مصنف پروفیسر شفیع ملک
مزدور تحریک، مزدور مسائل، اور سید مودودی پروفیسر شفیع ملک کی نئی کتاب ہے۔
جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ مزدور تحریک کے حوالے سے یہ نہایت اہم تصنیف
ہے۔ جسے پروفیسر شفیع ملک نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے لکھا ہے۔ کتاب میں
مزدور تحریک کے نہایت اہم حوالہ جات ہیں۔ اس کتاب میں پہلی بار بیسویں صدی
کے عظیم اسلامی مفکر سید مودودی کے نظریات اور عملی راہنمائی اور مزدور
تحریک سے ان کی دلچسپی اور مزدور تحریک میں کام سے متعلق ان کی ہدایات کو
منظر عام پر لایا گیا ہے۔ پروفیسر شفیع ملک نے اپنی زندگی مزدور تحریک کے
لئے وقف کی اور اس تحریک کے ہر اول دستے کے کارکن کی حیثیت سے انھوں نے
ناقابل فراموش کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ سید مودودی نے جو فکر اور
رہنمائی دی اس کے نتیجہ میں پاکستان میں مزدور تحریک میں ایک عظیم الشان
انقلاب آیا۔ اور پورے ملک میں نیشنل لیبر فیڈریشن کے جھنڈے تلے جمع ہوکر
مزدوروں کی فلاح وبہبود کے ناقابل فراموش کارنامے ظہور پذیر ہوئے۔ اس کتاب
سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت اسلامی نے ایوب خان کی بدترین آمریت میں حریت کا
جھنڈا بلند کرتے ہوئے 21 فروری 1957 کو لیبر ویلفئیر کمیٹی کی تنظیم نو کا
فیصلہ کیا تھا۔ اس کمیٹی کے حوالے سے لیبر ویلفئیر کمیٹی کا لاہور میں 12
مئی کو ہونیوالا کنونشن بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں پہلی بار سید
مودودی نے محنت کشوں سے خطاب کیا تھا۔ یہ وہ پرآشوب دور تھا جب مزدور تحریک
سرخ پرچم میں لپٹی ہوئی اس ملک میں سرخ سویرا کا خواب دیکھا کرتی تھی۔
جولائی میں مولانا مودودی کی زیر صدارت دو روزہ لیبر کانفرنس منعقد ہوئی۔
مولانا مودودی کی دور بین نگاہوں نے اس بات کا اندازہ کرلیا تھا کہ اس ملک
میں آئندہ حکمرانی کرنے والے مزدور کے کندھوں کو استعمال کریں گے۔ اور اسی
لئے انھوں نے مزدوروں کو تحریک اسلامی کا اہم جز بنانے کی طرف پیش قدمی کی۔
یہ بھی جماعت اسلامی ہی تھی جس نے مزدور کے استحصال کو روکنے کے لئے اوقات
کار، کم از کم اجرت، اور چائلڈ لیبر کی مخالفت اور عورتوں کو کام کے دوران
علیحدہ جگہوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ تحریک اسلامی ہی کے یہ مطالبات ہیں،
جو آج روشن خیال اور ترقی پسند این جی اوز لئے پھرتی ہیں۔ پروفیسر شفیع ملک
نے پاکستان کے مزدوروں کے لئے عالمی ادارے آئی ایل او میں بھی حق نمائندگی
ادا کیا اور بین الاقوامی چارٹر میں مزدور مفاد میں متعدد ترامیم کرائیں۔
مولانا مودودی مزدور تحریک کے ان رہنماﺅں سے بھی رابطے میں رہتے تھے۔ جن کا
تحریک اسلامی سے تعلق نہ تھا۔ ان سے خط و کتابت بھی رہتی تھی۔ اس سلسلے کا
ایک اہم خط مولانا نے مزدور رہنما نبی احمد کو بھی تحریر کیا تھا۔ جو اس
وقت پاکستان کیبلز ایمپلائیز یونین کے جنرل سیکریٹری تھے۔ اس کتاب کا مقدمہ
سید منور حسن امیر جماعت اسلامی نے تحریر کیا ہے۔ جس سے کتاب کی اہمیت دو
چند ہوگئی ہے۔وہ لکھتے ہیں، 60 کی دہائی کے آخر میں سوشلزم اور اسلام کی
بحث بڑی شدومد سے شروع ہوگئی۔ بھٹو کی شکل میں کیمونسٹ اور شوشلسٹ عناصر کو
امید کی کرن نظر آئی اور ان کی امیدیں جوان ہوگئی۔ انہوں نے بھٹو کو اپنے
مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرلی۔ ان کا انداز جارحانہ ہوگیا
تھا۔ اس کا جواب مولانا سید ابواعلی مودودی نے بڑی جرات کے ساتھ دیا۔ اس
زمانے میں مزدوروں میں کام کی اہمیت اور ضرورت اس کشمکش کے تناظر میں بہت
بڑھ گئی تو نیشنل لیبر فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ میدان عمل میں اس
فیڈریشن نے بڑے معرکے سر انجام دیئے۔ پی آئی اے اور ریلوے جیسے اداروں میں
ریفرینڈم جیتے۔ اس کے علاوہ اور بھی بڑی یونینوں کے سی بی اے بنے۔سوشلزم
اور کیمونزم جو ایک سیلاب کی شکل میں آتا دکھائی دیتا تھا، اس کے آگے بندھ
باندھنے میں این ایل ایف نے موثر کردار ادا کیا۔یہ کہانی اس کتاب میں شفیع
ملک صاحب نے بیان کردی ہے۔اس طرح جہاں انھوں نے تاریخ کا قرض ادا کیا وہیں
کارکنان کو یہ پیغام دیا کہ جوش جذبے اور ہر قیمت پر فتح حاصل کرنے کے لئے
پر عزم لوگ جب میدان میں اترتے ہیں تو فتح و کامرانی آگے بڑھ کر ان کے قدم
چوم لیتی ہے،۔ پروفیسر شفیع ملک نے مزدور کے حوالے سے اہم لٹریچر فراہم کر
رہے ہیں۔ ان کی یہ کتاب لیبر فیلڈ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس
کتاب کو پاکستان ورکز ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی
قیمت 200 روپے ہے۔ یہ کتاب پاکستان ورکز ٹرینگ اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ سے
ST-2/3 بلاک 5 گلشن اقبال کراچی سے منگوائی جاسکتی۔ |