محبت وہ لطیف اور پاکیز ہ جذبہ ہے جس کے بغیر خود
انسان بھی مکمل نہیں ہے رب العزت جو خالق کائنات ہے اور روز جزا کا مالک
بھی- اپنے حبیب نبی کریم ﷺ سے قرآن پاک میں بارہا مرتبہ اپنی محبت کا اظہار
فرماتے ہوئے اس عظیم اور پاکیزہ جذبے کو تقویت بخشتا ہے -وہی پروردگار ایک
خالق کی حیثیت سے اپنی مخلوق سے ستر ماؤں جتنا پیار کا دعوی بھی کرتا ہے
چنانچہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ محبت کرنا اور محبت میں گرفتار
ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ سلسلہ تخلیق آدم سے تاقیامت تک جاری و ساری ہے
۔
عورت اور مرد کی محبت کا باضابطہ آغاز حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں
حوا علیہ السلام سے ہواتھا - قرآ ن پاک میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ "
یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لئے تمہاری ہی قسم کے جوڑے پیدا کیے
تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور تمہارے درمیان پیار اور مہربانی کو رکھا " اس
لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورتوں کی کشش مردوں کے لئے اور مردوں کی کشش
عورتوں کے لئے انسانی فطرت میں محفوظ کردی گئی ہے حالانکہ دنیا کی سب سے
پہلی خاتون حضر ت اماں ہوا علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہی
تخلیق ہوئیں - انہوں نے فرمایا ‘ اے پروردگار یہ کونسی مخلوق میرے جسم سے
تخلیق فرمائی ہے جس کی کشش اور محبت میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اﷲ
تعالی نے جواب دیا۔ یہی وہ محبت ہے جو میں نے آپ دونوں ( عورت اور مرد )
میں ہمیشہ کے لئے ودیعت کردی ہے اب زمین پر اتر جاؤ ‘ حکمت خداوندی کے
مطابق نسل انسانی کی افزائش کا باعث بنو اور روز جزا تک وہیں ٹھہرو - اس
لئے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مرد کو عورت کی راغب نہیں ہونا چاہیئے یا عورت
کو مرد کی جانب سے کشش محسوس نہیں کرنی چاہیئے وہ درحقیقت ان فطری انسانی
جذبوں کی نفی کرتا ہے-زندگی اگر پھول ہے تو محبت اس کی خوشبو ہے -
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ انسان کی فطرت میں خواہش ایک بہت بنیادی جذبہ ہے
اور محبت کے لئے جذبے کی شدت بہت عروج پر دکھائی دیتی ہے انسان زمانہ قدیم
سے اظہار محبت کے لئے شاعری ‘ رومانوی افسانوں کا سہارا لیتارہا ہے اسے
بھوک کے لئے پیٹ بھرنے اور جذباتی تسکین کے لئے رومانوی تعلق کی ضرورت
محسوس ہوتی ہے جو اس کی ذہنی و جسمانی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے -
محبت ہی وہ جذبہ ہے جس کی خاطر انسان موت کو بھی گلے لگا لیتا ہے کسی کے
پیار کو پانے کے لئے اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے اور کبھی کبھی اپنی محبت
حاصل کرنے کی خاطر دوسرے انسان کی جان تک بھی لینے سے گریز نہیں کرتا - آخر
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہر ذی شعور سرگرداں نظر آ
رہا ہے تقریبا تیس سال قبل ماہر نفسیات کی ایک ٹیم نے انسانی جذبہ محبت پر
تحقیق کرنے کے لئے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مطالعہ کیا - اس دوران انہوں
نے پاکستان ‘ بھارت ‘ امریکہ ‘ روس ‘ میکسیکو کے مختلف المزاج لوگوں سے
محبت اور رومانوی تعلق کے حوالے سے پندرہ بنیادی سوالات پر مشتمل ایک
سوالنامہ تیار کیا تھا جس کانتیجہ انہوں نے یہی نکالا کہ تمام تہذیبوں میں
یہ جذبہ بہت شدت اور یکسانیت سے موجود ہے لیکن کچھ سوالات کے حوالے سے اب
بھی انسان تشنہ ہے مثلا یہ جذبہ ‘ انسانی جذبات میں تلاطم کی کیفیت کیوں
پیداکرتا ہے ؟ رومانوی تعلقات سے انسان میں کس قسم کی کیمیاوی و حیاتیاتی
تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ؟ انسان ‘ محبت میں کب گرفتار ہوتا ہے ؟ محبت ‘
انسان کے ذہن و دل پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے ؟ ان سوالوں کا جواب اب
موجودہ سائنس دے رہی ہے -
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ہر انسانی جسم کی ایک مخصوص خوشبو ( مہک )
ہوتی جس کے مالیکیولز جسم سے باہر نکل کر ہوا میں غیر محسوس انداز سے محو
پرواز رہتے ہیں - انسان کی اس خوشبو کا رومانوی تعلق پر بہت گہرا اثر ہوتا
ہے- یہ تعلق اس وقت پروان چڑھتا ہے جب اس خوشبو کے ذریعے لاشعور ی طور پر
وہ ایک دوسرے کی جانب رغبت محسوس کرتے ہیں - سائنس دانوں کے مطابق یہی عمل
ہر جاندار میں بھی موجود ہوتا ہے وہ اپنے جسم سے نکلنے والی خاص مہک کے
ذریعے ہی ہم نسل کی پہچان کرتے ہیں موجودہ دور میں ہم اس کی مثال پرفیوم یا
عطر سے د ے سکتے ہیں ان میں بعض پرفیومز کی خوشبو میں ایسے کیمیاوی اجزا
استعمال کیے جاتے ہیں کہ خواتین اور مرد ایک دوسرے کی جانب جلد راغب ہوتے
ہیں - یہی وجہ ہے کہ شاید سائنس دانوں نے بعض کیمیاوی عناصر کی مخصوص اجزا
کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ وہ انسان کے حساس ترین نظام پر براہ راست اثر
انداز ہو اور جذبات میں رغبت اور حدت پیدا کرنے کا باعث بنے -
عام طور پر یہ پرفیومز ایسے وقت استعمال کئے جاتے ہیں جب کوئی رومانوی تعلق
