مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی (رحمۃ اﷲ علیہ)کے احوال و آثار

مشرقی یوپی کا مردم خیز قصبہ گھوسی اپنی تاریخی قدامت اورعلمی ودینی شاندار روایات کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتاہے، جس کے تابناک ذرے افق علم وفضل پر آفتاب وماہتاب بن کر ابھرے ہیں،جن کی ضیابار کرنوں سے برصغیر کا چپہ چپہ روشن ہواہے اوردنیا نے علم ومعرفت کی روشنی حاصل کی ہے ،اس خاک سے اٹھنے والے علماء فضلا شیراز ہند کی عظمت رفتہ کی بازیافت میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے ،انھیں باوقار علمی ہستیوں میں فخر المحدثین حضرت علامہ عبد المصطفیٰ علیہ الرحمتہ والرضوان کی ستودہ صفات، قدر آور علمی وعبقری شخصیت بھی تھی، حضرت علامہ اعظمی متبحرعالم دین، بلند پایہ مدرس، مشہور خطیب، عظیم دانشور اورمصنف تھے،جنہوں نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف اوروعظ وتقریر کے ذریعہ اشاعت علوم اسلامیہ، تبلیغ دین اورارشاد وہدایت کے فرائض حسن وخوبی کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک انجام دیے، ہزاروں باکمال تلامذہ ،درجنوں گراں قدر مصنفات یاد گار چھوڑیں۔
خاندان اورنام ونسب
قصبہ گھوسی کی آبادی اوراس مقام پر بسنے والے خاندانوں کے جائزے سے معلوم ہوتاہے ،کہ دوسرے علاقوں سے ترک وطن کرکے یہاں سکونت گزیں ہوئے ،باہر سے آنے والا حضرت علامہ محمد عبد المصطفیٰ اعظمی رحمتہ علیہ کی بلند پایہ علمی شخصیت بھی ہے،جن کے چشمۂ علم سے ہزاروں تشنگان علوم نے اپنی پیاس بجھائی۔(۱)
آپ کا اسم گرامی محمد عبد المصطفیٰ اورسلسلہ نسب یہ ہے۔محمد عبد المصطفیٰ بن شیخ حافظ عبد الرحیم بن شیخ حاجی عبدا لوہاب بن شیخ چمن بن شیخ نور محمد شیخ مٹھو بابا رحمتہ اﷲ علیہ۔(۲)
ولادت اوربچپن
حضرت علامہ اعظمی کی ولادت ماہ ذیقعدہ ۱۳۳۳؁ھ مطابق ۱۹۱۴؁ء محلہ کریم الدین پور گھوسی میں ہوئی، چونکہ والدین کی مسلسل آٹھ اولاد کے انتقال کے بعد ویران چمن میں بہار بن کر آئے تھے، اس لیے والدین نے افلاس وتنگ دستی کے باوجود ہونہار فرزند کو بڑے نازونعم میں پالا ،خود تحریر فرماتے ہیں۔
’’والدین نے اپنی غریبی کے باوجود مجھے اپنے اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بے حد لاڈ پیار سے پالا، پھول پان کی طرح سنبھال کر رکھتے اورمیری ہر خواہش وتمنا کو ضروری پوری کرتے اورماں باپ کی انھیں ناز برداریوں کی وجہ سے میں ضدی مزاج ہوگیا تھا،جس کا آج تک اتنا اثر باقی ہے ،کہ اگر کوئی میری بات نہیں مانتا تو مجھے غصہ آجاتاہے‘‘۔(۳)
تعلیم وتربیت
جب نوشت وخواندکی عمر کو پہنچے تو والد گرامی نے جو حافظ قرآن تھے، قرآن کریم ناظرہ اوراردوکی ابتدائی کتابیں گھرہی پر پڑھائیں،اس کے بعد مکتب میں داخل کردیے گئے،جہاں درجہ چہارم تک اردو،دینیات اورحساب کی تعلیم پائی، فارسی زبان وقواعد کی تعلیم شروع ہوئی، تو گھوسی کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ ناصر العلوم ملک پورہ میں داخلہ لیا،مگر دوری کی وجہ سے چند ہی ماہ تعلیم حاصل کی، پھر مدرسہ اسلامیہ فیض عام بیسواڑہ گھوسی میں داخل ہوئے،جہاں اس دور کے بابائے فارسی مولانا محمد سعید خان فتح پوری علیہ الرحمہ سے یوسف زلیخا، گلستاں، بوستاں، اخلاق محسنی وغیرہ پڑھیں، اس مدرسہ میں عربی کی تعلیم کا بندوبست نہیں تھا،اس لیے اپنے ننہیال پورہ معروف ضلع مؤ کے مدرسہ معروفیہ میں میزان ومنشعب سے لے کر شرح جامی تک تعلیم حاصل کی،۱۰/شوال ۱۳۵۱؁ھ میں گھوسی کے ارباب علم ودانش حضرات کے مشورے سے مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ ضلع مراد آباد میں داخلہ لیا،جہاں شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی اعظم علیہ الرحمہ ،حضرت مولانا حکمت اﷲ امروہوی علیہ الرحمہ اورحضرت مولانا سعید محمد خلیل چشتی کاظمی امروی علیہ الرحمہ سے ایک سال تک متوسطات درس نظامی کی تحصیل کی، پھر ۱۰/شوال۱۳۵۲؁ھ میں صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان کے ہمراہ بریلی شریف جاکر دارالعلوم منظر اسلام میں داخلہ لیا،میبذی، ملا حسن محدث پاکستان حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری علیہ الرحمہ سے پڑھیں،اورباقی درس کتابیں حضرت صدر الشریعہ کے زیر درس رہیں،بریلی شریف کا چارسالہ دورطالب علمی بہت تابناک رہا،علم وعرفان کی راجدھانی میں جو قلبی طمانیت وسکون میسر آیا،اس کی زریں یادیں سرمایۂ حیات بن گئیں۔(۴)ارشاد فرماتے ہیں۔
’’اس دوران میں حضرت حجتہ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں صاحب قبلہ خلف اکبر و سجادہ نشین اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ کی خدمت کا خاص طور پر شریف حاصل رہا،چند سفروں میں حضرت قبلہ نے مجھے اپنا رفیق سفر بھی بنایا،اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ کے بردار خرد مولوی محمد رضا خاں صاحب عرف ننھے میاں صاحب مرحوم سے فرائض کی مشق کی اورحضرت اقدس مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خاں صاحب دامت معالہیم کے دارالافتاء میں بھی حاضر باش رہا، کبھی کبھی چھٹیوں میں مراد آباد بھی جاتا اورصدر الافاضل مولانا حافظ حکیم نعیم الدین صاحب قبلہ قدس سرہ العزیزکی خدمت میں بھی حاضری دیتا، عرس رضوی میں ہندوستان بھر کے اکابر علمائے اہلسنت کا بریلی میں اجتماع ہوتا، میں ان سب علماکی زیارت وخدمت کا شرف حاصل کرتا،سبحا ن اﷲ وہ منظر نگاہوں کے سامنے اب بھی ہے،کہ جب یہ تمام علمائے اہل سنت قل شریف کے وقت ایک جگہ تشریف فرما ہوتے تھے،تو ایسا محسوس ہوتاتھا، کہ غالباً آسمان بھی زمین پر شک کرتا ہوگا‘‘۔(۵)
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ جب دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڈھ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے،تو حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ بھی ۱۰/شوال ۱۳۵۵؁ھ کو دادوں پہنچے اورحضرت صدر الشریعہ کے زیر سایہ دو سال تک دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ میں تحصیل علم کی اوریہیں سے ۱۳۵۷؁ھ میں سند فراغت حاصل کی،دادوں کے دوران قیام آپ کی جو لانئی طبع اورممارست علم کا شہرہ علمی حلقوں میں ہونے لگا تھا۔(۶)
چنانچہ دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں کے متولی الحاج نواب غلام محمد خاں صاحب شروانی برادر خرد خان بہادر نواب ابو بکر خاں صاحب شروانی مرحوم جو بڑے ہی علم دوست،زاہد شب زندہ دار تھے،ایک مرتبہ انھوں نے طلبہ کے لیے تحریری مقابلہ کا انعقاد کیا اورآیت کریمہ ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی تفسیر لکھوائی ،دوسرے طلبہ کے ساتھ علامہ اعظمی نے بھی تفسیر سپرد قلم کی،جو بہت دقیع اورایمان افروز تھی،طلبہ میں اول آئے ،نواب صاحب نے خوب ستائش کی اورگر انقدر انعام سے سرفراز فرمایا،اوریہ تفسیر نعتیہ مشاعرہ خیر آباد ۱۳۵۷؁ھ کے مجموعہ نعت میں بطور مقدمہ شائع کی گئی۔
