اب جب ہر جگہ پنجاب کے ٹکڑے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو
مجھے پنجاب کے ایک عظیم دانش ور ‘ مصور ‘ محقق اور بہترین انسان ‘ محمد
حنیف رامے کی یاد آرہی ہے ۔ وہ عظیم دانش ور ہی نہیں بہترین خطاط ‘ بے مثال
انسان عظیم انسان تھے ‘ انکے بارے میں اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ
ایسے عظیم لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور جس دھرتی پر ایسے لوگ پیدا ہوتے
ہیں وہ دھرتی ایک عظیم سرزمین کہلاتی ہے ۔
میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں ان سے بات کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔
حسن اتفاق سے پہلی ملاقات ہی آخری ثابت ہوئی‘ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری
کتاب "ماں " کے حوالے سے تھی ‘ جونہی میری زبان سے ماں کا لفظ نکلا تو وہ
زار و قطار رونے لگے اور فرمایا میں تو رامے کہلاتا ہی اپنی ماں کی وجہ سے
ہوں ۔بہرکیف واقعات کی طوالت سے بچتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ محمد حنیف
رامے وہ واحد لکھاری اور تاریخ دان ہیں جنہوں نے پنجاب میں چرخے کی کوک کو
لفظوں کا روپ دے کر بتایا کہ پنجاب کتنا لاوارث خطہ زمین ہے ۔پنجاب کی
سرزمین نے پانچ جواں مرد پیدا کیے جن میں راجہ پورس ‘ دلا بھٹی ‘رائے احمد
خان کھرل ‘نظام لوہار اور بھگت سنگھ شامل ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ بے شک
مہابھارت سے پانی پت کی لڑائیوں تک پنجاب مسلسل اورمتواتر میدان کارزار بنا
رہا ہے اور تاریخ میں صدیوں تک شمال سے جنوب کی طرف جانے اور ادھر سے واپس
آنے والے حملہ آوروں کے قدموں سے روندا گیا ۔پنجاب کو موقع پرست گرداننے
والوں کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیئے کہ اسی پنجاب نے فاتح عالم
سکندر اعظم کے ٹڈی دل لشکروں کے خلاف ڈٹ جانے کی جرات کی تھی ‘ پنجاب نے
مزاحمت کا ایک اور رنگ اس وقت دکھایا جب مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے دین الہی
کا چکر چلایا اور امام ربانی مجد دالف ثانی ؒ نے اس مکروہ سارش کے خلاف
سرہند شریف سے آواز اٹھائی اور نتیجے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں
۔پنجاب میں مزاحمت کا یہ سلسلہ مغلوں کے دور میں دلابھٹی اور انگریزوں کے
دور میں رائے احمد خان کھرل تک جاری رہا ۔ پنجاب میں پانچ دریاؤں کی طرح
پانچ پیروں کے فیض کے چشمے بہتے نظر آتے ہیں ۔حضرت داتا گنج بخش ؒ ‘ حضرت
بہاؤ الدین زکریا ؒ ‘ حضرت فرید گنج شکر ؒ ‘ حضرت میاں میر ؒ اور امام بری