معنی رکھتا ہو یا کوئی مرد یا عورت ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کی جستجو
رکھتے ہوں مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ پرفیومز صرف مردوں کو ہی راغب نہیں
کرتے بلکہ ان پرفیومز کی وجہ سے خواتین بھی مردوں کی جانب مائل ہوتی ہیں -
سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی آف بیرن نے اس حوالے سے ایک دلچسپ تحقیق کے بعد
یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خواتین مارکیٹ سے وہ ٹی شرٹ خریدنا زیادہ پسند کرتی
ہیں جو پہلے مردوں نے زیب تن کی ہوتی ہیں گویا مردوں کی مخصوص خوشبو اور
مہک اس میں شامل ہوچکی ہو - سائنس دانوں کے مطابق رومانوی تعلق پر ایک
دوسرے کے صوتی اثرات بھی نہایت تیزی سے نتائج کے حامل تصور کئے جاتے ہیں اس
حوالے سے ایک نہایت دلچسپ تجربہ یونیورسٹی آف نیویارک نے کیا ہے جس کے
مطابق 150 مرد اور خواتین کی مختلف آوازوں کو ریکارڈ کرکے انہیں دو حصوں
یعنی پر کشش اور غیر پر کشش آوازوں میں تقسیم کیا گیا ۔ جو آوازیں پرکشش
قرار دی گئیں ان خواتین و حضرات کا جب تجزیہ کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ وہ
غیر پرکشش آوازوں کے حامل مردو خواتین کے مقابلے میں جسمانی اعتبار سے فعال
اور جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے -
محبت کے حوالے سے ہونے والی اس تحقیق سے آگے بڑھ کر ہم اس بات کا بھی جائزہ
لیتے ہیں کہ محبت کے دل اور دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں - کہا یہ جاتا
ہے کہ محبت کرنے یا ہونے میں دل کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے لیکن سائنس
دانوں کے مطابق محبت کے اثرات براہ راست دماغ پر پہلے پڑتے ہیں - دماغ پر
محبت کے خوش کن اثرات کا مطالعہ کرنے کے لئے پہلا ایم آر آئی 2000 میں
کیاگیا جس سے ظاہر ہوا کہ رومانیت کی سنسنی خیزی دماغ کے تین حصوں میں کام
کرتی ہے ان میں سب سے اہم وہ ٹشو ہیں جو دماغ کے نچلے حصے میں پائے جاتے
ہیں ان پر انسانی رویوں کا براہ راست اثر ہوتا ہے یہ وہ حصہ ہے جو Dopamine
بنانے کی فیکٹری کہلاتا ہے یہ وہ کیمیکل ہے جو انسانوں میں سنسنی خیزی اور
خوشی جیسے جذبات پیداکرتا ہے - فشر اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق سے معلوم
ہوا کہ نئی محبت میں مبتلا ہونے والوں میں Ventral Tegmental نسبتا زیادہ
سرگرم ہوتا ہے Dopamine کی زیادہ مقدار اس کی وجہ سے دیگر حصوں تک بھی
پہنچتی ہے -Dopamine کی زیادہ مقدار ان کے رویوں میں سرگرمی اور سنسنی خیزی
پیدا کرتی ہے لیکن دماغ کا یہ حصہ ہی محبت کے اثرات کے حوالے سے تمام امور
انجام نہیں دیتا بلکہ ایک اور حصہ بھی ہے جو دماغ کے عین وسط میں واقع ہوتا
ہے محبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں یہ بھی بہت فعال قرار پاتا ہے یہ حصہ
بھی ایک کیمیکل Serotnine اور ساتھ ہی ساتھ Oxytcine بھی پیدا کرتا ہے اس
اہم کیمیکل کا کام یہ ہے کہ وہ محبت میں شدت پیدا کرتا ہے اور ان دونوں
کیمیکلز سے بھی انسان میں گرمجوشی ‘ تخلیقیت اور اپنے مقاصد کو پالینے کے
عزائم کو تقویت ملتی ہے -
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت کس سے کی جائے ؟ یہ ایک نہایت ہی سنجیدہ
سوال ہے ہم میں سے بہت سے جذباتی ناہمواری کا شکار لوگ عموما محبت کا
انتخاب غلط وقت اور غلط حالات میں کرتے ہیں مثلا اگر کوئی ایسا شخص جو طبعی
طور پر رومانوی میلان رکھتا ہو اور اسے کسی پارٹنر کی تلاش ہو اس دوران
کوئی حادثہ یا ایسا واقعہ رونما ہوجائے - قریب ہی موجود ہمدرد شخصیت کے لئے
دل میں نرم گوشہ پیدا ہوجانا ایک فطری عمل ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ ان
حالات میں پارٹنر کا متلاشی زیادہ بہتر انداز میں اپنے جذبات کا اظہار
کرسکتا ہے - مانٹریال یونیورسٹی کی اس حوالے سے ایک تحقیق میں کہاگیا ہے کہ
مغرب میں لوگ عموما شراب نوشی یا کسی اور نشے کی حالت میں رومانوی تعلق
قائم کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو جلد ہی ناکامی کا
سامنا بھی کرنا پڑتا ہے - درحقیقت یہ انسانی ذہن ہی ہے جو خوشی اورہمدردی
کے جذبات پر رومانوی تعلق کے متلاشی شخص کو پیار کی جانب رغبت دلاتا ہے
مغرب میں شادی سے قبل پہلی ملاقات کا (Date) کا رواج بہت عام ہے یہ بات بھی
تحقیق سے ثابت ہوتی ہے کہ اگر پہلی ملاقات میں شراب نوشی کا دخل بھی شامل
ہو تو شریک حیات کا انتخاب کرنے اور رومانوی تعلق قائم کرنے میں اکثر غلطی
سرزد ہو جاتی ہے ان حالات میں قائم کیا جانے والا تعلق بہت جلد اپنے انجام
کو پہنچ جاتا ہے - احسان ‘ ہمدردی اور نشے کی حالت میں کسی شخصیت کی کشش کے
زیر اثر رومانوی تعلق قائم کرنے یا محبت کا اقرار کرنے میں بہت زیادہ
احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے -
حال ہی میں ایک معروف ویب سائٹ کی جانب سے کروائے جانے والے سروے کے مطابق
70-فیصد سے زائد مرد شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت ملازمت پیشہ اور مالی
طور پر مستحکم خواتین کو منتخب کرنے سے گریز کرتے ہیں -سروے کے مطابق مردوں