دادوں علی گڈھ کے دوران قیام حضرت علامہ سلیمان اشرف علیہ الرحمہ صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڈھ، صدر الصدور نواب حبیب الرحمن خاں شروانی جیسی عظیم علمی شخصتوں سے بھی نیاز حاصل رہا،اوریہ دونوں بزرگ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی کی طباعی، جولانئی طبع، علمی استعداد اورقابلیت کے معترف رہے،مولانا شروانی مرحوم نے ازراہ کرم اپنی تصانیف کا ایک سیٹ عنایت فرمایا اوراپنے کتب خانہ حبیب گنج کی بھی زیارت کرائی، جوعلمی ودینی نوادر کا انمول ذخیرہ تھا۔
بریلی شریف اوردادوں کا زمانۂ طالب علمی بڑی عسرت اورتنگ دستی میں گزرا، گھر کی مالی حالت خستہ ہونے کی وجہ سے اخرابات کے لیے رقم نہ آتی، ٹیوشن وغیرہ سے کچھ یافت ہوجاتی اورجیسے تیسے ایام گزرتے ،مگر طالب علم کی دھن اتنی پکی تھی،کہ پائے ثبات میں کبھی بھی لغزش نہ آئی، فاقہ مستی اورتنگ حالی کبھی آڑے نہ آئی،پوری لگن ، محنت اورجاں فشانی سے علم کی لازوال دولت اپنے دامن میں سمیٹے رہے،طبیعت میں غیرت واستغنا کا ایسا جوہر تھا ،کہ کبھی بھی اپنی اپنی خودداری پر آنچ نہ آنے دی اورکسی کے روبرو اپنی تنگ دامانی اورافلاس کا ذکر نہیں کیا۔(۷)
اساتذۂ کرام
(۱) صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ
(۲) شیخ العلما حضرت مولانا غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ
(۳) محدث پاکستان حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری علیہ الرحمہ
(۴) حضرت مولانا حکمت اﷲ علیہ الرحمہ
(۵) حضرت مولانا سعید محمد خلیل کاظمی چشتی علیہ الرحمہ (۸)
بیعت وخلافت
حضرت علامہ اعظمی دوران طالب علمی تحصیل علم کے ذوق وانہماک کی بنا پر تصوف وسلوک، ذکر واذکار اورمجاہدہ وریاضت سے دور رہے،بلکہ وہ ان امور سے الگ رہنے ہی میں عافیت تصور کرتے، مگر شوال ۱۳۵۱؁ھ میں جب بغرض تعلیم امروہہ پہنچے اوروہاں حضرت قاضی ابن عباس نقشبندی علیہ الرحمہ کی زیارت اوراشغال باطنی سے روشناس ہونے کا موقع ملا، ختم خواجگان کی مجلس پر پڑنے لگے رفتہ رفتہ ان کی قلبی حالت اس درجہ بدل گئی ،کہ وہ وارفتگی وشیفتگی کی حدوں کو چھونے لگی، اپنے تاثرات کا اظہا ران الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’میں روانہ بعد مغرب ختم خواجگان پڑھنے میں شامل ہوتا، میں حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کے ذکر وشغل اورمعمولات نقشبندیہ کی پابندی اوران کی مقدس وپاکیزہ زندگی سے انتہائی متاثرہ ہوا،غیر شعوری طو ر پر خود بخود ،میرا قلب حضرت قبلہ علیہ الرحمہ کی طرف مائل ہونے لگا، بلکہ ختم پڑھتے پڑھتے بعض وقت ایسی کشش پیدا ہوتی، کہ میرا دل چاہتا کہ میں ان سے لپٹ جاؤں،میں نے اپنے ان قلبی واردات کو کسی سے ذکر نہیں کیا،لیکن دل میں یہ عزم کرلیا ،کہ میں بھی حضرت قبلہ علیہ الرحمہ سے بیعت کرکے حلقے میں بیٹھا کروں گا۔‘‘(۹)
مگر ۱۶/صفر ۱۳۵۲؁ھ میں حضرت قاضی ابن عباس کا وصال ہوگیا اورآرزوئے بیعت دل ہی میں رہ گئی پھر بھی آپ نے عزم راسخ کرلیا، کہ سلسلۂ نقشبندیہ کے کسی مرشد برحق ہی کے حلقۂ ارادات سے وابستہ ہوں گے،چنانچہ ۱۳۵۳؁ھ میں بریلی شریف سے حضرت قاضی علیہ الرحمہ کے عرس میں شرکت کے لیے امروہہ پہنچے،جہاں حضرت قاضی علیہ الرحمہ کے پیر بھائی مرشد برحق حضرت الحاج حافظ شاہ ابرار حسن خاں صاحب نقشبندی شاہجاں پوری علیہ الرحمہ کی زیارت سے مشرف ہوئے،روئے انور پر نظر پڑتے ہی ایسی کشش پیدا ہوئی، کہ داخل سلسلہ ہونے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور۱۷/صفر ۱۳۵۳؁ھ کو آپ کے دست حق پر ست پر بیعت کرلی، بیعت کے بعد حضرت قبلہ نے حلقہ میں بیٹھا کر تو جہالت عالیہ سے نوازا اورلطیفۂ قلب کی تعلیم فرمائی،جب تک مرشد برحق زندہ رہے،امروہہ ،علی گڑھ دہلی میں بار بار زیارت ہوتی رہی اورمعمولات نقشبندیہ کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رہا،۲/ذوالقعدہ ۱۳۷۰؁ھ کو مرشد کامل نے وصال فرمایا،تو ان کے خلیفہ ومجاز حضرت الحاج قاضی محبوب احمد عباسی نقشبندی علیہ الرحمہ کے حلقہ سے وابستہ ہوئے اورسلوک ومعرفت کے مدارج طے کرتے رہے۔(۱۰)
علاوہ ازیں سفر حرمین شریفین کے دوران جہاں حج وزیارت کی سعادتوں سے بہر ہ مندہ ہوئے،وہیں ان مقامات مقدسہ کے مقتد علماء ومشائخ کی نورانی صحبتوں سے فیضیاب ہوئے،ان اکابر مشائخ مکہ ومدینہ سے نے جہاں آپ کو جہاں صحاح ستہ اوردیگر کتب حدیث کی سند اجازت مرحمت فرمائی ،وہیں بعض مقتدر مشائخ نے اہم ادعیہ واذکار کی اجازت سے بھی سرفراز فرمایا۔
مفتی محمد سعد اﷲ مکی نے دلائل الخیرات، حزب اعظم ،قصیدہ بردہ کی اجازت اورصحاح ستہ کی سند اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر عطا فرمائی اوردلائل الخیرات وحزب اعظم وغیرہ کی وہ جلد جس میں خود برسوں انھوں نے تلاوت فرمائی تھی اورجس پر سکیڑوں نوٹ اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمائے تھے ،علامہ اعظمی کو عنایت فرمائی۔
مدینہ منورہ میں شیخ الدلائل سید یوسف بن محمد بن علی باشلی حریری مدنی نے دلائل الخیرات کی تحریری اجازت عطا فرمائی۔(۱۱)

تدریسی خدمات
دارالعلوم اسحاقیہ جودھپور
اسلامی علوم وفنون کے مروجہ نصاب درس نظامی کی تکمیل دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڈھ میں ہوئی اورزندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا،علم وفضل کے اس پیکر نورانی نے اپنی تعلیمی خدمات کا آغاز دارالعلوم اسحاقیہ جودھ پور سے کیا،آپ سے پہلے یہ ادارہ ایک چھوٹا سا مکتب تھا،مگر حضرت کی کوششوں سے درس نظامی شروع ہوا،عربی وفارسی کے متعدد درجات قائم ہوگئے اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ عروج وارتقاکے راستے پر گامزن ہوگیا، ۱۳۳۹؁ھ میں جودھ پور کے اندر ہندو ومسلم فساد ہوگیا،بہت سے معززین شہر کے ساتھ علمائے کرام بھی گرفتار کرلیے گئے،حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ کو اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگا کر حراست میں لے لیا گیا اور۱۶/جون ۱۹۳۹؁ء کو مہا راجہ امید سنگھ کی حکومت نے آپ کو جودھ پور سے شہر بد کرنے کا فیصلہ کیا،چنانچہ پولیس کی حراست میں جودھ پور سے اجمیر شریف پہنچا دیا گیا۔(۱۲)
مدرسہ حنفیہ امروہہ
حضرت قاضی محبوب احمد عباسی کی دعوت پر ۱۹۳۹؁ء کو مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ گئے اورمدرس دوم کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا،جہاں تین سال تک پورے انہماک اورذوق وشوق کے ساتھ طالبان علم نبوت کو تعلیم دیتے رہے ،اوراپنے استاذ،حضرت مولانا سعید محمد خلیل کاظمی چشتی علیہ الرحمہ مدرس اول سے استفادہ علم بھی کرتے رہے۔