لطیف ؒیہ وہ بزرگان دین ہیں جنہوں نے سرزمین میں اسلام کی محبت ‘ مساوات
اور رواداری کی تعلیم عام کی ۔آگے چلیں تو پانچ آبی دریاؤں اور پانچ روحانی
دریاؤں کے پانیوں پر پلنے والے برگدوں اور پیپلوں کے نیچے پانچ صوفی شاعروں
کی محفل سجی نظرآتی ہے جس میں حضرت شاہ حسین ؒ ‘ حضرت سلطان باہو ؒ ‘ حضرت
وارث شاہ ؒ حضرت بلھے شاہ ؒ اور خواجہ فرید ؒ آمنے سامنے بیٹھے درد اور
دوستی کے گیت سناتے پائے جاتے ہیں ‘ یہ تھا وہ پنجاب جس کے شہر لاہور میں
حضرت عباس ؓ علم دار کی ہمشیرہ اور جناب مسلم بن عقیل کی زوجہ محترمہ بی بی
پاک دامن ‘ رقیہ بنت علی حید رکرار ؓ تبلیغ اسلام کے لیے تشریف لائیں اور
یہی پر دفن ہوگئیں ۔ جس کے مہکتے میٹھے دریاؤں کے پانی ‘ تیز دھوپ اور گھنی
چھاؤں والا میرا پنجاب جس کے ترنجنوں میں ہیروں ‘ سہتیوں ‘ سوہنیوں اور
صاحباؤں نے اپنے اپنے چرخے ڈاہ رکھے تھے جن کے چرخوں کی گھوک سن کر بڑے بڑے
رانجھے ‘ مراد ‘مہینوال اور مرزے پہاڑوں سے اتر ے چلے آتے تھے ۔یہ تھا میرا
پنجاب جس کے گھبروؤں اور مٹیاروں کے رنگ میں دہکتے لہو کی سرخی اور کچے
دودھ کی سفید ی گندم گوں ہوگئی تھی ۔یہ تھا میرا پنجاب جہاں کے گبھرو کبڈی
‘ کشتی ‘ اورگھڑ سواری میں تاک ہوا کرتے تھے جس کی مٹیاروں کی چال میں گدھا‘
ککلی اور جھمر رچے بسے تھے ۔جسکی ہواؤں میں ڈھولے ‘ ٹپے اور ماہیا کے
اشتیاق انگیز بول اور سر سموئے ہوئے تھے ۔یہ تھا میرا پنجاب جہاں کیکروں پر
کانٹے ہی نہیں پھول بھی آتے تھے جب یہ پھول پک جاتے تو محبت کرنے والے کبھی
نہ بچھڑنے کی قسمیں کھاتے ۔یہ تھا میرا پنجاب جہاں گنے کا رس نکالنے والے
بیلنے سردیوں میں چوپالوں میں بدل جاتے اور اونچی لمبی ٹاہلیوں پر پڑی ہوئی
پینگیں گرمیوں میں اندر سبھا کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔
یہ پنجاب اپنے دریاؤں کی طرح قدیم لیکن انہی کی طرح تازہ تھا یہ وہ خطہ ارض
تھا جس کی سوان وادی میں انسانی وجود کے اولین نشانات ملتے ہیں اسی سرزمین
پر ہڑپہ کے نام سے دنیاکی سب سے پہلی انسانی تہذیب نے جنم لیا تھا ۔ یہ رگ
وید اور مہابھارت کی دھرتی تھی ۔یہ صرف بابر کے کلر کہار ‘ اکبر کے شاہی
قلعے ‘ جہانگیر کے ہرن مینار ‘ شاہجہاں کے شالیمار اور عالمگیر کی بادشاہی
مسجد کا پنجاب نہ تھا ‘یہ لاکھوں بے گھر اور بے در مستانوں اور درویشوں کا
ڈیرا بھی تھا ‘ کھیتوں ‘کھلیانوں ‘ ہٹیوں اور بھٹوں کا پنجاب ‘ ہنستا گاتا
پنجاب ‘ زندہ دل پنجاب ‘ دردمندپنجاب اور خدا شناس پنجاب ۔حالی اقبال ‘
شیرانی ‘حفیظ جالندھری ‘ فیض ‘مجید امجد ‘ ناصر کاظمی ‘ منیر نیاز ی اور
