’’سر ہم بی بی سی اردو سے آئے ہیں اور آپ کے ادارے کی
ڈاکیومنٹری بنانا چاہتے ہیں اور ڈائریکٹر صاحب کا انٹرویو بھی لائیو کاسٹ
کریں گے۔ بی بی سی اردو پر۔ہم آپ کو ڈاکیومنٹری واٹس ایپ بھی کر دیں گے ‘‘۔دفتر
میں داخل ہونے والے ایک نواردشخص نے کہا ۔
(اس کے ساتھ ایک کیمر ہ مین اور ایک مارکیٹنگ کا آدمی بھی تھا۔کیمر ہ مین
نے دفتر میں آتے ہی اپنا سٹینڈ لگانا شروع کر دیا۔اوراس شخص نے اپنی کرسی
میری کرسی کے ساتھ سیٹ کر تے ہوئے انٹرویوکی تیاری شروع کردی)
’’آپ کب سے یہ ادارہ چلارہے ہیں اور آپ کی کیا کیا ایچیؤمنٹس ہیں؟۔آپ کے
ادارے کی کہا ں کہاں پر برانچز ہیں؟۔آپ نے یہ سب کچھ بتا نا ہے اور پھر ہم
آپ کے سٹاف ممبر ز کا بھی انٹرویو کریں گے اور وہ بھی بی بی سی اردو کے
چینل پر لائیو چلے گا۔میں آپ کو جاتے ہوئے اپنا پرسنل کارڈ بھی دے کر جاؤں
گا‘‘ ۔
’’یہ ادارہ ہم گزشتہ تین سال سے چلارہے ہیں اور ہر سال ہمارے بچے مقابلہ کے
امتحان میں امتیازی نمبر صاصل کرتے ہیں‘‘۔میں نے اس شخص کی باتوں پر اعتبار
کرتے ہوئے اپنے ادارے کا تعارف کروایا۔
’’بہت عمدہ سر! آپ تو واقعی اس بات کے اہل ہیں کہ آپ کا انٹرویوہمارے چینل
پر چلے۔ ویسے تو میں برطانیہ ہی ہوتا ہوں ۔ یہ آپ کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے
کہ میں آجکل پاکستا ن آیا ہو ا ہوں اور آپ کا ادارہ ان چند اداروں میں سے
ایک ہے جن کو میں نے ڈاکومینڑی بنا نے کے لیئے چُنا ہے‘‘۔
(اسی دوران اس نے کیمر ہ مین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یونہی سمجھیں کہ
یہ میرا ادارہ ہے اور آپ نے بہت ہی عمدہ طریقے سے میرا انٹرویو ریکارڈ کرنا
ہے اور اسی طرح سے اس کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرنا ہے)
پھر اس نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا۔’’سر میں تو ہر
وقت اس قسم کے اداروں کی تلاش میں رہتا ہوں کہ آپ جو عوام کی خدمت کر رہے
ہیں اس کا آپ کو صلہ بھی تو ملنا چاہیے۔ مجھے آپ جیسے لوگوں کو منظرِعام پر
لاکر بہت خوشی ہوتی ہے‘‘۔
’’یہ تو آپ کی عنایت ہے جناب! ہم تو بس اپنا فرض نبھا رہے ہیں‘‘۔میں نے اس
کی باتوں سے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔
’’کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم آپ کے ادارے کا وزٹ بھی کر لیں اور ساتھ ساتھ
باتیں بھی کرتے رہیں۔جب آپ کا انٹرویو چلے گا تو ساتھ ساتھ آپ کے ادارے کی
ڈاکو منٹری بھی چلے گی۔ اس طرح سے آپ کے کام کا سب کو پتہ چل جائے گا‘‘۔
(میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ مفت میں اتنے بڑ ے چینل میں میرا
انٹرویو چلے گا اور میرے ادارے کی ڈاکومنٹری بھی چلے گی۔ مجھے اور بھلا کیا
چاہیے تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بندے کو کھانا بھی کھلا دونگا اور لفافے