تعلیم وتدریس کا مبارک شغل جاری تھا،کہ ۸/اگست ۱۹۴۲؁ء کو انگریزی سامراج کے خلاف پورے ملک میں حریت پسند وں کا عظیم احتجاج ہوا،ریل کی پٹریاں اکھاڑی گئیں اورپورے ملک میں جابجا ہنگامے ہوئے،جاپان نے کلکتہ پر بمباری کی ،جس سے متاثرہ ہوکر حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ وطن آگئے،اسی دوران ہائی کورٹ نے شیعوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اورمدرسہ محمدیہ حنفیہ ٹوٹ گیا۔(۱۳)
دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور
۱۹۴۲؁ء میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپورکے اندر ہنگامی کیفیت پیدا ہوگئی،اساتذہ مستعفی ہوگئے،حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ جامعہ عربیہ ناگپور چلے گئے جس سے اشرفیہ کا نظام تعلیم وتربیت درہم برہم ہوگیا،اسی دوران مجلس انتظامیہ کے صدر جناب محمد امین انصاری مرحوم کی دعوت پر حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی بحیثیت صدر المدرسین اکتوبر ۱۹۴۲؁ء دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور پہنچے اورپوری لگن کے ساتھ وہاں کے تعلیمی نظم ونسق کو بحال کیا،ایک سال بعد حافظ ملت علیہ الرحمہ بھی مبارکپور آگئے اورمدرس اول کے منصب پر فائز ہوگئے،حضرت علامہ اعظمی ان کے نائب کی حیثیت سے گیارہ سال تک تعلیمی وتنظیمی خدمات انجام دیتے رہے۔(۱۴)

دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد
۱۹۵۲؁ء میں حضرت علامہ اعظمی نے احمد آباد کا تبلیغی سفرکیا، جہاں مسلسل بیس تقریریں ہوئیں،آپ کے مواعظ حسنہ سے احمد آباد میں دینی وعلمی بیداری پیدا ہوئی اورایک دارالعلوم کا منصوبہ زیر غور آیا،تعلیمی کانفرس احمد آباد،نے ایک ادارہ کے قیام کا ریزرویشن بھی پاس کردیا،مگر ادارہ کا قیام عمل میں نہ آسکا، بالآخر احمد آباد کے مخلص ومتدین اصحاب نے حضرت اعظمی علیہ الرحمہ کو باصرار احمد آباد آنے کی دعوت دی، حضورمحدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کے حکم پر آپ احمد آباد تشریف لے گئے۔
اورایک کرایہ کے مکان میں دارالعلوم شاہ عالم قائم کیا اوریکم ستمبر ۱۹۵۳؁ء کو تعلیمی افتتاح فرمایا، اس ادارے کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی مساعی جمیلہ کا آغاز فرمایا، اراکین ادارہ کے اخلاص وایثار اورحضرت علامہ اعظمی کی بے لوث تعلیمی، تبلیغی اورتنظیمی سرگرمیوں کے نتیجہ میں بہت جلد یہ ادارہ گجرات کی مرکزی درسگاہ بن گیا،حضرت علامہ اعظمی ادارے کی تاسیس اوراس سلسلہ میں پیش آنے والے مصائب وآلام اورمشکلات نیز ان کی دفاعی تدبیروں کا تذکرہ اس طرح فرماتے ہیں۔
’’دن رات اس ادارالعلوم شاہ عالم کی ترقی کے لیے انتہائی جدوجہد کر کے بسم اﷲ منزل کو خرید کر اس میں دارالعلوم شاہ عالم کو منتقل کیا،خداگواہ ہے،کہ اس دینی درسگاہ کو قائم کرنے اورترقی دینے میں اتنی محنت کرنی پڑی،کہ نہ زندگی میں کبھی اس سے پہلے اتنی محنت کی تھی،نہ آئندہ کبھی ہوسکے گی،اکیلے درس وتقریر اورفتاویٰ کی خدمت انجام دینے کے علاوہ تمام گجرات کا دروہ کرکے مالیات کا فراہم کرنا،اس پر بدمذہبوں اورحاسدوں کی طرف سے بے پناہ جسمانی وروحانی تکلیفوں اوراذیتوں کا پہنچنا،یہ وہ روح فرساشدائدومصائب تھے جنہوں نے میری صحت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اورمیں قسم قسم کے امراض میں مبتلا ہوگیا،مگر میں نے اس دارالعلوم شاہ عالم کی محبت میں سب کچھ برداشت کرلیا اوربالآخر اس کو معراج ترقی پر پہنچا کر ہی دم لیا۔‘‘(۱۵)
’’بحمدہ تعالیٰ پورے گجرات کے سنی مسلمان اس دینی ادارہ سے وابستہ ہوگئے اوریہ مدرسہ گجرات کا مرکزی دارالعلوم اوراس کا آرگن ماہنامہ ’’طیبہ‘‘ گجرات میں اہل سنت کا ایک معیاری رسالہ بن گیا،مگر دارالعلوم شاہ عالم سے میری جدائی بھی میری زندگی کا ایک ایسا المناک وروح فرسانحہ ہے،جس کو تمام عمر میں فرمواش نہیں کرسکتا۔‘‘(۱۶)
حضرت علامہ اعظمی کی کاوش پہیم اورجگر سوزی سے دارالعلوم شاہ عالم عروج وارتقا کے بام بلند تک پہنچ گیا،مگر حاسدوں اورکینہ پروروں نے سازشوں کا ایسا جال بچھا دیا ،کہ آپ کے حق میں حالات بدسے بدتر ہوگئے،کمیٹی کے افراد اوردوسرے اعدادکا مقابلہ کرنا اوران کی نیچی سطح تک اتر کر جواب دینا ممکن نہ تھا،چنانچہ حالات کی نامساعدت دیکھ کر حضرت نے جنرل کمیٹی کے سامنے فروری ۱۹۵۹؁ء کو اپنا استعفا پیش کردیا اورحرمین شریفین کی روانگی کا اعلان کیا،کمیٹی نے استعفا نا منظور کردیا مگر دل ٹوٹ چکا تھا،اس لیے اپنے خون جگر سے سینچے ہوئے چمن زار علم کو۱۷/شعبان المعظم ۱۳۷۸؁ھ کو الوداع کہا۔
دارالعلوم صمدیہ بھیونڈی
احمد آباد کے تلخ تجربات نے ملازمت سے بیزار کردیا تھا اورآپ نے ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا،مگر سفر حج سے واپسی کے بعد حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کے عرس مبارک میں شرکت کے لیے سرہند شریف گئے،آستانہ عالیۂ پر اپنے احوال وکوائف ذکر کیے،تو قلب کی حالت بدل گئی اورتدریسی کی طرف طبیعت مائل ہوگئی فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے اپنے ذوق سے سمجھ لیا،کہ غالباً یہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کا روحانی تصرف واشارہ طیبہ ہے ،چنانچہ مکان پر آیا تو دارالعلوم صمدیہ بھیونڈی کی ملازمت کا تار اورخط ملا،میں نے یہ ملازمت قبول کرلی۔‘‘(۱۷)
مارچ ۱۹۶۰؁ء کو دورۂ حدیث اوردیگر جماعت کے طلبہ کو ساتھ لے کر بھیونڈی پہنچے اوردارلعلوم صمدیہ کی مسنددرس کو زینت بخشی ،چار سال تک پوری یکسوئی کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،بھیونڈی ،بمبئی اوراطراف وجوانب میں تبلیغی دورے بھی ہوتے رہے،عوامی سطح پر بھی کافی پذیرائی ہوئی،چاہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ بن گیا ،مگریہ ادارہ شخص واحد کا ذاتی ادارہ تھا،اس کی مرضی ومنشا کے مطابق ہی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہوسکتا تھا،حضرت علامہ کی غیور طبیعت کے لیے یہ ماحول سازگار نہ آسکا، چنانچہ دارالعلوم صمدیہ سے مستعفی ہوگئے۔
مدرسہ مسکینہ دھوراجی
دارالعلوم صمدیہ ترک کرنے کی خبر عام ہوئی تو دھوراجی کے مخلصین جو بہت دنوں سے حضرت اعظمی علیہ الرحمہ کے متمنی تھے، انھیں سنہرا موقع ہاتھ آگیا’’مدرسہ مسکینیہ‘‘ دھوراجی کے سکریٹری الحاج سے سیٹھ اسماعیل پوٹھیا والے کا تارآیا اورمولانا الحاج حکیم علی محمد اشرفی نے نامہ شوق تحریر کیا،چنانچہ دھوراجی پہنچ کر یکم اپریل ۱۹۶۴؁ء کو مدرسہ مسکینیہ میں درس کا افتتاح فرمایا۔
