اگر آج کے دن ہم آج کا لمحہ کا لطف اٹھاتے ، راضی رہنا
اور راضی رکھنا سیکھ جائیں تو آج بھی اچھا اور کل بھی اچھا ہو گا۔ ہم خوش
دوسرے خوش اور خدا بھی ہم پر خوش ۔
یہ کیسے ہو؟
یہ ایسے ہی ہو سکتا ہے جیسے دنیا کے دوسرے کام سیکھے جاتے ہیں تجربات سے ،
جو ہوتے ہوتے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
رکاوٹیں آئیں گی ، تھکاوٹیں آئیی گی لیکن کرتے رہنا ہے ، خدا سے ڈرتے رہنا
ہے لیکن یہ ڈرنا وہ ڈرنا کہ جو دوست کے ناراض ہو جانے کا ہوتا ہے جس میں
انسان روتا ہے ، مناتا ہے معافی مانگتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ہم یا تو ماضی کے غم اور پچھتاوے میں ہوتے ہیں یا حال کے
دکھاوے میں ہوتے ہیں اور یا مستقبل کی فکر اور اندیشے میں ہوتے ہیں حالانکہ
خوشی کا لمحہ موجود ہوتا ہے جو گزرنے کے انتظار میں گزر جاتا ہے یہاں تک کہ
انسان دنیا سے ہی گزر جاتا ہے اور لوگوں سے لڑتے لڑتے زندگی سے لڑ جاتا ہے
پھر زمین میں گڑ جاتا ہے ۔
ماضی کے پچھتاوں کو چھوڑ نا ، سوچ کے رخ کو موڑنا ، نئے خیالات جوڑنا اور
پرانی غلطیوں سے سیکھ کر موجود لمحہ کو بہتر بنانا جس نے آگے جا کر مستقبل
بنٌا ہے۔
ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل نے آنا نہیں ہے ۔ ویسے بھی ہمارے پاس حال ہی بچتا
ہے جسے کس طرح گزارا جاے یہ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔
|