میں کوئی دوچار ہزار روپے بھی دے دونگا تاکہ انٹرویواور ڈاکومنٹری عمدہ
طریقے سے چلادے۔ آخر مارکیٹنگ پر بھی تو لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں ہم۔ چند
پیسے اس کو دے دیئے تو یہ تو میری پوری دنیا میں مارکیٹنگ ہو جائے گی۔یہ
سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ اچانک اس کی آواز نے مجھے چونکا
دیا)۔
’’سر ہم نے آپ کے کیمپس کی پوری ویڈیو بنا لی ہے۔ بچے کلاسز میں بیٹھے ہوئے
ہیں اور آپ کی لائبریری اور کینٹین بھی کور کی ہے۔آپ کے لان کی کی بھی مووی
بن گئی ہے۔ اب آپ کا انٹرویو کرنا ہے۔بس آپ ریڈی ہوجائیں‘‘۔
(اندھا کیا چاہے ۔۔۔ کے مصداق میں تو پہلے ہی اپنی ویسکوٹ پہن کر اور اپنے
ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو ترتیب دے کر انٹرویو کے لیئے تیا ر ہوگیا تھا
۔میں نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بولنے کی تیا ری کی )
’’پہلے تو آپ اپنے ادارے کا نا م لکھ کر ہمیں دے دیں تاکہ میں اس کو بول
سکوں اور اس کا ایڈریس بھی اور آپ کا نا م بھی ۔‘‘
(میں نے اچھے بچوں کی طرح سب کچھ لکھ کر اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے وہ
تحریر اپنے کیمر ہ مین کو پکڑائی اور اپنے ساتھ بیٹھے مارکیٹر سے کہا کہ وہ
تما م بات چیت کے نوٹس بنا تا جائے تاکہ اگر کوئی چیز رہ جائے تو اس کو
شامل کیا جاسکے اور مجھے تیا ر رہنے کا اشارہ کر دیا)
’’جی تو جناب سب سے پہلے ہم آپ کے ادارے کا اور آپ کا تعارف کروائیں گے ۔
پھر آپ کا انٹرویو شروع ہوگا ۔ تو کیا آپ تیا ر ہیں‘‘۔
(یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہورہا تھا کہ میں سوچنے سمجھنے کی تما م صلاحتیں
کھو چکا تھااور اپنا آپ ان کے حوالے کر چکا تھا)
’’جی میں تیار ہوں آپ شروع کریں‘‘۔
(انٹرویو شروع ہو ا اور اس نے مجھ سے وہی چند سولات کیئے جن کا تذکر ہ بار
بار ہو رہا تھا۔ اس کا ساتھی تما م باتوں کے نوٹس لے رہا تھا اور کیمر ہ
مین بڑی مستعدی سے اپنا کا م سرانجام دے رہا تھا)۔
’’کیا ہم کچھ بچوں کے انٹرویو بھی شامل کر سکتے ہیں جو کامیاب ہوئے ہیں
‘‘۔میں نے اختتامی سوالات کے بعد کہا ۔
’’جی ہم بالکل کریں گے ۔لیکن اپنے اگلے وزٹ پر ۔ ابھی تو آپ کا انٹرویو چلے
گا اور پوری دنیا دیکھے گی۔ بی بی سی اردو پر‘‘۔
(میر ے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے کہ کہا ں میں اور کہاں بی بی سی ۔ میں تو
اپنے فیس بک اور واٹس ایپ پر سب سے پہلے شیئر کرونگا۔ میری محنت کو تو
چارچار چاند لگ گئے تھے۔ اتنی دور سے بند ہ میر ا انٹرویو کرنے کے لیئے آیا
ہے۔میں اپنے آ پ کو وزیر اعظم سے بھی بڑا تصور کر رہا تھا کہ اس کی بات نے
سکوت توڑا)
’’تو سر ہمار ا کام مکمل ہو ا ۔اب ہمیں اجازت دیں‘‘۔