دارالعلوم مسکینیہ حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ کی تشریف آوری سے چالیس سال قبل قائم ہوچکا تھا،جس کی مسند تدریس پر اکابر علمائے اہلسنت مثلاً شیر پیشہ اہلسنت حضرت مولانا حشمت علی علیہ الرحمہ،حضرت مولانا عبد العزیز خاں فتح پوری علیہ الرحمہ جلوہ افروز ہوچکے تھے، مگر ادارے کی کوئی نجی عمارت نہ تھی، مسجدوں میں تعلیم وتعلم کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا، حضرت علامہ اعظمی رحمتہ اﷲ علیہ کو قدرت نے علم وفضل کے ساتھ تنظیمی صلاحیت اوررابطہ عامہ کی بھر پورقوت عطا فرمائی تھی، چنانچہ ادھوراجی پہنچنے کے بعد مدرسہ مسکینیہ کے ذاتی عمارت کی فکر ہوئی ،آپ نے حضرت مولانا الحاج حکیم محمد علی صاحب اشرفی کے ہمراہ ہمدرد قوم وملت سیٹھ الحاج یوسف غنی ماکڑا صاحب سے ملاقات کی اورادارے کی ذاتی عمارت کی ضرورت پیش کی،چنانچہ آپ کے پر خلوص خواہش کا احترام کرتے ہوئے سیٹھ صاحب موصوف نے اپنی ایک وسیع بلڈنگ جو محلہ پالا واڑ میں حضرت لدھا شاہ بابا کی درگاہ کے متصل تھی،مدرسہ مسکینیہ کے لیے وقف کردی ،مدرسہ اس بلڈنگ میں منتقل کردیا گیا۔
تین سالہ دوران قیام ادارہ دن دونی رات چوگونی ترقی کرتا رہا،پورے علاقے میں تبلیغ واشاعت دین کا کام بھی بڑے پیمانے پر ہوتا رہا،آپ کے مواعظ حسنہ سے لوگوں میں دینی بیداری پیدا ہوئی اورآپ کی مقبولیت اورہر دل عزیزی عام ہوگئی، مگر والد گرامی نے اپنی خراب صحت اوربیماری کا ذکر کرتے ہوئے حکم دیاکہ وطن سے قریب ہی کسی ادارے میں تدریسی خدمات انجام دی جائیں،چنانچہ دھوارجی کو خیر آباد کہا۔(۱۸)
دارالعلوم منظر حق ٹانڈہ
دارالعلوم منظر حق ٹانڈہ سے دعوت نامہ موصول ہوا،چونکہ یہ شہر گھوسی سے قریب تھا،آمدروفت کے ذرائع بھی اچھے تھے،اس لیے حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ نے دعوت قبول کرلی اور۲۷/فروری ۱۹۶۷؁ء کو’’ منظر حق ‘‘میں درس کا آغاز فرمایا ،اس وقت ادارہ زبوں حالی کا شکار تھا،اراکین میں رسہ کشی جاری تھی،تعلیمی وتنظیمی ڈھانچہ درہم برہم ہوچکا تھا ،حضرت علامہ اعظمی نے ادارے کی از سر نو تعلیمی وتنظیمی شیراز بندی کی شعبۂ مالیات کو مستحکم کیا،اساتذہ کی تعداد بڑھائی ،بیرونی طلبہ کے خور دنوش کا انتظام کیا ،پھر ادارہ پوری شان وشوکت کے ساتھ آگے بڑھنے لگا،عمارت میں توسیع بھی ہوئی اوردورۂ حدیث بھی قائم ہوگیا، تقریباً دس سال تک اس ادارے کی مسند درس وافتاً کو زینت بخشی اورپورے عالمانہ وقار ووجاہت کے ساتھ درس وتدریس کا شغل جاری رہا۔(۱۹)
دارالعلوم فیض الرسول براؤں
۶/ربیع الاول ۱۳۹۷؁ء مطابق ۲۵ /فروری ۱۹۷۷؁ء کو شیخ العلماحضرت علامہ غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ کا وصال ہوگیا اوردارالعلوم فیض الرسول کی مسند درس حدیث خالی ہوگئی، وہاں کے ذمہ داروں کو ایک ایسی باوقار ،بلندپایہ علمی شخصیت کی ضرورت تھی جو حضرت علامہ غلام جیلانی اعظمی علیہ الرحمہ کے خلا کو پر کرسکے ،نگاہ انتخاب حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ پر پڑی اورادارہ کے ارباب اقتدار نے رابطہ قائم کیا،حضرت علامہ اعظمی نے دعوت قبول کرلی اورمنظر حق سے مستعفی ہوکر دارالعلوم فیض الرسول کا رخ کیا اورشیخ الحدیث کی مسند کو زینت بخشی اور۱۹۸۵؁ء تک براؤں شریف کے علمی وروحانی ماحول میں فرائض منصبی انجام دیتے رہے۔(۲۰)
وصال
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی زندگی کے آخری چند برسوں میں امراض واسقام کا نشانہ بن گئے تھے، علاج ومعالجہ کے باوجود صحت گرتی چلی گئی ،مگر شدید علالت کے زمانہ میں بھی تدریس وتصنیف کا شغل برابر جاری رہا،وفات سے کچھ مہینوں پہلے علاج اورآرام کی غرض سے مکان آگئے مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی بیماری شدت اختیارکرتی رہی،ضعف ونقاہت میں اضافہ ہوتا رہا، ساری تدبیریں رائگاں گئیں بالآخر ۵/رمضان المبارک ۱۴۰۶؁ھ مطابق ۱۵/مئی۱۹۸۵؁ء بروز جمعرات بوقت عصر علم وفضل کا مہر درخشاں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔(۲۱)
مسند تدریس سوگوار ،منبر خطابت خاموش اوربزم تصنیف وتالیف ماتم کدہ بن گئی،علمی ودینی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ،چہرے مغموم ،آنکھیں اشکبار اورسینے درد وعالم سے بھر گئے۔
زمانہ بہت غور سے سن رہا تھا
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
۶/رمضان المبارک بعد نماز جمعہ اس پیکر علم وہنر کا جنازہ ہزاروں سوگواروں نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا،تلمیذ رشید حضرت علامہ قمر الدین صاحب قمر اشرفی مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی اورآفتاب علم ودانش کو آبائی قبرستان کے قریب ان کی ذاتی زمین میں دفن کردیا گیا۔(۲۲)
تلامذہ
حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ نے تکمیل علم کے بعد تقریبا ً نصف صدی ملک کے مختلف عظیم دینی مدارس وجامعات میں تدریسی خدمات انجام دیں، وہ درس نظامی میں شامل جملہ علوم وفنون میں مہارت تامہ رکھتے تھے،فقہ، حدیث،تفسیر،معقولات اورشعر وادب ہر فن میں انھیں یدطولیٰ حاصل تھا،منطق، فلسفہ کی ژولیدہ بحثیں ہوں یا عقائد وکلام کے مشکل مسائل، فقہ کی گھتیاں ہوں یا حدیث وقرآن کی تعبیر وتفسیر یا ادب وشعر کی باریکیاں ،وہ ان مقامات کی تفہیم سے اس طرح عہدہ بر آہوتے ،کہ متوسط بلکہ ادنی ذہن رکھنے والا طالب علم بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیتا اوردرس کے تمام اشکال وابہام کو اس خوبی کے ساتھ دفع فرماتے ،کہ طلبہ کو مکمل اشراح ہوجاتا،اثنائے درس، طرز کلام سنجیدہ، متین اور پروقار ہوتا،مسائل ومباحث کی تشریح وتعبیر اوراعتراضات کے جوابات انتے شافی ہوتے،کہ ہر ایک طالب علم مطمئن ہوجاتا،ذہن کے کسی گوشہ میں شک وریب کا شائبہ تک نہیں رہتا،تبحر علمی کے ساتھ تعلیمی نفسیات کا ملکہ بھی قدرت نے عطا فرمایا تھا،جس سے انھوں نے کام لیا،حلقہ درس سے وابستہ ہونے والے طلبہ آپ کے انداز تعلیم وتدریس پر فریفتہ وشیفتہ رہتے۔یہی وجہ ہے کہ جب نامساعد حالات میں ایک درسگاہ سے دوسری درسگاہ کا رخ کرتے تو سابق درسگاہ کے بیشتر طلبہ آپ کے ہمراہ ہوتے،آج بھی ان کی درسگاہ سے فیض یاب پانے والے علما بیان کرتے ہیں ،کہ حضرت الاستاذ علامہ اعظمیٰ نے جن ادق اورمشکل مقامات درس کی توضیح عام فہم زبان میں فرمائی ،وہ آج تک قلب ودماغ میں نقوش سنگ کی طرح محفوظ ہے۔
حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ اپنے معاصر نابغۂ روزگار علماء وفضلا کی جماعت میں نمایاں مقام رکھتے تھے، آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک طالبان علوم اسلامیہ کی تعلیم وتربیت ایک ماہر فن استاذ کی حیثیت سے فرمائی اورآپ کی درسگاہ سے بڑے بڑے علما فارغ التحصیل ہوئے جو آگے چل کر وقت کے فقیہ،شیخ الحدیث، معتبر خطیب، بالغ نظر مفکر اورصاحب قلم مصنف ہوئے،جو ہندوبیرون ہنددین کی تبلیغ اوراشاعت علم کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں ،چند اہم مشاہیر تلامذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
۱۔ بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان صاحب قبلہ اعظمی شیخ الحدیث جامعہ شمس العلوم گھوسی ،مؤ۔
۲۔ حضرت علامہ قمر الدین صاحب قبلہ اشرفی، سابق صدر المدرسین جامعہ شمس العلوم گھوسی مؤ۔