کی تقریبا تین چوتھائی تعداد ایسی ہے جو دوستیاں گانٹھنے اور محبت کی
پینگیں بڑھاتے وقت تو تیز طرار ‘ خود اعتمادی سے بھرپور اور مالی طور پر
خود کفیل خواتین کو بہت پسند کرتے ہیں مگر جب شریک حیات کے انتخاب کا وقت
آتا ہے تو یہی مرد ایسی خواتین منتخب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو عملی زندگی
کا بہت زیادہ تجربہ نہ رکھتی ہوں - سروے کے دوران ہر چار میں سے تین مردوں
کا کہنا تھا کہ وہ شادی کے لئے ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا چاہیں گے جو کھانا
بنانے اور گھر گرہستی میں مہارت رکھتی ہو ‘ خوش مزاج ہو ‘ بھولی بھالی اور
سادہ لوح ہو -
پیشہ ورانہ زندگی کی کامیابیوں اور باہر کی دنیا میں قدم رکھ کر مردوں کے
شانہ بشانہ کام کرنے کے بعد خواتین اس درجہ خود اعتمادی کی مالک بن جاتی
ہیں کہ وہ محض کٹھ پتلیوں کی طرح مردوں کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے اچھے
اور برے کی تمیز کرنے لگتی ہیں وہ ہر بات کو بلا چون وچر ا تسلیم کرنے کی
بجائے تمام مسائل میں شوہروں کے ساتھ مشاورت کو اپنا حق تصورکرتی ہیں
-ملازمت پیشہ اور پڑھی لکھی خواتین کی یہی خوبی مردوں کی نظر میں خامی بن
جاتی ہے اور رشتے مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے سے پہلے ہی کمزور ہونے کے
ساتھ ساتھ بداعتماد ی کا شکار نظر آنے لگتے ہیں -اس حوالے ایک ممتاز
سوشیالوجسٹ کہتی ہیں کہ تمام تر ترقی کے باوجود مرد کے لئے اس روایتی خول
سے باہر آنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ آ ج سے چند دہائیاں قبل ہوا
کرتا تھا وہ عمر بھر کے لئے عورت کا معاشی بوجھ تو برداشت کرسکتا ہے مگر
اسے معاشی خود مختاری دے کر اپنے کنٹرول سے باہر ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا -
ایک اور ریلیشن شپ ایکسپرٹ کے مطابق بیوی شوہر کے برابر کمانے لگے تو مرد
احساس عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے اسی لئے مردوں کی اکثریت شریک حیات کا
انتخاب کرتے وقت ملازمت پیشہ خواتین کی بجائے گھریلو کام کاج میں دلچسپی
لینے والی سادہ لوح اور کم عمر خوبصورت لڑکیوں کو ترجیح دیتی ہے-
تحقیق کی حد تک تو شاید یہ بات درست ہو لیکن آج کے اس دور میں جبکہ عورت
اور مردوں کے درمیان حجاب اور فاصلے پہلے جیسے موجود نہیں رہے بلکہ ایک
دوسرے کے سامنے آنا ‘ ایک ہی جگہ بیٹھ کر کام کرنا ‘ ایک کلاس میں بیٹھ کر
تعلیم حاصل کرنا اور ایک ہی سنیما گھر یا تھیٹر میں بیٹھ کر فلم اور ڈرامے
دیکھنا ایک عام سی بات بن چکی ہے تحقیق کے برعکس آج کا انسان جیون ساتھی کی
بجائے ذہنی عیاشی کے لئے فریق مخالف کی دوستی کا منتظر نظر آتا ہے بلکہ ہر
خوبصورت اور پرکشش چہرہ اسے متاثر کرتا ہے اور وہ یہ دیکھے بغیر کہ پہلے سے
شادی شدہ ہے یا نہیں نئی سے نئی دوستیوں اور معاشقوں کو پروان چڑھانے اور
اپنے اردگرد خوبصورت لوگوں کے انبار لگانے کی جستجو میں مصروف دکھائی دیتا
ہے موبائل کی آمد کے بعد خواتین کے زندگی کے معمولات میں ایک حیرت انگیز
تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں سے بات کرتے ہوئے
اپنی زندگی کے پورے چار سال گزار دیتی ہیں امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق
کے مطابق ہر خاتون اپنی زندگی میں تین لاکھ موبائل یا فون کال سنتی ہے جن
کا اوسط وقت 42 ہزار گھنٹے بنتا ہے گھریلو خواتین کو چھوڑ کر عملی زندگی
میں قدم رکھنے والی خواتین ایک دن میں کم سے کم پندرہ سے بیس کالیں وصول
کرتی ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ کالیں سنتی ہیں جبکہ پیغام رسانی کے لئے کم
سے کم پچاس ایس ایم ایس بھجواتی اور وصول کرتی ہیں -
شادی کے بعد گھر میں قرآن پاک کے مطابق راحت اور سکون میسر آنے کے باوجود
آج کا انسان نئے نئے سے شکار کی تلاش میں ہمہ تن گوش نظر آتا ہے یہ بات صرف
مردوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ہر دوسری
نہیں تو تیسری عورت اس لئے بن سنور کر گھر سے دفتر ‘ کالج اور پارکوں میں
نکلتی ہے کہ مردوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرکے انہیں اپنا دیوانہ بنا
سکے - اسی لئے قرآن پاک میں یہ ذکر موجود ہے کہ غیر محرم عورت اور غیر محرم
مرد کسی ایک جگہ تنہائی میں اکٹھے نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ان دونوں کے
درمیان شیطان اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور جب شیطان انسانی ذہن پر سوار ہو
جاتا ہے تو انسان کوحیوان بنتے دیر نہیں لگتی آج کا معاشرہ اس کی ہو بہو
تصویر نظر آتا ہے - آج یہ بات عام طور پر سنی جاتی ہے کہ عورت کی عزت نہیں
کی جاتی ۔ عورت کی عزت تو شاید اب بھی کی جاتی ہے لیکن بے پردہ عورتوں کو
معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جو عورت ہونے کے ناطے ان کا حق بنتا ہے
وہ اپنی عزت خوداتار پھینکتی ہیں بلکہ اخبارات کی زینت بننے میں فخر محسوس
کرتی ہیں ان کے سر سے چادر اور دوپٹے اتار کر برہنگی کے ساتھ عوام کے ساتھ
پیش کردیا جاتا ہے اوروہیں سے عورت شمع محفل بن جاتی ہے اسے عزت و احترام