شہزاد احمد جیسے شاعروں کا پنجاب تھا ‘ مولوی غلام رسول ‘ میاں محمد بخش ‘
فضل شاہ ‘استاد دامن ‘امرتاپریتم ‘ شریف کنجاہی اور فخر زماں جیسے پنجاب
شاعروں کا پنجاب ۔یہ محبت اور رواداری ‘ یہ شجاعت اور بہادری پنجاب کے مزاج
کا بنیادی اور لازمی جزو اور روح ہے ۔پنجاب خوبصورت ہے ‘طرح دار ہے ‘انسان
دوست ہے ‘ ملنسار ہے ہنر مند ہے ‘ خودار ہے ‘ سخی ‘دلدار ہے۔
یہ تھا میرا پنجاب جس میں زندگی کا سفر شروع کیا تو اس کے پانیوں میں محبت
کی چاشنی پائی ‘ جوان ہوا تو اس کی دھوپ میں محبت کی چمک دیکھی اور اب جہاں
زندگی کی شام آئی ہے تو اس کی چھاؤں میں محبت کی نرمی محسوس کرتا ہوں ۔میں
نے ایک عمر اس پنجاب کے شہروں ‘ قصبوں ‘ دیہوں ‘ گلی محلوں اور بازاروں میں
انسانوں کی محبت اور رواداری سے جیتے دیکھا ۔ اس محبت اور رواداری کو میں
آج بھی اپنے وجود کے ریزے ریزے میں موجزن پاتا ہوں اور میرے وجود کا ریزہ
ریزہ جانتا ہے کہ محبت اور رواداری صرف اور صرف شجاع اور بہادر لوگوں کا
خاصاہوتی ہے ۔
1947ء میں پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اس کا ایک حصہ بھارت میں اور
دوسرا حصہ پاکستان کے حصے میں آیا ۔ اس کے برعکس سندھ ‘ سرحد اور بلوچستان
جیسے انگریز کے وقت میں تھے ‘ ویسے ہی قیام پاکستان کے بعد برقرار رہے
اورایسے ہی آج بھی موجود ہیں ۔یہ تینوں صوبے نہ صرف تقسیم نہ ہوئے بلکہ ان
کی سماجی ‘اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں بھی قیام پاکستان سے کوئی خاص ہل
چل اور الٹ پلٹ واقع نہ ہوئی ۔بے شک مہاجرین کی آبادکاری کی حدتک سندھ ضرور
متاثر ہوا لیکن جس طرح پنجاب کی تقسیم نے اس کی زمین کو اس کے بیٹوں اور
بیٹوں کی لاشوں سے پاٹ دیا اور اس کے دریاؤں کے پانیوں کوان کے خون سے سرخ
کردیا ۔خدا کا شکر ہے کہ ایسا سندھ میں نہیں ہوا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا
نہ صرف پاکستانی کے کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہوا بلکہ بھارت میں بھی صرف
مشرقی پنجاب ہی میں ہوا ۔ کہیں اور نہیں ہوا ۔ اسی پر تو پنجاب کی ایک بیٹی
امرتاپریتم نے حضرت وارث شاہ سے فریاد کی تھی
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نو ں کہن
مجھے یاد ہے جس روز پاکستان بنا تھالاہورکا آسمان سرخ تھا اوراس سے دہکتی
ہوئی چنگاریاں برس رہی تھیں ۔ شہر کیا تھا ایک شمشان گھاٹ تھا جس میں مردہ
لاشوں کی جگہ زندہ انسان جل رہے تھے ۔فضا میں اس قدر کثیف دھواں تھا کہ
سانس لینا محال تھا ۔جلتے جسموں کی بو سے دماغ پھٹا جارہا تھا ۔دل پر دہشت
کاپہرہ تھا ۔
.........