۳۔ حضرت مولانا مجتبیٰ اشرف صاحب کھچو چھوی۔
۴۔ حضرت مولانا قدرت اﷲ صاحب۔
۵۔ قبلہ شیخ الحدیث تنویر الاسلام امرڈو بھابستی۔
۶۔ حضرت مولانا سید احمد شاہ صاحب بخاری مفتی اعظم کچھ گجرات۔
۷۔ حضرت مولانا حفیظ اﷲ شاہ صاحب صدر مدرس احسن المدارس جدید کانپور۔
۹۔ حضرت مولانا اشہباز انور صاحب صدر مدرس احسن المدارس قدیم کانپور۔
۱۰۔ حضرت مولانا امین الدین صاحب صدر مدرس دارالعلوم مظفر العلوم جعفر آباد۔
۱۱۔ حضرت مولانا مفتی بدر الدین صاحب علیہ الرحمہ شیخ الحدیث دارالعلوم غوثیہ پڑھیا۔
۱۲۔ حضرت مولانا قاری رضاء الحق خطیب وامام میمن مسجد کراچی پاکستان۔
۱۳۔ حضرت مولانا محمد ابو اللیث صاحب اعظمی صدر المدرسین مظہر الاسلام گر سہائے گنج فرخ آباد۔
۱۴۔ حضرت مولانا خلیق احمد صاحب صدر المدرسین جامعہ حنیفہ بحر ڈیہہ بنارس۔
۱۵۔ حضرت مولانا اشرف صاحب مہتم دارالعلوم فیض رضا بہاولپور پاکستان۔
۱۶۔ حضرت مولانا مفتی محمد یاسین صاحب کراچی پاکستان۔
۱۷۔ حضرت مولانا نسیم بستوی۔
۱۸۔ حضرت مولانا فیض الحق صاحب صدر المدرسین فیض العلوم محمد آباد گوہنہ۔
۱۹۔ حضرت مولانا شمیم احمد صاحب استاذ منظر حق ٹانڈہ ۔
۲۰۔ حضرت مولانا حضور احمد منظری صاحب
۲۱۔ حضرت مولانا محمد اطہر منظری صاحب(۲۳)
ازدواج اولاد
دادوں کے دوران تعلیم شعبان ۱۳۵۶؁ھ میں ماموں کی صاحبزادی محترمہ صالحہ خاتون سے عقد ہوا جن کے بطن سے دو صاحبزادے مولانا غلام رسول اعظمی ،مولانا فضل رسول اعظمی اور چار صاحبزادیاں محترمہ زبیدہ خاتون، حامدہ خاتون ،عارفہ خاتون مرحومہ ،فاطمہ خاتون تولد ہوئے۔(۲۴)
اخلاق وعادات
حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ نے ایک غریب مگر سنجیدہ خانوادے میں آنکھ کھولی تھی،صالح والدین کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے ،ملک کی مقتدر علمی شخصیتوں سے اکتساب علم وفضل کیا زمانہ طالب علمی ہی میں سلسلہ نقشبندیہ میں مرید ہوئے اوراس سلسلۂ طریقت کے اور ان اشغال کے عادی بن گئے، یہ وہ چیزیں تھی جن کی بدولت آپ شرافت اورحسن اخلاق کا پیکر بن گئے،حددرجہ غیور اور خودار ہونے کے باوجود لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے،دوران ملازمت بعض اداروں میں حالات کشیدہ ہوئے تو معرکہ کارزار گرم کرنے کے بجائے ادارے سے علاحدگی اختیار کرلی اورادارے کو نزع وخصوصیت کی آگ میں جلنے سے بچالیا، حددرجہ بے باک اورحق گو واقع ہوئے تھے۔
کسی سے کبھی مرعوب نہ ہوتے، اہل دول کی پرواہ نہ کرتے،جو بات سچ سمجھتے دوٹوک ارشاد فرما دیتے، پھر بھی حتی الامکان لوگوں کی کی دلاآزاری سے بچتے اوربلاوجہ کسی کو ناراض نہ کرتے۔
سنجیدہ ظرافت آپ کے خمیر میں شامل تھی،کسی بھی مجلس میں ہوتے اپنے پر لطف انداز بیان اورشگفتہ لطیفوں سے پوری محفل کو زعفران بنا دیتے،حسن گفتار اورحسن کردار کی وجہ سے ملک کے گوشہ گوشہ میں آپ کے قدر دانوں کی ایک بہت بڑی جماعت پائی جاتی ہے۔(۲۵)
مواعظ
حضرت علامہ اعظمی علیہ الرحمہ ایک بلند پایہ مدرس اورمصنف ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم خطیب مقرر بھی تھے،وعظ وتقریر کا حلقہ بہت وسیع تھا ،ہندوستا ن کاشاید کوئی مشہور شہرو قریہ ہو جہاں آپ نے باربار بفرض وعظ سفر نہ فرمایا ہوا،اپنے وقت کے مشاہیر خطباکی فہرست میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔
جب کرسی خطابت پر جلوہ افروز ہوتے تو پورے اجتماع پر آپ کی جسمانی وجاہت اورعلمی وقار گلستہ کا رعب چھا جاتا،لہجہ کی نرمی اورتکلم کی شیرینی پوری فضا میں رس گھول دیتی، ہر شخص ہمہ تن گیر گوش بن جاتا برجستہ وبے تکلف الفاظ میں قرآن وحدیث اورشریعت وطریقت کے لطیف اسرار ورموز اس انداز میں پیش کرتے کہ سامعین بڑے بڑے اہم دینی مسائل ومباحث اورشرعی نکات کو بخوبی سمجھ لیتے ۔
آیات قرآنیہ ،احادیث نبویہ سے تقریر کو پرمغز اورمدلل بنا دیتے اوردرمیان تقریر موقع ومحل کے مطابق اشعار اتنے وجد آفریں اورسحر انگیز انداز سے پڑھتے کہ پورا مجمع کیف وسرمستی میں جھوم اٹھتا۔(۲۶)
تصنیف وتالیف
حضرت علامہ اعظمی نے درس وتدریس ،وعظ وتقریر کے علاوہ اپنے گراں قدر رشحات قلم بھی یادگارچھوڑے ہیں،۱۳۸۳؁ء سے ۱۴۰۶؁ء تک پچیس اہم کتابیں تصنیف فرمائیں ،جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۷۷۱۵ ہے،جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔(۲۷)
اسلوب اورطراز داکے لحاظ سے تمام تصانیف یکساں ہیں، جو مصنف کے قلم کی پختگی اورمخصوص انداز تحریر کی علامت ہے،اہم سے اہم دینی مباحث ہوں یا علمی مسائل ہر جگہ انتہائی سلامت وروانی کے ساتھ اشہب قلم رواں دواں ہے،تکلف وتضع سے عبارت پاک ہوتی ہے،آورد کاشائبہ نہیں،آمد ہی آمد ہے،ثقیل ،نادر الفاظ اورطویل جملوں سے قاری پر اپنی عالمانہ وجاہت کا رعب بیٹھانے کے قائل نہیں،بلکہ عام فہم الفاظ مختصر دلنشیں جملوں اورمتین وسنجیدہ سے ترسیل وابلاغ کا بھر پور کام لیتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں علامہ اعظمی کی تمام کتابیں پر علاحدوہ سیر حاصل گفتگوممکن نہیں،ذیل میں مختلف موضوعات کے تحت آپ کی مصنفات کا اجمالی تعارف پیش کیا جاتاہے۔
روحانیات
علامہ اعظمی کی کتابوں ہی میں اخلاقیات وتصوف کے موضوع سے متعلق مباحث ومسائل ملتے ہیں،مگر ذیل کی کتابیں خاص طور پر روحانیات کے موضوع پر لکھی گئی ہیں،جن میں تصوف کے مسائل، اذکارو اعمال، حکایات ترغیب وترہیب کے ذریعہ مسلم معاشرے کی روحانی واخلاقی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دیا گیاہے۔
موسم رحمت
یہ ۴۸/صفحات پر مشتمل ایک مختصر اورجامع رسالہ ہے، جو ۱۳۸۳؁ھ میں لکھا گیاہے، جس میں ایام اﷲ کا ذکر اوران کے فضائل اورروز وشب میں مقبول اعمال وادعیہ کو بیان کیا گیاہے۔
معمولات الابرار
یہ کتاب ۱۳۸۳؁ھ میں لکھی گئی ،جو ۱۹۲صفحات پر مشتمل ہے ،کتاب کا موضوع تعارف وسلوک ہے،جس میں علم باطن ،شریعت ،طریقت، ولایت، کرامت پیری مریدی، فضائل ذکر، مراقبہ، تصور شیخ جیسے اہم مسائل تصوف کو سیدھے سادے انداز میں بیان کیاگیاہے، تصوف کے منکرین کی باطل فکر اورجاہل صوفیوں کی رو ش سے الگ ہٹ کر مثبت انداز فکر ونظریہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
روحانی حکایات حصہ اول دوم
حصہ اول صفحات ۱۳۹۰/۲۲۴؁ھ حصہ دوم صفحات ۱۳۹۱/۳۱۲؁ھ صفحات کی مجموعی تعداد ۵۳۵/ہے، اس کتاب میں علمیات، اخلاقیات، کرامات، تفریحات، عجائبات، مجاہدات، عبادات جیسے عنوانات کے تحت دلچسپ اورفکر انگیز واقعات وحکایات درج کی گئی ہیں اوران سے سبق آموزنتائج اخذ کئے گئیں ہیں جو قاری کی اخلاقی تربیت کے لیے بہت موثر ہیں۔
مشائخ نقشبندیہ