سے اٹھا کر ان گنت ہاتھوں میں پہنچا دیاجاتاہے ۔
عام طور پر کہاجاتا ہے کہ مرد ہمیشہ بے وفا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت میں
ہی بے وفائی کا عنصر پایا جاتا ہے اس لئے ان سے وفا کی امید لگانا احمقانہ
اقدام ہے لیکن یہ بات صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آج کے دورمیں
خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں اگر مردوں کی نظروں حیا نہیں ہے تو
خواتین بھی مردوں کو نظریں پھاڑپھاڑ کر دیکھنے کی اب عادی ہوچکی ہیں
حالانکہ تازہ ترین ریسرچ کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر مرد عورت کو
8. سیکنڈ تک مسلسل آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر د یکھتا ہے یا عورت مرد کو
دیکھتی ہے تو دونوں کے ذہن و دل میں محبت انگڑائی لینے لگتی ہے لیکن اب تو
صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ عورتوں کا مردوں کو دیکھنا اور بے باکی سے باتیں
کرنا ایک رواج بن چکا ہے اسی طرح مرد بھی خواتین سے باتوں کو طول دے کر
اپنے حیوانی جذبوں کو تسکین دیتے ہیں-
سویڈن میں ہونے والے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق طبی ماہرین اس نتیجے پر
پہنچے ہیں کہ بے وفائی عورتوں اور مردوں دونوں کے جینز میں یکساں شامل ہوتی
ہے جس کی وجہ سے وہ کسی ایک کے ساتھ وفا نہیں کر پاتے اگر ا ن میں سے کچھ
لوگ شادی کر بھی لیتے ہیں تو شریک حیات سے وقتا فوقتا جھگڑوں اور نامناسب
تعلقات کی وجہ سے جلد یا بدیر نوبت علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے اسی طرح ان کی
اکثریت ایک شادی پر مطمئن نہیں ہوتی اس لئے ایسے جینز کے حامل مرد اور
عورتیں ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مغرب میں محبت کا معیار کچھ اور ہے جبکہ
مشرق میں رومانوی تعلقات کا نقطہ عروج شاد ی کے بندھن کو قرار دیا جاتا ہے
لیکن شادی کے بعد محبت کو برقرار رکھنا ‘ نہ صرف دو افراد بلکہ پورے خاندان
کے لئے ضروری ہوتا ہے - شادی کے بعد اچھے رومانوی تعلقات یا محبت برقرار
رکھنے والوں کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس حوالے سے جنوری 2008
جنرل ہیلتھ سائیکلوجی کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ شادی شدہ عورت مرد‘
کنواروں کی نسبت کم ذہنی دباؤ ‘ اعصابی کمزوری اور ڈیپریشن کا شکار ہوتے
ہیں ڈیپریشن ‘ انسانی جسم میں موجود ہارمونز ‘ گلینڈز اور دماغ کے مختلف
حصوں پر مشتمل پیچیدہ نظام کو بری طرح متاثرکرتا ہے جو ہائی بلڈپریشر سمیت
مختلف النوع کے امراض کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تحقیق سے یہ بات بھی ثابت
ہوئی ہے کہ ایسے شادی شدہ جوڑے جن کے درمیان محبت اور پیار کا رشتہ برقرار
رہتا ہے وہ ایسے شادی شدہ جوڑوں کے مقابلے میں جو غیر مطمئن زندگی گزار رہے
ہوں یا کنوارے ہوں ‘ اوسطا لمبی عمر اور اچھی صحت کے حامل ہوتے ہیں -
یونیورسٹی آف کیلفورنیا کی ماہر نفسیات و جنسیات ڈاکٹر رینا ریٹی کے مطابق
شادی شدہ مرد جب کام کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو اسے دن بھر کی تھکاوٹ اور
ڈپریشن سے نسبتا زیادہ جلدی نجات حاصل ہوجاتی ہے - دوسری جانب خواتین
گھریلو ذمہ داریوں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتی ہیں گو کہ انہیں
بھی دن بھر کے کام کاج کی وجہ سے جسمانی تھکاوٹ ہوجاتی ہے لیکن ذہنی طور پر
وہ خود کو اس لئے پرسکون محسوس کرتی ہیں کہ وہ ایک مقصد کی تکمیل اور
خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں -یوں یہ بات بڑے وثوق سے کہی
جاسکتی ہے کہ کامیاب محبت کے حامل شادی شدہ جوڑوں میں مسائل و مصائب کے
باوجود ڈپریشن پیدا نہیں ہوتا
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محبت بے وقوف لوگ کرتے ہیں یا محبت کرکے انسان بے
وقوف بن جاتا ہے کیونکہ جب انسان محبت کرتا ہے تو اس کی تمام تر صلاحیتیں ‘
توجیہات ‘ عزت نفس اور انا وغیرہ زیادہ متاثر ہوتی ہے اس میں صحیح اور غلط
کی تمیز بھی کسی حد تک کم ہوجاتی ہے ہر انسان اپنے محبوب کی کمزوریوں اور
غلطیوں کو نظر انداز کرتا ہے اسے محبوب کی ہر ادا پسند آتی ہے محبت کا جذبہ
ہمارے اندر وہ طوفان پیداکردیتا ہے جو نہ صرف دل کی دھڑکنیں بے ترتیب
کردیتا ہے بلکہ خطرات کا سامنا کرنے کا سامنا کرنے سے بھی نہیں گبھراتا بعض
اوقات یہ جذبات شاعری کا روپ دھار کر لفظوں کی صورت میں بہہ نکلتے ہیں اپنے
ساتھ ساتھ دوسروں کو متاثر کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں - یقینا ایسے حالات
میں کسی ہوش مند انسان کا رویہ ذرا مختلف ہوتا ہے لیکن دانشوروں کے نزدیک
یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو شادی سے پہلے دیوانگی لیکن شادی کے بعد یہی محبت
دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب کردیتی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
اس میں کمی بیشی واقع ہوسکتی ہے لیکن چاہت اور محبت کے اس عنصر کا برقرار
رکھنا ایک خاندان کے لئے لازم ہے -ضروری نہیں کہ زندگی میں ہر کسی کو اس کا
