صدرٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے نصف امریکی فوج کے
انخلاء کی خبروں کے بعدافغان سیکورٹی اہلکاروں نے طالبان سے روابط بڑھانے
شروع کردیئے ہیں ۔ گزشتہ چندروزمیں کنڑ ، نورستان، ننگرہار،
فاریاب،ہلمند،جوزجان، پروان،بلخ،لوگر،غزنی اورمیدان وردوک میں موجودتین
سوسے زائدسیکورٹی اہلکاروں نے ہتھیارڈال دیئے ہیں اور طالبان کے خلاف نہ
لڑنے کااعلان کیاہے جبکہ افغان طالبان نے سرنڈرکرنے والے تمام اہلکاروں سے
کوئی تعرض نہ رکھنے کاعہدکیاہے۔افغان طالبان کے دعوت وارشاد کمیشن کے مطابق
ان تین سوسے زائداہلکاروں کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں کارگزارمزیدسرکاری
اہلکاروں نے طالبان کے ساتھ رابطے کرکے ہتھیارڈالنے کی خواہش کااظہار کیاہے۔
دعوت وارشاد کمیشن کے مولوی عارف نے سیکورٹی اہلکاروں کوکہاہے کہ وہ فی
الحال لڑائی نہ کریں ،اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں اورمذاکرات کے حتمی نتائج کا
انتظار کریں ۔ اگر افغان طالبان اورحکومت کے درمیان کوئی ایساسمجھوتہ طے
پاجاتاہے جس سے افغان قوم کے اندرقیام امن ممکن ہے اورسیکورٹی اہلکاروں کی
قیادت طالبان کے ہاتھ میں آتی ہے تویہ اہلکارافغانستان کے دفاع اوروطن کی
تعمیرنومیں حصہ لیں گے لیکن اگرامریکااپنی نصف فوج افغانستان سے نکال
لیتاہے اورباقی فوج افغانستان میں رکھتاہے اور مذاکرات بھی ناکام ہوجاتے
ہیں توپھرافغان سیکوتٰ اہلکاروں کوافغان حکومت کاساتھ چھوڑکرافغان طالبان
کاساتھ دیناچاہئے تاکہ ملک پرطالبان ایک اصلاحی ،فلاحی اوراسلامی حکومت
قائم کریں اورسیکورٹی اہلکارافغان طالبان کے ہاتھ مضبوط کریں۔
مولوی عارف کے مطابق بڑے پیمانے پرسیکورٹی اہلکارہتھیارڈالنے کیلئے افغان
طالبان سے رابطہ کررہے ہیں لیکن اتنی تعدادمیں ہتھیارڈالنابھی مشکلات
پیداکرسکتاہے کیونکہ ان سیکورٹی اہلکاروں کی جگہ بعض جنگجواپنے لوگوں
کولاناچاہتے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دوسری جانب کابل حکومت نے
دوسابق انٹیلی جنس چیفس کو وزارتِ دفاع اوروزارتِ داخلہ کے قلمدان کیلئے
نامزدکردیاہے جس سے یہ پیغام مل رہاہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ
امریکی مذاکرات کوسبوتاژکرناچاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں انٹیلی جنس چیف
ماضی میں طالبان کے ساتھ نہ صرف ذاتی بغض رکھتے ہیں بلکہ طالبان کے ساتھ
ہرقسم کے مذاکرات کے انتہائی مخالف ہیں اورماضی میں پاکستان میں دہشتگردوں
کی ہرقسم کی مددمیں ملوث رہے ہیں۔واضح رہے کہ افغان صدراشرف غنی کی جانب سے
جاری کردہ فرمان کے مطابق سابق این ڈی ایس چیف اسداللہ خالد کووزیردفاع
بنادیاگیاہے اوران کانام افغان پارلیمان کوبھیج دیاگیاہے جبکہ سابق این ڈی
ایس چیف اورشمالی اتحادکے اہم رہنماء امراللہ صالح کووزیرداخلہ کے طور
پرنامزدکر دیاگیاہے اوران تمام افرادکے نام وعہدوں کی توثیق کیلئے پارلیمان
کوارسال کردیئے گئے ہیں۔افغان پارلیمان کا اجلاس جاری ہے اور آخری اجلاس
جنوری کے آخرتک جاری رہے گااوراس کے بعدنئے پارلیمانی اراکین حلف اٹھائیں
گے تاہم افغان صدراشرف غنی نے طالبان مخالف سابق افسران کوحساس اوراہم
وزارتیں دینے کاعندیہ دیکریہ پیغام دیاہے کہ اگرموجودہ افغان حکومت
کونظراندازکیاگیاتونہ صرف ملک میں خانہ جنگی ہوگی بلکہ افغان طالبان کے
ساتھ مذاکرات بھی ناکام ہوسکتے ہیں۔