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ 9لاکھ مسلمان تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی نذر
ہوگئے ۔کتنی ہی ٹرینیں کٹے پٹے انسانی اعضا سے بھری لاہور پہنچیں۔اس گہرے
صدمے سے گزر کر بھی پاک سرزمین پر پہنچنے والوں نے اپنے دکھ بھولا دیئے اور
خود کو پاکستان کے دامن میں سمو دیا ۔پنجابی زبان ‘ کلچر‘ تہذیب اور ثقافت
سب کچھ انجام کو پہنچ گئے۔سندھ میں ‘سندھی‘ بلوچستان میں بلوچی اور کے پی
کے میں پشتو تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہے ۔اگر کوئی غلطی سے پنجابی میں
ماسٹر کرلیتا ہے تو اسے زندگی بھر پچھتاناپڑتا ہے۔ اب جبکہ پنجاب کو ایک
بار پھر تقسیم کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔اس ضمن میں‘ میں چند گزارشات عرض
کرنا چاہتاہوں ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ پنجاب کے کچھ علاقے صوبائی دارلحکومت
سے دور ہونے کی وجہ سے اتنی ترقی نہیں کرسکے جتنی ترقی لاہور ‘ ملتان ‘
راولپنڈی ‘ گوجرانوالہ ‘ سیالکوٹ ‘ فیصل آباد ‘ اور سرگودھا نے کی۔ذرائع
آمدو رفت کی ترقی نے سفر اور بھی آسان کردیئے ہیں‘جس کی وجہ سے دور دراز
رہنے والے بھی آسانی سے لاہور پہنچ جاتے ہیں ۔
میرے ایک دوست سعید جاوید( جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے) بتا رہے تھے کہ
لاہور سے فورٹ عباس کے لیے ہر دس منٹ بعدکوچز چلتی ہیں ۔وہ زمانے گئے جب
شام کے بعد ٹرانسپورٹ بند ہوجایاکرتی تھی ۔ مظفر گڑھ ‘ لیہ ‘ میانوالی ‘
بھکر اور ڈیرہ غازی کے علاقوں میں جانے والوں کے لیے بھی رات دن بہترین
ٹرانسپورٹ میسر ہے ۔ لاہور سے ملتان اور ملتان سے سکھر موٹروے تقریبا مکمل
ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اور بھی آسانی ہوجائے گی ۔پھر پنجاب کوتقسیم کرنے کا
جواز کیا رہ جاتا ہے ۔ میری نظر میں بنیادی سہولتوں کے فقدان یا دارلحکومت
سے دوری کی بنا پر پنجاب کو تقسیم کرنے کا اقدام انتہائی غلط ہے ۔ اس وقت
سردار عِثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر براجمان ہیں ‘ وہ اپنے
علاقے کی پسماندگی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔جسے اطمینان بخش
قرار دیاجاسکتا ہے ۔ بالفرض اگر نیا صوبہ بنا بھی دیا جائے تو وزیروں
مشیروں اور سرکاری افسروں کے انبار لگانے کے سوااور کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
بنیادی وجہ بیورو کریسی کی نااہلی ہے اگر موجودہ بیورو کریسی جنوبی پنجاب
کو ترقی نہیں دے سکی تو کیا ضمانت ہے کہ جو سرکاری افسروں وہاں تعینات کیے
جائیں گے وہ دودھ کی نہریں بہادیں گے ۔ یہاں میں ایک اور سوال کرنا چاہتا
ہوں کہ کیا ایسا صرف پنجاب میں ہی ہے ‘ سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ
کے تمام علاقے یکساں ترقی یافتہ ہیں ۔ کراچی جہاں پینے کا پانی میسر نہیں ‘
بجلی اور گیس کے بحران نے صنعتی ترقی اورگھریلو زندگی کو اجیرن کررکھا ہے‘
کوڑے کا ڈھیر بننے کی بنا پر جیسے ایشیا کا گندا ترین شہر ہونے کا اعزاز
حاصل ہو چکا ہے ۔ آج سندھ کے تمام دیہی علاقوں رہنے والوں کی زندگی موت سے
بدتر ہے ‘تھر اور کچے کے علاقوں میں زندگی سسک سسک کردم توڑ رہی ہے ۔ اگر
جنوبی پنجاب کو تقسیم کرنے کے لیے پسماندگی اور عدم ترقی کوہی معیار بنانا
ہے تو پھر کراچی علاوہ سندھ کو مزیدتین ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہوگا ۔
پیپلزپارٹی کے وہ لوگ جوجنوبی پنجاب کے غم میں مرے جارہے ہیں جب سندھ کی