آئیڈیل مل جائے زیادہ تر لوگ ایسے شخص کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتے ہیں
جوانہیں آسانی سے مل جاتا ہے اور شاید وہ کسی اور کا آئیڈیل ہو لیکن کئی
جوڑے ایسے بھی نظر آتے ہیں جو خوبصورتی اور ساخت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے
مختلف ہوتے ہیں بے شک ایسے شادی شدہ جوڑوں کو عملی زندگی میں بے شمار
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ ہر خوبصورت بیوی
کا شوہر پریشان ہی رہتا ہے اس کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ خوبصورتی کے بے
شمار متلاشی حضرات کی نظریں قدم قدم پر خوبصورت عورت کا پیچھا کرتی ہیں بعض
اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خوبصورت بیوی کو بھی کوئی نہ کوئی مرد اچھا لگنے
لگتا ہے کیونکہ آخر وہ بھی اپنے پہلو میں دل رکھتی ہے یوں خاندان کا شیرازہ
خود بخود بکھرتا چلا جاتا ہے یہی حال خوبصورت نوجوانوں کا بھی ہے بے شک ان
کے اپنے گھر میں خوبصورت عورت موجود بھی ہو لیکن ان کی آنکھیں حسن اور
جوانی کے تعاقب میں ہمیشہ مصروف رہتی ہیں میرے مشاہدے میں کئی ایسے نوجوان
ہیں جن کی بے راہ روی سے لبریز داستانیں اب بھی گلی گلی کوچے کوچے بکھری
دکھائی دیتی ہیں ۔
بہرکیف ماہرین نفسیات کے مطابق زندگی میں ایسے ساتھی کی تلاش کی جائے جو
رومانوی اعتبار سے ہی خوبصورت نہ ہو بلکہ اس میں سیرت کے علاوہ اور بھی
شخصی خوبیاں موجود ہوں تاکہ زندگی جزیاتی تسکین کے ساتھ سکون سے گزاری
جاسکے -نفسیاتی شعبے کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس نے بھی محبت کے میدان میں
ایک ایسی گولی ایجا د کرکے تہلکہ مچا دیا ہے جسے کھانے یا کھلانے سے محبت
کو نفرت اور نفرت کومحبت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے - پہلے لوگ محبوب آپ کے
قدموں میں ‘ کا دعوی کرنے والوں کے در پر ٹھوکریں کھایا کرتے تھے لیکن اب
یہ کام تعویزوں اور عاملو ں کی بجائے ڈاکٹر کریں گے اس گولی کا نام ( پوپ)
رکھا گیا ہے- طبی ماہرین کا دعوی ہے کہ دنیا بہت جلد اس گولی کے انسانی
جذبات پر کرشماتی اثرات دیکھے گی جس کے کھانے سے دماغ میں ایک منفرد
کیمیاوی ردعمل پیدا ہوگا اس گولی کو دو حصوں میں تیار کیاجارہا ہے پہلا حصہ
محبت کو ابھارنے اور دوسرا حصہ محبت کے جذبات کو دبانے کے لئے ہوگا ۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مرد جسے دل و جان
سے چاہتا ہے وہ عورت بھی اسے چاہتی ہو یا عورت جس مردکو محبت کرتی ہے وہ
مرد بھی اسے چاہتا ہو اگر دونوں آپس میں ایک دوسرے کو ٹوٹ کر محبت کرنے
لگیں تو محبت اعصاب پر سوار ہونے کی بجائے جلد نتائج کی جانب گامزن ہوجاتی
ہے یہ نتائج یا تو شادی کی صورت میں سامنے آتے ہیں یا بربادی کی شکل میں -
محبت میں شدت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں میں سے کوئی ایک تو ٹوٹ کر
چاہتا ہو لیکن وہ چاہت فریق ثانی کے لطیف جذبوں کو متاثر نہ کرسکتی ہو ‘ اس
حالت میں محبت کرنے والا شخص بھکاری کا روپ دھار لیتا ہے اور ہر لمحے
انگاروں پر لیٹنا اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔محبت کی جب ہم بات کرتے ہیں تو
ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ انسانی دماغ میں پیدا ہونے
والا محبت کا عنصر صرف حقیقی زندگی میں ہی مخالف جنس کا متلاشی نہیں ہوتا
بلکہ یہ انسانی خواہش خواب میں بھی ایک دوسرے کو تلاش کرنے اور پالینے کی
جستجو رکھتی ہے - بیس پچیس سال پہلے اخبار میں ایک محبت بھری کہانی پڑھنے
کو ملی تھی جس کی نزاکت اور جذبہ لطیف کی فراوانی ہر انسان اپنے دل میں
محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
آئیے آپ کو بھی یہ کہانی مختصرا سنائے دیتا ہوں ـ ۔ اسلام آباد میں تعینات
ایک فوجی آفیسر کا ایک نوجوان بیٹا خواب میں ایک حسینہ کو بار بار دیکھتا
ہے جو اسے گلاب کا پھول پیش کرتی ہے اور غائب ہوجاتی ہے یہ عمل اس قدر
تسلسل سے ہوتا ہے کہ نوجوان اس کی تلاش اور حاصل کرنے کی جستجو میں بیمار
رہنے لگتا ہے اس کی گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کر والدین جب اسے ڈاکٹر کے پاس
لے کر جاتے ہیں تو معالجین اسے بالکل صحت مند اور توانا قرار دیتے ہیں لیکن
اس نوجوان کی ذہنی کیفیت دن بدن متزلزل ہورہی ہوتی ہے
پھر جب بات پیروں فقیروں اور عاملوں تک پہنچتی ہے تو نوجوان بتاتا ہے کہ
اسے ایک لڑکی خواب میں آکر گلاب کا پھول دیتی ہے اور نظروں سے اوجھل ہوجاتی
ہے نوجوان کے بقول وہ لڑکی اسے اچھی لگتی ہے وہ اس کی محبت میں گرفتار
ہوچکا ہے والدین اپنے بیٹے کی خوشی کو پورا کرنے کے لئے لڑکی کا نام اور
ایڈریس پوچھتے ہیں تو نوجوان کچھ بتانے سے قاصر رہتا ہے اس کے بقول وہ اس
لڑکی سے نہ تو بالمشافہ کبھی ملا ہے اور نہ ہی کبھی حقیقت میں اسے دیکھا ہے
اس کے باوجود تسلسل سے خواب میں نظر آنے والی لڑکی کی محبت میں وہ گرفتار
ہوچکا ہے - لڑکے کی ذہنی حالت کو دیکھ کر والدین بھی متفکر رہنے لگتے ہیں
اچانک حالات نئی کروٹ لیتے ہیں اور نوجوان کے والد کا تبادلہ اسلام آباد سے