افغان پارلیمان کے ایک اہم رکن احمدزئی جن کاتعلق ہلمندسے ہے ،نے اس امرکی
تصدیق کی ہے کہ وزیردفاع ،وزیر داخلہ کے نئے دونام پارلیمان کوتوثیق کیلئے
موصول ہوگئے ہیں تاہم اس کے باوجوداگرپارلیمان ان ناموں کی توثیق نہیں کرتی
تودونوں وزراء صدارتی فرمان و آرڈیننس کے مطابق اپناکام جاری رکھ سکتے
ہیں۔اہم ذرائع کے مطابق دونوں وزراء پچھلے دوہفتوں سے کابل میں اپنے اپنے
دفاترپہنچ چکے ہیں جہاں انہوں نے اپنے اپنے وفادار ساتھیوں سے اہم صلاح
ومشورے کرناشروع لردیئے ہیں۔ان دونوں سابق انٹیلی جنس چیفس کی نامزدگی سے
افغانستان اورپاکستان کے مابین تعلقات خراب ہونے کے قوی امکانات ہیں وہاں
طالبان اورامریکاکے درمیان مذاکرات سبوتاژہونے کے خدشات نے بھی جنم لے
لیاہے۔ دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوج کے اچانک انخلاء کی خبروں نے
دیگرجماعتوں کوبھی تشویش میں مبتلا کردیاہے ۔
حزب ِ وحدت،افغان ملت اوردعوت اسلامی نے امریکاکوایک میکنزم کے تحت
افغانستاان سے نکلنے کامطالبہ کیاہے کیونکہ ان کے اچانک نکلنے سے افغانستان
میں خونریزخانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے ، اس حوالے سے پاکستان،ایران
اورافغانستان پرمشتمل ایک کمیٹی بنانے کی اپیل بھی کی گئی ہے کہ اس کے
ذریعے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کی نگرانی کی جائے اور افغانستان میں
متوقع خانہ جنگی کوبہترین حکمت عملی سے روکاجائے کیونکہ بعض اہم اورباوثوق
ذرائع کے مطابق شمالی اتحادسے تعلق رکھنے والے دوافرادکی اہم وزارتوں
پرتعیناتی سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے اورشمالی اتحادکے
جنگجوؤں کوابھی سے اسلحہ کی ترسیل بڑھادی گئی ہے اورایک اوراہم ذرائع کے
مطابق درپردہ بھارت بھی اس سلسلے میں شمالی اتحادکو جنگی اسلحے سے لیس کرنے
میں ہرقسم کی مدداوراہم کرداراداکررہاہے کیونکہ طالبان کے ساتھ امریکی
مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اس کو افغانستان سے مکمل طورپرہاتھ دھونے
پڑیں گے اوربرسوں سے اس کی ساری محنت پرپانی پھرجائے گا،اس لئے وہ سمجھتاہے
کہ امریکاکوناراض کئے بغیرخفیہ طورپراپنی ان کاروائیوں سے وہ افغانستان میں
خانہ جنگی سے پاکستان اورایران پر دباؤ بڑھ سکتاہے ۔
اس خانہ جنگی سے جہاں افغانستان میں ہزاروں افرادکی جانوں کی ہلاکت کاخدشہ
ہے وہاں پاکستان میں اندرونِ خانہ دہشتگردکاروائیوں کاایک نیا سلسلہ شروع
کیاجاسکتاہے جس پرپاکستانی فوج نے ضربِ عضب اورردّالفسادآپریشنزکے ذریعے
بڑی کامیابیاں حاصل کرکے اپنے تمام علاقوں سے دہشتگردی کی بیخ کنی کردی ہے
وہاں ایران پردباؤ بڑھنے سے وہ مزیدبھارت کواپنی مددکیلئے رابطہ کرے گاجس
سے ایران اورپاکستان میں مزیدغلط فہمیوں سے ان کے درمیان انتشارکی پالیسی
کوفروغ دیاجاسکتاہے وہاں ایران کومستقبل میں سی پیک سےدوررکھاجاسکتاہے۔
یادرہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں مزیدلاکھوں افغان ایک مرتبہ پھرایران
اورپاکستان کارخ کریںگے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی معیشت مزیددباؤ
کاشکارہوگی۔ یاد رہے کہ ماضی میں شمالی اتحاد اور افغان طالبان کے درمیان
ہونے والی لڑائیوں کے باعث ہزاروں لوگوں نے اپنی جان بچانے کیلئے بے
گھرہوکرپاکستان کارخ کیاتھااوراس وقت بھی دس لاکھ سے زائدافرادافغانستان کے
مختلف علاقوں سے اپناگھربارچھوڑکراپنی جان بچانے کیلئے خیموں میں زندگی
گزارنے پرمجبور ہیں۔
|