے ۔ شائد محبت میں کچھ دیر کا
فراق بھی اسے تازہ کرتے رہنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور جدت پیدا کر کے
اکتاہٹ سے بچاتا ہے اور اس میں آی ہوئ تلخی کو بھی دور کرتا ہے۔
اسی طرح بات وہ ہی الفاظ بھی وہی مگر کہنے کا انداز اس کا اچھا اور برا
نتیجہ لاتا ہے خواہ سیاسی مسئلہ ہو یا ازدواجی یا ملازم کا چھٹی مانگنا ۔
بات کرنے کے طریقہ سے بات بگڑ بھی سکتی ہے اور بات کرنے کے سلیقہ سے بات بن
بھی سکتی ہے۔
سانولی جب بھی گھر واپس آتی مسکرا کر سلام کرتی
آج وہ سلام نہیں کر پائ۔
حامد نے کہا آج سلام نہیں کیا۔
سانولی شرماتے ہوے مسکرا دی اور کہا ،
آپ نے موقع ہی نہیں دیا جزبات میں۔۔۔
چلیں !
اب کر لیتی ہوں آپ کو۔۔۔
۔۔سلام
دونوں مسکرا دیے ۔
بس اتنی سی بات ہوتی ہے ،
محبوب کے منانے اور لڑائیاں ختم کرنے میں۔
خدا کو منانا اس سے بھی زیادہ آسان ہے
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
|