گوجرانوالہ کینٹ ہوجاتا ہے چنانچہ فیملی سمیت وہ نوجوان بھی گوجرانوالہ
منتقل ہوجاتا ہے ایک دن وہ کالج سے چھٹی کرکے گھر جانے کے لئے جب بس سٹاپ
پر کھڑا ہوتا ہے تو اچانک اس کی نظر قریب ہی کھڑی ہوئی اس لڑکی پر پڑتی ہے
جو اس کے خواب میں آکر گلاب کا پھول دیا کرتی تھی پہلے تو وہ تجسس کا شکار
ہوتا ہے پھر اچانک خواب کے تمام واقعات ایک فلم کی صورت میں ذہن میں اترنے
لگتے ہیں-
اسی اثنا میں ایک بس سٹاپ پر آکر رکتی ہے وہ لڑکی بھی اسے ایک نظر دیکھ کر
اس بس میں چپ چاپ بیٹھ جاتی ہے حالانکہ نوجوان کی منزل کوئی اور ہوتی ہے
لیکن جب اسے اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتی ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی
بس میں سوار ہوجاتا ہے جس میں وہ لڑکی سوار ہوتی ہے پھر اچانک بس ایک سٹاپ
پر رکتی ہے اور لڑکی نیچے اتر کر اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوجاتی ہے لیکن
گردن گھما کر لڑکے کو بار بار دیکھنے کی جستجو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ
وہ لڑکی بھی اس نوجوان کو پہچان رہی ہے چنانچہ دلوں میں محبت کے شعلے بلند
ہوتے ہیں اور وہ نوجوان بھی اسی سٹاپ پر اتر کر پیچھے پیچھے دیوانہ وار
چلنے لگتا ہے لیکن کچھ ہی دور جاکر جب وہ دونوں فٹ پاتھ پر تنہا ہوجاتے ہیں
تو ہمت کرکے لڑکا آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرواتا ہے بظاہر یہ پہلی ملاقات
ہوتی ہے لیکن دونوں جانب سے مزاحمت کی بجائے والہانہ محبت کا شدت سے اظہار
اس بات کی گواہی بنتا ہے کہ لڑکی کے دل میں بھی اسی نوجوان کی تصویر بسی
ہوئی ہے چندلمحوں کے بعد خاموشی کے سمندر میں لہریں اٹھتی ہیں اور نوجوان
اپنے خواب کا ذکر چھیڑ دیتا ہے لڑکی نہایت خاموشی سے اس کی بات سنتی ہے یوں
محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی کہانی اس نوجوان کو سنانا چاہتی ہے لیکن اس
انتظار میں ہوتی ہے کہ نوجوان پہلے اپنی بات مکمل کرلے پھر بات شروع کرے -
قصہ مختصر نوجوان اسے بتاتا ہے کہ ہو بہو تمہاری ہی شکل کی لڑکی خواب میں
اسے گلاب کا پھول دیتی ہے اور پھر غائب ہوجاتی ہے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے
نوجوان کہتا ہے کہ مجھے اس سے اس قدر محبت ہوچکی ہے کہ میں اس کے بغیر زندہ
رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور وہ لڑکی کوئی اور نہیں صرف اور صرف تم ہو
تمہاری صورت میں مجھے اپنے منزل مل گئی ہے - لڑکے کی بات مکمل ہونے کے بعد
لڑکی اپنی بات شروع کرتی ہے وہ بتاتی ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے وہ بھی ایک
ان دیکھی محبت کا شکار ہوچکی ہے نہ معلوم کہ وہ شہزادہ کون سے شہر اور ملک
کا ہے جو مجھے خواب میں گلاب کا پھول دیتا ہی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اس
کی شکل تم سے ملتی ہے جب دونوں جانب سے ایک ہی بات پر اکتفا کیاجاتا ہے تو
صدیوں کی مسافتیں پل بھر میں ختم ہوجاتی ہیں بچھڑنے سے پہلے دونوں ایک
دوسرے کو اپنے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر دیتے ہیں - نوجوان اچھلتا کودتا
جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو والدہ اس کی وجہ پوچھتی ہے نوجوان ماں کو اپنی
بانہو ں میں لے کر بتاتا ہے کہ وہ جس منزل کی تلاش میں گزشتہ کئی سالوں سے
سرگرداں تھا وہ منزل آج اس کے روبرو کھڑی تھی ماں پوچھتی ہے وہ کون تھی
نوجوان تفصیل سے بتاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ وہ باقاعدہ رشتہ لینے کے
لئے ان کے گھر جائیں شام کو گھر واپسی پر والد کو بھی اس بات کی خبر ہوجاتی
ہے وہ تو پہلے ہی اپنے نوجوان بیٹے کی خوشیوں کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار
ہوتے ہیں-
چنانچہ چند دنوں بعد وہ کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ کرکے لڑکی والوں کے گھر
جا پہنچتے ہیں اپنا تعارف کرواتے ہوئے بیٹے کی خواہش ان کے سامنے رکھتے ہیں
- اس وقت حیرت کی انتہانہیں رہتی جب لڑکی کے والدین انہیں بتاتے ہیں کہ اس
لڑکی کا رشتہ تو اپنے ایک کزن کے ساتھ طے ہوچکا ہے اور چند ہفتوں بعد اس کی
شادی ہونے والی ہے یہ سن کر والدین جب مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ گھر واپس
لوٹتے ہیں تو نوجوان چہروں سے ہی اصل وہ نوجوان بضد رہتا ہے حتی ایک دن
جبکہ وہ لڑکی کے گھر جاپہنچتا ہے تو لڑکی کے والد کی جانب سے توہین آمیز
سلوک دیکھ کر زہر کھاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے اس بات کی خبر کسی
نہ کسی حوالے سے لڑکی کو بھی پہنچ جاتی ہے حسن اتفاق سے اسی دن اس کے گھر
میں بارات متوقع ہوتی ہے لڑکی بھی چپکے سے کسی نہ کسی طرح زہر حاصل کرکے
نگل لیتی ہے اور اس گھر سے دولہن کی بجائے جنازہ ہی اٹھتا ہے مرنے سے پہلے
وہ ایک کاغذ پر یہ وصیت کرتی ہے کہ اس کی قبر بھی اسی نوجوان کے ساتھ بنائی
جائے جس سے زندگی میں وہ محبت کرتی تھی چنانچہ وصیت کے مطابق لڑکی کی معیت
کو بھی نوجوان کی قبر کے ساتھ خالی جگہ پر دفن کردیا جاتا ہے - اس قبرستان
کے اردگر د رہنے والے لوگوں کی زبانی یہ داستان عام ہوتی ہے کہ چاندنی رات