( یہ کہ کر اس نے اپنی ڈائری نکالی اور اس کے ایک صفحے پر لکھے ہوئے کچھ نا
م اور ان کے سامنے چار ہندسوں والی رقم مجھے دیکھانے لگا)
’’دیکھیں سر! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آج ہمیں ڈونیشن دی ہیں ۔آپ بھی ماء
شاﷲ بہت بڑا ادارہ چلا رہے ہیں ۔آپ اپنی طرف سے بھی تھوڑی سی رقم لکھ
دیجیئے تا کہ اور کچھ نہیں تو ہمارے آنے جانے کے اخراجا ت ہی پورے
ہوجائیں‘‘۔
( اس ڈائری پر سکولوں کے نام اور پرنسپلز کے نام کے ساتھ دس ہزار سے پچاس
ہزار تک کی رقم لکھی ہوئی تھی۔ اب بندہ ان کے ساتھ اپنا نام لکھے تو تھوڑی
رقم لکھتے ہوئے بھی بُر الگتا ہے۔میرے حالات بہت کمزور تھے اور میرے پاس
ایک ہزار بھی کسی کو دینے کی گنجائش نہیں تھی لیکن یہ تو ورلڈ لیول پر
مارکیٹنگ ہونے جارہی تھی اس لئے میں نے بڑی شرمندگی کے ساتھ اس کاپی پر
اپنا نام لکھا اور ساتھ دس ہزار کی رقم لکھ دی)
’’اﷲ آپ کو اس کی جزا ء دے گا۔ ہم یہ تما م پیسہ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ
کرتے ہیں ۔ آپ کو ہمارے اس مقصد کا علم تو ہو گا ہی ۔اب مجھے آپ اجازت دیں
اور اپنے اکاونٹنٹ کو ہدایت کر دیں کہ وہ ہمیں یہ رقم دے دے‘‘۔
(بڑی مشکل سے اکھٹی کی ہوئی فیسوں میں سے میں نے دس ہزار دینے کو کہ تو دیا
مگر مجھے پریشانی ہو نے لگی کی آنے والا کرایہ کہا ں سے دیانا ہے۔ پھر دل
کو سمجھا یا کہ نئے طلبا ء کی فیس میں سے کرایہ دے دیں گے جو اس انٹرویو کو
دیکھ کر داخلہ کے لئے آئیں گے۔میرے خیالات میں تو داخلہ لینے والے طلبا کی
ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی ۔آخر وہ ادارہ جس کی ڈاکومنڑی بی بی سی پر چلنی
ہے تو اس ادارے میں تو ہر کوئی داخلہ لینا چاہے گا)
’’آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا ‘‘۔
’’کوئی بات نہیں جناب یہ تو آپ کے شاندار نتا ئج ہیں جو آپ کو اس سٹیج پر
لے آئے ہیں ۔ اب ہمیں اجازت دیں ہم اپنا کارڈ آپ کے اکاؤنٹنٹ کو دیتے جائیں
گے ‘‘۔یہ کہتے ہوئے وہ میر ے دفتر سے نکل گئے اور میں اپنے خیالوں میں کہیں
کا کہیں پہنچ گیا۔بس اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے مشہور ہونے سے نہیں روک
سکتی ۔ یہ سوچتے سوچتے دوگھنٹے بیت گئے۔ اچانک اکاونٹنٹ کی آواز نے مجھے
چونکا دیا۔
’’سر جو رقم ہم نے ان لوگوں کو دی ہے اس کو کس کھاتے میں لکھنا ہے اور سر
یہ ان کا کارڈ ہے آپ کے لیئے‘‘۔
’’مارکیٹنگ میں ڈال دو‘‘۔ میں نے بے خیالی میں کہااور اپنے ٹیبل پر پڑے
ہوئے کارڈ پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے اس کا فون نمبر دیکھنے کے لیئے کارڈ کو غور سے دیکھا
تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ اس پہ لکھا تھا ’’بندگی براڈ
کاسٹنگ کمپنی (بی بی سی اردو) ہیڈ آفس لاہور ‘‘۔
(اب کو مزید کچھ بتا نے کی ضرورت نہیں کہ میں لُٹ چکا تھا)
|