یہ مختصر رسالہ ۸۴/صفحات پر مشتمل ہے،جو ۱۳۸۵؁ھ میں لکھا گیا ہے،حضرت علامہ اعظمی سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے اوراس کی اجازت وخلافت بھی حاصل تھی،اس رسالہ میں سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت تھے اوراس کی اجازت وخلافت بھی حاصل تھی،اس رسالہ میں سلسلۂ نقشبندیہ کے اکابر مشائخ کا مختصر مگر جامع تذکرہ کیا گیاہے، حضورﷺ سے لے کر اپنے مرشد برحق حضرت الحاج حافظ ابرار حسن صاحب رحمتہ اﷲ علیہ تک کے احوال وکوائف تحریر کیے ہیں،مشائخ نقشبندیہ کی دینی علمی روحانی خدمات کا اجمالاً ذکر کیاہے۔
کرامات صحابہ
یہ کتاب ۱۳۹۸؁ھ میں سپر د قلم کی گئی ،دوسو چالیس صفحات پر مشتمل ہے،جس میں ایک سومقتدر صحابہ کرامؓ کے مقدس حالات اوران کے کمالات کا تذکرہ کیا گیاہے، کتاب کے مطالعے سے صحابہ کرام کے روحانی اوصاف کا نقش قاری کے قلب ودماغ پر ثبت ہوتاہے، کتاب کی ابتداء میں کرامات کی تحقیق ،معجزہ اورکرامت کی حقیقت ،اقسام کرامت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
آئینہ عبرت
یہ کتاب ۱۴۰۶؁ھ میں لکھی گئی،صفحات کی تعداد ایک سو سولہ ہے،یہ کتاب عبرت ونصیحت کی غرض سے تحریر کی گئی ہے،واقعات بڑے ہی دل گداز اورنصیحت آموزہیں،جن کے مطالعے سے خوف آخرت اورطلب حق کا جذبہ پیدا تاہے۔
حدیث ورجال
علامہ اعظمی نے تقریباً چالیس سال تک علم حدیث کا درس ہندوستان کے مختلف معیاری اداروں میں دیا اورعلمی دنیا میں شیخ الحدیث کے لقب سے مشہور ہوئے،مولانا نے اپنی متعدد کتابوں میں قرآن وحدیث اوراقوال سلف کی روشنی میں اسلامی تعلیمات واحکام کی وضاحت وتشریح کاکام بڑی خوبی کے ساتھ کیاہے،حدیث نبوی کے متعدد مجموعے ترتیب دیے،جن میں متن حدیث اورانکے ترجمے بڑے ہی دلنشین، موثر لب ولہجہ اورصاف وشستہ زبان میں تحریر کیے ہیں، اسلو ب نگارش غایت درجہ پاکیزہ اور جاذب نظر ہے ،وضاحت حدیث میں لفظوں اورجملوں کی بازی گری کے بجائے سادہ اورپرتاثیر انداز بیان اختیار کیا گیاہے۔
نوادرالحدیث
یہ مجموعۂ احادیث ۱۳۹۴؁ھ میں مرتب کیا گیاجو ۲۸۸/ صفحات پر مشتمل ہے،اس مجموعے میں چالیس حدیثوں کا ترجمہ اوراس کی بلیغ شرح کی گئی ہے،جس میں ایمانیات واسلامیات کے موضوع پر موثر دلنشین حدیثیں پیش کی گئی ہیں،آغاز کتاب میں افادۂ عام کی غرض سے مصطلحات حدیث دین میں’’حدیث کا مقام‘‘ کے عنوان سے جامع معلومات فراہم کی گئی ہیں،اورحدیث کے ذیل میں راوی حدیث کا مختصر تعارف اورحدیث سے حاصل ہونے والے فوائد ومسائل کا اجمالاً ذکرکیا ہے،حدیث کے مشکل الفاظ کی تشریح وتوضیح بھی کی ہے۔
جواہر الحدیث
یہ کتاب ۱۳۹۸؁ھ ۱۲۰/صفحات کی تعداد ۳۱۲/ہے،کتاب ہذا کے خاص مباحث علمیات، عملیات، سیاسیات،معجزات اورکرامات ہیں،جن کے ذیل میں مستند احادیث کا انتخاب پیش کیا گیاہے، اوران سے متعلق وضاحتی نوٹ درج کیے گئے ہیں،حدیث کا مجموعہ ۱۴۰/ عنوانوں پر دو سوسے زائد حدیثوں مع تشریحات وتبصرہ ،فوائد مسائل کے رنگا رنگ گلہائے مضامین کا ایک حسین گلستہ ہے۔
قیامت کب آئے گی
یہ کتاب ۱۳۹۸ھ۱۲۰ / صفحات میں قلمبند کی گئی،کتا ب میں ۔۵۰/عنوانوں کے تحت علامات قیامت سے متعلق ۵۰/ حدیثوں اوران کے تراجم وتشریحات لکھے گئے ہیں ،کتاب کے مطالعہ سے قاری کی نگاہوں کے سامنے آثارقیامت اورواقعات قیامت گردش کرنے لگتے ہیں،جولوگ قیامت سے جاہل یا شکوک وشبہات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ان نشانیوں کے ذریعہ صراط مستقیم پر آجائیں گے،اوران کے اند ر طلب خیر اورعمل صالح کا جذبہ بیدار ہوگا،قیامت کی آمد اوراس کے مناظر،میزان، صراط، جنت ودوزخ ،شفاعت جیسے عنوانات پر جامع معلومات پیش کی گئی ہیں۔
بہشت کی کنجیاں
۱۴۰۰؁ھ میں یہ کتاب لکھی گئی جس میں ۲۴۰/ صفحات ہیں،اس مجموعۂ احادیث کے متعلق علامہ اعظمی رقم طراز ہیں
’’یوں تو ہر نیک عمل جنت میں لے جانے والا عمل ہے،مگر بعض ایسے نیک اعمال بھی ہین جن پر خصوصیت کے ساتھ اﷲ ورسول جل جلالہ کی طرف سے جنت کا وعدہ اوربہشت کی خوشخبری دی گئی ہے،چنانچہ اسی قسم کے اعمال حسنہ میں سے چن چن کر ساتھ عملوں کو حدیثوں سے منتخب کرکے جمع کردیاہے،اوران ساٹھ اعمال کو عنوان بنا کر ہر عنوان کے تحت ان اعمال کے فضائل میں چند احادیث نقل کردی ہیں،پھر ہر عنوان کے آخر میں تشریحات وفوائد لکھ کر حدیثوں کی وضاحت کرتے ہوئے ضروری مسائل کی بھی توضیح کردی ہے۔
آغاز کتاب میں جنت ،باغات جنت، جنت کی حوریں ،جنت کے احوال وکوائف سے متعلق مفید معلومات جمع کردی گئی ہیں۔
جہنم کے خطرات
۱۴۰۰؁ھ میں ضبط قلم کی گئی ،صفحات کی تعداد ۱۶۸/ہے، علامہ اعظمی علیہ الرحمہ نے اس کتاب میں ستر ایسے گناہوں اوراعمال بدکا تذکرہ ہے ، جن کا ارتکاب بند ے کو جہنم میں لے جاتاہے، ہر عنوان کے تحت چند حدیثیں تحریر کی ہیں،جابجا قرآن حکیم کی آیات بینات بھی درج کی ہیں،اورعنوان کے آخر میں مسائل وفوائد کے تحت احادیث سے مستبط مسائل اوراس گناہ کا شرعی حکم بیان کیاہے،آغاز کتاب میں جہنم کی حقیقت، طبقات جنہم اوراحوال جہنم کا مختصر مگر جامع بیان بھی سپر د قلم کیاہے۔
اولیائے رجال الحدیث
۱۲۸۵؁ھ میں تحریر کی گئی ،صفحات کی تعداد ۳۴۴/ہے۔علامہ اعظمی نے اس کتاب میں دو سو ایسے محدثین وفقہا کا تذکرہ لکھاہے جو دنیائے علم وفضل کے اندر قرآن و حدیث وفقہ کلام میں عظمت ورفعت کے ساتھ ساتھ روحانیت وسلوک کے بلند مرتبہ پر بھی فائز تھے،وہ علم وعمل، زہد وتقویٰ کے ایسے روشن چراغ تھے،جن سے شریعت وطریقت کی ہزاروں شمعیں فروازں ہوئیں،رجال حدیث وفقہ کے حالات علمی ودینی خدمات اورا ن کے کشف وکرامات کو مستند حوالوں کی روشنی میں پیش کیا گیاہے،اختصار وجامعیت کے باوجود یہ کتاب بہت اہم اورنہایت مفید ہے،ا س کتاب کی تصنیف کا مقصد عوام میں پھیلی ہوئی اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ علماء وفقہا صرف علم ظاہر کے رمز شناس ہوتے ہیں،بحر معرفت کے شناور نہیں ہوتے اس طبقے کو علم ظاہر سے سروکار ہوتا ہے،علم باطن کے حرف شناس نہیں ہوتے۔
کتاب کے اندر مستند حوالوں سے یہ بات منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے،کہ عوام ظن فاسد کا شکار ہوگئے ہیں،حقیقت یہ ہیں کہ صف محدثین ومجتہدین میں بھی باکمال اولیا اورصاحب باطن بزرگ گزرے ہیں ،بلکہ تمام علمائے حق سلوک ومعرفت کے بلند مقام پر فائز تھے،ان کی متبع سنت ذات اورعظیم علمی ودینی خدمات بجائے خود اہم کرامتیں ہیں۔
قرآنیات
علامہ اعظمی علیہ الرحمہ ایک متبحر عالم تھے ،انھیں علوم اسلامیہ میں بالخصوص قرآنیات وتفسیر،حدیث وفقہ میں کامل درک تھا،زمانۂ طالب علمی میں ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی تفسیر لکھنے پر دارالعلوم حافظیہ میں انعام واکرام سے سرفراز کیے گئے تھے،آپ کے سلسلۂ تصانیف میں قرآنیات پر بھی تین اہم کتابیں ہیں۔
عجائب القرآن
یہ کتاب ۱۴۰۱؁ھ میں لکھی گئی ،جو ۲۹۶/ صفحات پر مشتمل ہے،جس میں قرآن کے اندر عجائبات سے متعلق آیات کا ترجمہ ،تفسیر اورمناسب تشریح کی گئی ہے، علامہ اعظمی لکھتے ہیں۔
’’اس مجموعہ میں قرآن شریف کی مختلف سورتوں سے چن کر ۶۵/ ان عجیب عجیب چیزوں اورتعجب خیز اورحیرت انگیز واقعات کو جن کا قرآن مجید میں مختصر تذکرہ ہے نقل کرکے ان کے مناسب تفصیل وتوضیح کردی ہے اوران واقعات کے دامنوں میں جو عبرتیں اورنصیحتیں چھپی ہوئی ہیں،ان کو بھی درس حکایت کے عنوان سے پیش کردیاہے۔