میں سفید لباس پہنے ہوئے دونوں اپنی اپنی قبروں سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
اٹھتے ہیں اور فضا میں اڑنے لگتے ہیں اس لمحے پورا قبرستان خوشبو سے مہک
جاتا ہے اب یہ نہیں معلوم کہ وہ خوشبو سچی محبت کا اظہار تھی یا کچھ اور
لیکن خوابوں میں جنم لینے والے محبت نے دونوں جوان دلوں میں بغیر دیکھے ایک
دوسرے کو نہ صرف گرویدہ بنالیا بلکہ ایک دوسرے کو حاصل کرنے میں ناکامی کی
صورت میں دونوں نے موت کو بھی گلے لگا کر خود کو امر کرلیا -
یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات محبت کے اظہار کا ذریعہ حقیقت
کی بجائے خواب بھی بن جاتے ہیں اور ان دیکھے رشتوں کی جانب انسان بڑھتا ہی
چلا جاتا ہے چونکہ یہ سب کچھ انسانی دماغ ہی کرتا ہے اس لئے محبت کے اس
انداز کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن خواب اب اس قدر اہمیت اختیار کرچکے
ہیں کہ نیند کی حالت میں جب اچھے خواب نظر آتے ہیں تو خوابوں کے تسلسل کو
توڑ کر بیدار ہونے کو جی نہیں چاہتا ہے سائنسی ترقی کی بدولت اب تو ان
خوابوں اور انسانی تخیلات کو محفوظ کرکے سکرین پر دیکھنے کا اہتمام بھی
سننے میں آرہا ہے جاپانی ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے خوابوں اور
سوچوں کو کمیپوٹر سکرین پردیکھنے کے لئے ٹیکنالوجی تیار کرلی گئی ہے یہ
ٹیکنالوجی اے ٹی آی کمپیوٹینل نیورو سائنس لیبارٹریز کے طبی ماہرین نے تیار
کی ہے ماہرین کے مطابق فی الوقت اس ٹیکنالوجی کے ذریعے صرف خاکوں کوکمپیوٹر
سکرین پر دیکھاجاسکے گا جو انسانی دماغ میں پیدا ہوں گے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ اشکال کو بھی وضاحت کے ساتھ دیکھا جاسکے گا پہلی مرتبہ یہ ممکن ہوا ہے
کہ لوگوں کے دماغ کی سرگرمیوں کو براہ راست دیکھنے کا اہتمام ہورہا ہے -طبی
ماہرین کے مطابق خاکوں اور تصویروں کے متعلق دماغ کو وصول ہونے والے سگنلز
کو وصول کرکے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے خوابوں کو کمپیوٹر سکرین پر لانے میں
کامیابی حاصل کی جاچکی ہے - جہاں خواب انسانی زندگی میں ایک نعمت کی حیثیت
رکھتے ہیں وہاں بے خوابی بھی ایک مستقل اذیت کا روپ دھار کر انسانی زندگی
کو متاثر کررہی ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہر سال بے خوابی کا
شکار نو لاکھ افراد خود کشی کرلیتے ہیں جبکہ خود کشی کی کوشش کرنے والے ہر
چالیس افراد میں سے ایک کی موت واقع ہوجاتی ہے اچھی نیند جسمانی اور ذہنی
صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے خوابوں پر تحقیق کرنے والے جرمن سائنس دان کے
مطابق نیند کی حالت میں جب گندے انڈے کی بدبو سونے والوں کے نتھنوں میں
گھستی ہے تو ان کے خواب میں منفی پہلو نمایاں ہوجاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو
حالت خواب میں گلاب کی بھینی بھینی خوشبو سونگھتے ہیں انہیں خواب میں اچھے
خیالات اور اچھی چیزیں ہی نظر آتی ہیں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسر
ڈاکٹر بورس اسٹک نے بتایا کہ ہم نے تجربے کے دوران مثبت اور منفی بو خارج
کرنے والی چیزیں نیند کی حالت میں لوگوں کو سونگھائیں اس کے بعد یہ جانچا
کہ ان اشیا کی بو محسوس کرنے کے بعد ان کے خواب میں جذباتی احساسا ت پر کیا
اثر پڑتا ہے ہم نے دیکھا کہ سونے والے کو اگرچہ یہ علم نہیں ہوتا کہ کہ اسے
کوئی چیز سونگھائی جارہی ہے تاہم خوشبو یا بدبو خوابوں کی جذباتی کیفیت میں
اثرانداز ہوجاتی ہے آواز ‘ دباؤ اور ارتعاش سے خواب کی کیفیات تبدیل ہوجاتی
ہیں اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ جن کے بیڈ روم میں یا اس سے ملحقہ مقامات پر
بدبو دار اشیا رکھی گئی ہوں وہ رات بھر سکون سے سو نہیں پاتے ہیں اسی
نفسیاتی بے چینی کی وجہ سے وہ خوفناک یا عجیب غریب خواب بھی دیکھتے رہتے
ہیں جبکہ بیڈروم میں اگر پھولوں کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہو تو یہی خوشبو
میٹھی نیند ‘ پرسکون اور مسحور کن خوابوں کی ضمانت بن جاتی ہے -
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں لاہور میں ایوان اقبال کی کثرالمنزلہ عمارت
زیر تعمیر تھی اس تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بیشمار مزدور اور
کاریگر اپنا اپنا کردار ادا کررہے تھے اسی عمارت میں مزدوری کرنے والا ایک
نوجوان ہر شام فراغت کے بعد باغ جناح جو اس عمارت سے زیادہ فاصلے پر نہیں
تھا آ کر ایک درخت کے نیچے رکھے ہوئے سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ جاتا اور اپنے
ہونٹوں سے بانسری لگا کر آنکھیں بند کرکے انڈین گانوں کی ایسی دھنیں بجاتا
کہ اس کی بانسری سے نکلنے والی آواز سے مست ہوکر واک کے لئے آئے ہوئے مرد و
زن بھی اس کے گرد جمع ہوجاتے چونکہ ان دنوں میرا دفتر بھی باغ جناح کے
بالمقابل تھا اس لئے ہم بھی چھٹی کے بعد سیر و تفریح کے لئے باغ جناح چلے
جایا کرتے تھے ویسے بھی جب انسان جوان ہوتا ہے اور تمام اعضا سلامت ہوتے
ہیں تو اچھلنے کودنے اور بھاگنے دوڑنے کو خوب جی چاہتا ہے خوبصورت چہرے تو