غرائب القرآن
۱۴۰۲؁ھ میں ضبط تحریر میں لائی گئی، صفحات کی تعداد ۲۰۰/ ہے،یہ کتاب عجائب القرآن کا دوسرا حصہ ہے،جس کے اندر قرآن میں مذکور عجائب وغرائب سے متعلق آیات کریمہ کا ترجمہ، تفسیر ، شان نزول ،نکات ،درس ہدایت موثر انداز بیان میں تحریر کیے گئے ہیں۔
مسائل القرآن
یہ کتاب ۱۴۰۵؁ھ میں لکھی گئی جو ۴۰۰/صفحات پر مشتمل ہے،اس کتاب میں توحید،رسالت، امامت، معاشرت، سلطنت وحکومت ،اخلاق وآداب اورزمانۂ حال میں پیداشدہ مسائل کا حل قرآن مجید کی آیتوں سے پیش کیا گیاہے،۲۸/ابواب کی شاہ سرخیوں کے تحت ۲۳۰/عنوانوں اور۵۰/قرآنی آیات کی روشنی میں ثابت کیا گیاہے۔
فقہیات
علامہ اعظمی حدیث وتفسیر کی طرح فقہ میں بھی کمال رکھتے تھے،احمد آباد،بھیونڈی، دھوارجی کے دوران قیام تدریس کے ساتھ افتا کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتے تھے،یہ اوربات ہے کہ آپ شیخ الحدیث کی حیثیت سے متعارف ہوئے ،آپ کے القاب میں فقیہ اورمفتی لکھنے کا رواج عام نہیں ہوا،تاہم وہ ایک اچھے فقیہ اورمعتبر مفتی تھے،ان کے فتادے کا مجموعہ موجود ہے،کاش چھپ کر منظر عام پر آجائے توان کی فہقی بصیرت طشت ازبام ہوجائے،علامہ اعظمی کی متعدد کتابیں میں فقہی مسائل اورجزئیات ضمناً آئے ہیں جنتی زیور اورسامان آخرت ان کی مستقل فقہی تصانیف ہیں۔
جنتی زیور
یہ کتاب شوال ۱۳۹۹؁ھ میں سپر د قلم کی گئی،صفحات کی تعداد ۷۳۶/ہے،یہ کتاب عوام بالخصوص خواتین کے لیے لکھی گئی ہیں،جو صحیح ومعتمد مسائل اوربہترین آداب وخصائل کے ساتھ ساتھ فہرست خیز نصیحتوں اوررقت انگیز واقعات کا لاجواب مجموعہ ہے، عورتوں کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اس کتاب میں مرقوم ہے اورمسلمانوں عورتوں کی دینی ودنیاوی ضرورتوں کے متعلق ضروری معلومات ومسائل اورفقہی احکام درج ہیں،معاملات اخلاقیات ،رسومات ، ایمانیات، عبادات، اسلامیات، تذکرہ وصالحات ،متفرق ہدایات ،عملیات اورمیلاد ونعت جیسے مرکزی عنوانوں کے تحت ضروری ہدایات اوراسلامی مسائل وخصائل کا بیش بہاخزانہ ہے۔
سامان آخرت
یہ کتاب ۱۴۰۵؁ھ میں لکھی گئی ،صفحات کی تعداد ۵۰۴/ہے،کتاب ہذا فقہ میں حضرت علامہ کی مستقل تصنیف ہے،جس کے اندر عقائد، طہارت، نماز ،زکوٰۃ، روزہ، حج وزریات، نکاح، حقوق، رزق حلال، اسلامی معاشرہ جیسے خاص عنوانات کے ذیل میں شرعی احکام ومسائل کثیر تعداد میں درج کیے گئے ہیں،نوجوان طبقہ کے لیے کچھ ایسی مخصوص ہدایات اورخاص نصیحتیں بھی لکھی گئی ہیں ،جنہیں پڑھ کر وہ اپنی زندگی کو اخلاقیات وروحانیت کے سانچے میں ڈھالیں،آخر میں ’’علمائے سلف کی عبادتیں‘‘ کے عنوان سے ۷۵/بزرگان دین کی عبادت وریاضت کے ایمان افروز واقعات تحریر کیے ہیں،جنہیں پڑھ کر قاری کے دل میں اﷲ رب العزت کی اطاعت وبندگی کا جذبہ بیدار ہوتاہے۔
سیرۃ المصطفیٰ
یہ کتاب ۱۳۹۶؁ھ میں سپر د قلم کی گئی ہے،صفحات کی مجموعی تعداد ۸۹۶/ہے، سیرۃ النبی کے موضوع پر اردو میں بہت سی کتابیں لکھی ،جو سیرت نبوی کے تمام اہم لوگوں گوشوں کو روشنی میں لاتی ہے،یوں تو طویل ومبسوط کتب سیرت کے زمرہ میں یہ کتاب مختصرہے مگر اختصار کے باوجود قاری کو سیرت نبوی کے تمام پہلوؤں سے روشناس کرتی ہے،طرز بیان سادہ اوردلکش ہے،حالات وواقعات کو بڑی خوبی کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے،عوام اورمتوسط اردوخواں طبقہ کے لیے انمول تحفہ ہے۔
سلسلہ خطبات
حضرت علامہ اعظمی ایک بے نظیر خطیب تھے ،درس وتدریس کے علاوہ ہندوستان کے طول و عرض میں تبلیغی دورے ہوتے ،آپ کے پر مغز ،مدلل ،دلآویز خطبات ومواعظ سے ہزاروں مسلمانوں نے صلاح وتقویٰ کی زندگی اختیار کی اورسکیڑوں افراد نے بد عقیدگی اورگمراہی سے تائب ہوکر صراط مستقیم اختیا رکی،حضرت کے مواعظ حسنہ سنجیدہ متین لب ولہجہ میں ہوتے،لفظ لفظ سننے والوں کے دلوں میں اتر جاتا،بیان میں سلاست وروانی ،زبان سہل وسادہ،مضامین میں تسلسل ہوتا،اثر آفرینی کے لحاظ سے ’’از دل ریز بردل خیزد‘‘ کی کیفیت ہوتی ،درمیان وعظ لطائف وظرائف سے بھی کام لیا جاتا اوران سے مفید نتائج اورنکتے سامنے لائے جاتے ،یہی ساری خصوصیات آپ کے خطبات کے مجموعوں میں پائی جاتی ہیں،آپ نے بلاشبہ ہزاروں جلسوں اورمحفلوں کو خطاب فرمایا اورسامعین کے اندر ایمانی روح اوراسلامی حرارت پیدا کی،حضرت علامہ نے اپنے مواعظ کو قلمبند فرما کر آنے والی نسلوں پر زبردست احسان اندر ایمانیات،اسلامیات، روحانیات، سیرت، معاملات کے موضوع پر اگر انقدر خطبات جمع کردیے گئے ہیں۔
ایمانی تقریریں
یہ کتاب ۱۳۸۷؁ھ میں لکھی گئی ،۳۶۸/ صفحات پر مشتمل ہے،یہ حسب ذیل سات مواعظ کا مجموعہ ہے۔
ا۔ رب العالمین
۲۔ رحمتہ للعالمین
۳۔ سید المرسلین
۴۔ محبوب العارفین
۵۔ حضور العاشقین
۶۔ قرآن مبین
۷۔ بشارۃ المومنین
نورانی تقریریں
۱۳۸۸؁ھ میں ضبط تحریر میں لائی گئی، صفحات کی تعداد۳۵۲/ہے،حسب ذیل سات مواعظ درج ہیں۔
۱۔ عظمت میلاد
۲۔ تجلیات معراج
۳۔ برہان معجزات
۴۔ معرکہ حق وباطل
۵۔ اولیائے کرام
۶۔ دعوت فلاح
۷۔ فضیلت نماز۔
حقانی تحریریں
۱۳۸۹؁ھ میں ضبط تحریریں میں لائی گئیں،صفحات کی تعداد ۳۵۲/ہے،مندرجہ ذیل چھ مواعظ کا مجموعہ ہے۔
۱۔ خلق عظیم
۲۔ اسوۂ حسنہ
۳۔ خلفائے راشدین
۴۔ شہدائے کربلا
۵۔ قربانی
۶۔ غوث اعظم
قرآنی تقریریں
۱۳۹۲؁ھ میں حیطۂ تحریر میں لائی گئی، صفحات کی تعداد ۳۶۸/ ہے،حسب ذیل دس مواعظ مرقوم ہیں۔
۱۔ خداوندی جلال وجمال
۲ مغفرت کی تین شرطیں
۳۔ دربار نبوت کا ادب
۴۔ رسول کا علم غیب
۵۔ نعرہ رسالت
۶۔ بشریت مصطفی
۷۔ فلسفۂ موت۔
عرفانی تقریریں
۱۳۹۴ھ ؁ میں تحریر کی گئی ،صفحات کی تعداد ۲۹۶/ہے،جو حسب ذیل دس مواعظ پر مشتمل ہے۔
۱۔ سورہ فاتحہ کی تجلیاں
۲۔ روزازل کے دو اجلاس
۳۔ حضرت عیسیٰ قرآن کے آئینے میں
۴۔ اسباب زوال
۵۔ جنگ تبوک اورتین صحابہ
۶۔ صبحت بد سے بچو
۷۔ منافقین بے نقاب
۸۔ وجاہت کلیم اﷲ
۹۔ عید میلاد
۱۰۔ حج وزریات
شاعری
علامہ اعظمی اپنی تدریسی زندگی کیے اوائل میں شعر وسخن کی طرف مائل ہوئے،قدرت نے وقت نظم کے ساتھ فکر رسا، پر واز تخییل کا ملکہ عطا فرمایا تھا،جسے بروئے کار لاکر آپ نے ایک قادر الکام شاعر بن گئے اوراصناف شعر وسخن، نعت،غزل، قومی نظم میں کامیاب طبع آزمائی فرمانے لگے،ایک مختصر مجموعۂ کلام بھی مرتب کر لیا تھا،چھپنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ نذر آتش ہوگیا،اپنی شاعری اورسرمایہ شعر کے تلف ہونے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’مجھے زمانۂ طالب علمی میں شعر وسخن کا اچھا ذوق ہوگیا تھا،نعت شریف اورقومی نظموں کے علاوہ غزل کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتا تھا اورباقاعدہ مشاعروں میں شرکت کرتارہا، اپنے کلاموں کا ایک مختصر مجموعہ بھی مرتب کرلیا تھا ،مگر دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں میرے کمرے کے اندر آگ لگ گئی،جس میں قیمتی کتابوں کے ساتھ یہ بیاض بھی نذر آتش ہوگئی،اب دس سال سے یہ ذوق ہی ختم ہوگیا اورمیرے بعض تلامذہ کے پاس میری چند نظمیں اورغزلیں اس طرح باقی رہ گئی ہیں‘‘۔(۲۸)
کچھ بلبلوں کو یاد ہیں کچھ قمریاں کو حفظ
بکھری ہوئی چمن میں مری داستان ہے
اس حادثے کے بعد ہجوم کا ر،تدریسی وتبلیغی مصروفتیوں نے باقاعدہ شعر وشاعری کا موقع نہ دیا اوردنیائے شعر وسخن ایک ابھرتے ہوئے شاعر کی شعری کائنات سے تہی داماں رہ گئی،شعری ذوق کبھی کبھی بیدار ہوتا اوراپنے جذبات واحساسات کو شعر کے قالب میں پیش کردیتے ،مختلف تصانیف میں متعدد حمد ونعت، مناجات وقطعات اورملی نظموں کے مطالعہ سے آپ کے شاعرانہ کمالات اورمحاسن کلام کا انداز ہوتاہے۔
کلام میں برجستگی اورسلامت وروانی ہے،سیدھے سادے الفاظ میں معانی کی بلندی، فکرکی گہرائی نمایاں ہے، سوزدروں اوراخلاص وارادت کے جذبات نے کلام میں بھر پور طاقت تاثیر پیدا کردی ہے۔
حمد ومناجات میں شان کبریائی کا تقدس اورخدانے بے نیاز کے روبرو بندۂ سراپا نیاز کی نیاز مندی،نعتوں میں حب رسول اوردیار حبیب کا شوق بیکراں،اہم تلمیحات اورخصائس وفضائل محبوب کردگار کا بیان ،جذبوں کی صداقت نے کلام میں ملکی تقدس پیدا کردیاہے، ذیل میں بطور نمونہ کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔(۲۹)
حمد ومناجات
اے مرے معبود حق اے کردگار
سارے عالم کا تو ہے پروردگار
فضل سے تیرے ہی اے رب کریم
گلشن ہستی کی ہے ساری بہار
کردیا مجھ کو غلام مصطفی
ہوگیا میں دو جہاں کا تاجدار
ناز ہے اتنی سی نسبت پر مجھے
میں ہوں مجرم اورتو آمرز گار(۳۰)
نعت
در رسول سے ہرگز نہیں میں ٹل نہیں سکتا
بہشت سے بھی مرا دل بہل نہیں سکتا
مئے رسول کا ایسا سرور ہے مجھ پر
خرد کی ترشی کا جادو بھی چل نہیں سکتا
ہے تیز گام بہت ہی یہ آفتاب مگر
نہ پائے ان کا اشارہ تو چل نہیں سکتا
سیکنہ حب نبی کا ہو جس کے سینے میں
ہزار حشر ہو وہ دل دہل نہیں سکتا
کرم ہے مہر مدینہ کا اعظمیٰ مجھ پر
مرے عروج کا خورشید ڈھل نہیں سکتا(۳۱)
٭٭٭٭
سید عالم بنی الانبیا میرے رسول
اولین و آخریں کے پیشوا میرے رسول
صدر بزم انبیا مولائے کل فخر رسل
محرم اسرار حق شان خدا میرے رسول
مطلع انور رشک آفتاب و ماہتاب
نیر برج شرف نور خدا میرے رسول
جن کے قدموں سے ہے وابستہ دو عالم کی نجات
وہ امیر کارواں وہ حق نما میرے رسول
اعظمیٰ ایماں ہے رب العالمیں میرا خدا
رحمتہ للعالمین صل علی میرے رسول(۳۲)
دعا
اے خداوند جہاں اے کردگار
تیری رحمت کا ہوں میں امیدوار
گوکہ میں اک بندہ ناکارہ ہوں
بیکس و مجبور ہوں بے چارہ ہوں
تیری رحمت سے مگر دل شاد ہوں
نعمتوں کے باغ کا شمشاد ہوں
تو نے ایسا فضل مجھ پر کر دیا
رحمتوں سے میرا دامن بھر دیا
اے خدا جب تک رہیں لیل و نہار
دوجہاں میں ہو یہ میری یادگار
غنچہ امید کھل کر پھول ہو
نور کی سرکار میں مقبول ہو
آنکھ روشن پڑھ کے ہو دل سیر ہو
اور میرا خاتمہ بالخیر ہو
کر دعائے اعظمیٰ یا رب قبول
بہر اصحاب نبی آل رسول(۳۳)
٭٭٭٭
نگار طیبہ ازل سے ہے آرزو تیری
میرے وجود کا مقصد ہے جستجو میری
ترا سکوت ہے لطف و کرم کی اک دنیا
نسیم خلد کی جنت ہے گفتگو میری
مری وفات کا دن میری عید کا دن ہو
بوقت مرگ جو صورت ہو روبرو تیری
نسیم خلد نے مانگی بھیک خوشبو کی
کھلی مدینہ میں جب زلف مشکبو تیری
نہ چھوئے دامن عبدیت اعظمی ان کا
اسی سے دونوں جہاں میں ہے آبرو تیری(۳۴)
٭٭٭٭
حسن یوسف اور ہے طہ کا جلوہ اور ہے
ماہ کنعاں اور ہے مہر مدینہ اور ہے
آسماں پر گئے ادریس وعیسیٰ شک نہیں
دم میں سیر لامکاں معراج اسریٰ اور ہے
ہے خلیل اﷲ حبیب اﷲ میں فرق عظیم
شان خلت اور ہے تاج فترضی اور ہے
جتنی پھولوں کی خوشبو تو مسلم ہے مگر
نکہت گل اور ہے ان کا پسینہ اور ہے
اعظمی تھی نوح کی کشتی میں عالم کی نجات
اہل بیت پاک کا لیکن سفینہ اور ہے
یہ حالت ہے اب سانس لینا گراں ہے
مگر آپ کا نام ورد زباں ہے
کوئی جانے کیا اس کا پرچم کہاں ہے
سر عرش جس کے قدم کا نشاں ہے
یہ سارا جہاں ان کے زیر قدم ہے
کہ پامال ان کا مکاں لامکاں ہے
کف دست رحمت میں ہے سارا عالم
زمیں آپ کی آپ کا آسماں ہے
مسلم ہے ان کو خداکی نیابت
کلام خدا مصطفےٰ کی زباں ہے
نہ پوچھ اعظمیٰ منزل سر بلندی
مرا سر ہے محبوب کا آستاں ہے(۳۵)
٭٭٭٭
حاجیو! اب گنبد سرکار تھوڑی دور ہے
رحمت حق کا علمبردار تھوڑی دور ہے
ہے خریدار گنہ رحمت کا تاجر جس جگہ
عاصیو! وہ مصطفےٰ بازار تھوڑی دور ہے
عشق و مستی میں قدم آگے بڑھا کر دیکھ لو
گنبد خضریٰ کا وہ مینار تھوڑی دور ہے
اﷲ! اﷲ! وہ گلستان مدینہ مرحبا
پھول سے بہتر ہیں جسکے خار تھوڑی دور ہے
دشت طیبہ ہے یہاں چل سر کے بل اے اعظمیٰ
مصطفےٰ کا جنتی دربار تھوڑی دور ہے(۳۶)
حوالہ جات
۱۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، معمولات الابرار، مکتبہ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص۱۴۲
۲۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، کراماتِ صحابہ، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ۲۰۱۴ء، ص۲۰
۳۔ معمولات الابرار، ص۱۵۴
۴۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، منتخب حدیثیں، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ۲۰۰۹ء، ص۱۶۔۱۵
۵۔ معمولات الابرار، ص۱۵۶۔۱۵۵
۶۔ امجد علی اعظمی، صدرالشریعہ، بہارِ شریعت، مکتبہ رضوی برکاتی، انڈیا، ۱۴۰۲ھ، ج۱،ص۱۶
۷۔ ایضاً، ج۱،ص۱۷
۸۔ غلام جیلانی، اعظمی، تذکرہ صدر الشریعہ، فاروقیہ بک ڈپو، دہلی، ۱۳۹۸ھ، ص۳۷
۹۔ معمولات الابرار،ص۱۵۹
۱۰۔ منتخب حدیثیں، ص۱۷
۱۱۔ معمولات الابرار، ص۱۶۰
۱۲۔ ایضاً،ص۱۶۴
۱۳۔ ایضاً،ص۱۶۵
۱۴۔ ایضاً،ص۱۶۶
۱۵۔ ایضاً،ص۱۶۷
۱۶۔ ایضاً،ص۲۶۵
۱۷۔ ایضاً،ص۱۶۹
۱۸۔ ایضاً،ص۱۷۰
۱۹۔ ایضاً،ص۱۷۱
۲۰۔ ایضاً،ص۱۷۲
۲۱۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، غرائب القرآن، رومی پبلی کیشنز، لاہور، (س۔ن)، ص۷
۲۲۔ معمولات الابرار،ص۱۷۴
۲۳۔ ایضاً،ص۱۷۷۔۱۷۶
۲۴۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، جنت کی کنجیاں، مشتاق بک کارنر، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۲
۲۵۔ ایضاً،ص۱۳
۲۶۔ معمولات الابرار، ص۱۸۰
۲۷۔ تذکرہ صدر الشریعہ، ص۴۱
۲۸۔ معمولات الابرار، ص۱۹۴
۲۹۔ ایضاً،ص۱۹۵
۳۰۔ ایضاً،ص۱۹۵
ٍ۳۱۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، ایمانی تقریریں، مکتبہ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ، لاہور، (س۔ن)، ص۲۱۴
۳۲۔ ایضاً،ص۲۱۵
۳۳۔ اعظمی، عبد المصطفیٰ، حقانی تقریریں، مکتبہ اعلیٰ حضرت، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۱۷۹
۳۴۔ ایضاً،ص۱۸۰
۳۵۔ ایضاً،ص۱۸۱
۳۶۔ معمولات الابرار،ص۲۰۹
 

Mirza Hafeez Aoj
About the Author: Mirza Hafeez Aoj Read More Articles by Mirza Hafeez Aoj: 6 Articles with 29159 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.