ہر کسی کی کمزوری ہوا کرتے ہیں جو باغ جناح میں اکثر دیکھے جاسکتے تھے لیکن
باغ جناح میں داخل ہوتے ہی جب بانسری کی مدھر آواز کانوں کو چھوتی تو قدم
خود بخود ادھر طرف کیھچے چلے جاتے دوستوں کی رفاقت میں جب میں وہاں پہنچتا
تو نوجوان لڑکیاں اور لڑکے بے ساختہ وہاں کھڑے ہوئے بانسری سے نکلنے والے
سروں سے محظوظ ہوتے لیکن اس لمحے بانسری بجانے والا نوجوان جو شکل و صورت
سے مزدور ہی دکھائی دیتا تھا آنکھیں بند کئے اپنی ہی دنیا میں کھویا نظر
آتا شاید وہ اس طرح اپنے محبوب کی یاد کو تازہ کرتا ہو -
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ محبت کی جانب راغب کرنے کی ایک صنف ایسی موسیقی
بھی ہے جو انسانی ذہن کو مست کرکے صنف نازک کے تصورات میں گم کردیتی ہے
موسیقی کی دنیا میں بانسری کو اہم ترین مقام حاصل ہے بے شک دور جدید میں بے
شمار موسیقی کے آلات ایجاد ہوچکے ہیں لیکن چھ سوراخوں والی بانسری کی اہمیت
کم نہیں کی جاسکی ــــ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ابتدا میں بانسری کے چھ
سوراخ بنائے گئے تھے آہستہ آہستہ ان سوراخوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا کہیں
آٹھ اور کہیں دس سوراخ استعمال ہونے لگے اسی طرح بانسری کی شکل میں بھی
تبدیلیاں آتی رہیں اور الغوزہ ‘ سپیروں کی بین ‘ کلارنیٹ اور دوسرے ساز
وجود میں آتے گئے جبکہ بانسری بڑی آسانی کے ساتھ ہر آرکسٹرا میں شامل
ہوجاتی ہے فنی اعتبار سے یہ بہت نیچے سروں سے بہت اونچے سروں تک استعمال
ہوتی ہے سائنسی اعتبار سے بانسری کی آواز کی پیمائش 440 ہرٹز شمار کی گئی
ہے بانسری کو خاص طور پر سوز و گداز کا ساز کہاجاتا ہے اس کی آواز ‘ لے اور
تان میں عجیب قسم کا درد ابھرتا ہے ۔ شاعر مشرق علامہ محمداقبال ؒ نے بال
جبریل میں ایک رباعی میں فرمایا کہ
جمال عشق و مستی نے نوازی ‘ جلال عشق و مستی بے نیازی
اسی طرح حضرت مولانا روم کی مشہور مثنوی کے پہلے چھ اشعار بانسری اور اس کی
پرسوز آواز کے بارے میں ہیں مولانا روم حالت سماع میں بانسری بہت شوق سے
سنا کرتے تھے ان کے انتقال کے بعد قونیہ میں ان کے مزار پر 24 گھنٹے مسلسل
بانسری کی دھن بجانے کا اہتمام سننے میں آیا پچھلے چار سو برسوں سے مزار پر
یہ مولانا روم کی مرغوب دھن اسی طرح بج رہی ہے پہلے یہ کام بار ی باری
سازندے انجام دیتے تھے لیکن اب ریکارڈنگ چل رہی ہے بانسری کی اس دھن پر
مولانا روم کے عقیدت مند درویش وجد میں آکر دھمال ڈالتے ہیں ۔حضرت امام
خمینی ؒ بھی بانسری کے بارے میں اپنے اشعار میں فرماتے ہیں بانسری سے مت
پوچھو بانسری کی اپنی کوئی آواز نہیں بلکہ انسان کے دل کی بات سنو جو خدا
تعالی کا گھر ہے بانسری جلتی ہے تو خاک کا ڈھیر بن جاتی ہے دل جلتا ہے تو
دلبر (خدا) کا گھر بن جاتا ہے ۔حضرت خواجہ فرید ؒ اپنی کافیوں میں بار بار
بانسری کا لفظ استعمال فرماتے تھے ایک جگہ انہوں نے فرمایا کہ محبوب راول
نے ایسی مسحور کن بانسری بجاکر سنائی کہ بے خودی کے عالم میں پہنچا دیا نہ
گھر یاد رہا اور نہ در ۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ رانجھے محبوب نے مرلی بجانے
میں ایسے ایسے ہنر اور پیچ استعمال کئے ہیں کہ کمال کردکھایا ہے میرا من
موہ لیا اور میں دیوانہ وار جنگل بیاباں میں آوارہ پھرتی ہوں ۔ قصہ مختصر
کہ بانسری کی آواز انسان کو مادی حقیقتوں سے دور لے جاتی ہے جہاں خواب ہوتے
ہیں ‘ ماورائی مناظر ہوتے ہیں یہ صوفیا کی دنیا ہے عام دنیا سے الگ تھلگ ۔
بانسری کی مسحور کن آواز ذہن کو مست کردیتی ہے اسے آسوودگی اور سکون کی
دنیا میں لے جاتی ہے بانسری کی آواز تصوف کی دنیا میں بھی اپنے خاص معنی
رکھتی ہے ۔
اس اگر یہ کہاجائے کہ اظہار محبت کا ایک ذریعہ بانسری کے وہ سر بھی ہیں جو
سننے والوں کواپنی جانب کھینچتے ہیں تو غلط نہ ہوگا - یہ بھی حقیقت ہے کہ
ستائش ‘ محبت اور پیار بھرے لفظوں کا ہر شخص آرزو مند ہوتا ہے یہ احساس تو
قدرت نے جانوروں میں بھی ودیعت کررکھاہے وہ اپنے مالک کی پیاربھری تھپکی
اور غصے بھری نظر میں تفریق کرلیتے ہیں - دراصل محبت کا احساس اور جذبہ اس
قدر دلکش اور لطیف ہے کہ کوئی بھی رشتہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
شاعر نے محبت کے ان حسین جذبوں کو مختصر الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے
" محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا " اس لئے
یہ کہا جاسکتاہے کہ محبت دل کا وہ رشتہ ہے جو دلوں کو جب اپنی لپیٹ میں
لیتا ہے تو انسان اظہار کے مختلف طریقے ڈھونڈتا ہے کبھی وہ لفظوں کا سہارا
لے کر محبوب کے دل میں اترنے کی جستجو کرتا ہے تو کبھی محض اس کی رفاقت میں
گزرے ہوئے ہر پل کو محفوظ کرکے لمحات کو یاد گار بنانے کی سعی کرتا ہے - اس
لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہوجاتی ہے اور جب
ہوجاتی ہے تو پھر اعصاب پر ایسی سوار ہوتی ہے کہ ساری دنیا بھی روکنا چاہے
تو روک نہیں سکتی -محبت کرنا اور کسی کے ساتھ ہوجانا ایک فطری امر ہے اس سے
کوئی انکار نہیں کرسکتا بلکہ میری دانسیت کے مطابق محبت کے بغیر انسان
نامکمل ہے بے شک اس کا اظہار کسی بھی شکل میں ہو ۔ |