بات آتی ہے تو مرنے او ر مارنے پر تل جاتے ہیں ۔جہاں انسان بھی جانوروں سے
بدتر زندگی گزار رہے ہیں ۔بلوچستان کی بات کریں تو نہ وہاں اچھے ہسپتال
‘تعلیمی ادارے اور نہ ہی مواصلاتی نظام موجود ہے ۔کتنے ہی علاقے ایسے بھی
ہیں جہاں بارش کے بعد انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند ہوجاتی ہے ‘ آج بھی وہاں
18ویں صدی کا ماحول ہے۔ خیبر پختون خوا کے آدھے لوگ روزگار کی تلاش میں اس
لیے پنجاب آ چکے ہیں کہ وہاں نہ تو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہیں اور
نہ ہی روزگار کے مواقع ۔ تو کیا خیبر پختوانخواہ کو بھی دو تین حصوں میں
تقسیم نہیں کرنا چاہیئے ؟ہزارہ صوبے کا مطالبہ تو پرانا ہوچکا ۔پنجاب ہی سب
کی نظروں میں کیوں کھٹکتا ہے ‘ پہلے پیپلز پارٹی کے سرپر جنون طاری تھا‘ اب
مسلم لیگ ن کی جانب سے دو نئے صوبے بنانے کی قرار داد قومی اسمبلی میں جمع
ہوچکی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر پسماندگی کی بنا پر ہی پنجاب کو تقسیم
کرنا ہے تو سندھ ‘ بلوچستان اور خیبرپختوانخوا پیرس کیسے قرار پاتے ہیں ان
کو بھی کیوں نہ تقسیم کیاجائے ۔ پنجاب دشمنی کی آڑ میں اس کے ٹکڑے کرنا
ہمیں ہرگز قبول نہیں اور نہ ہی اس کا جواز بنتا ہے۔ یادرہے کہ جنوبی پنجاب
کے جتنے بھی سیاسی قائدین اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے ‘ سب اپنا اپناپیٹ
بھرکے چلتے بنے‘کیا اب فرشتے آسمان سے اتریں گے۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب
‘جاوید محمود کا ذکر یہاں کرنا چاہتاہوں ‘جنہوں نے قصور جیسے گندے شہر کو
بھی نہ صرف پیرس بنادیا ہے بلکہ اتنی کشادہ اور خوبصورت سڑک بنوائی کہ
لاہور کا فاصلہ صرف آدھ پون گھنٹہ رہ چکا ہے۔ موجودہ وزیر اعلی جنوبی پنجاب
کی ترقی کے لیے اقدامات کررہے ہیں اگراسی پر اکتفا کیا جائے تو بہتر ہوگا
وگرنہ ملتان اور بہاولپور میں چند اہم محکموں کے سپیشل سیکرٹری بھی تعینات
کیے جاسکتے ہیں ۔ اگر پنجاب کو ہر حال میں تقسیم کرنا ہی ہے تو پھر سندھ ‘
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو پسماندگی کا معیار پیش نظر رکھ کر تقسیم کرنا
ہوگا ۔اس مقصد کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیاجائے جو چاروں صوبوں کے عوام کو
فراہم کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لے کر تجویز کرے کہ کہاں کہاں نئے
صوبے بنانا مفید رہے گا۔وگرنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ سب کچھ پنجاب دشمنی
میں ہی کیا جارہا ہے جس کو تقسیم ہند کے وقت بھی دو ٹکڑوں میں تقسیم
کردیاگیا اور اب مزید تقسیم کے تکلیف دہ عمل سے گزارا جارہاہے ۔غیر تو غیر
اپنے بھی دھرتی ماں کے ٹکڑے کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔بقول ڈاکٹر محمد اجمل
نیازی
اینے زخم مرے جثے تے ‘ جنے ترے وال نی مائیں
ہن تے کجھ نیئں نظریں آندا ہور اک دیوا بال نی مائیں
میں طارق محمود کی یادداشتوں میں شامل ایک کہانی "بنگلہ گوگیرہ " پڑھ رہا
تھا ۔ مصنف کا تعلق بیوروکریسی سے تھا ۔ وہ لکھتے ہیں ‘جب اوکاڑہ کو تحصیل
سے ضلع کادرجہ دینے کا فیصلہ ہوا تو ضلع کی سہولتیں ‘عمارتیں اور سرکاری نٹ
ورک قائم کرنے اور تجاویز دینے کا کام مجھے سونپ دیا گیا ۔میرا اہم ہدف
ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے زمین کا حصول اور فزیلبٹی تیار کرنا بھی
تھا۔ ڈسٹرکٹ کورٹس ‘ ڈپٹی کمشنر کا دفتر ‘ سرکاری خزانہ ‘ جیل ‘ لاک اپ ‘
پولیس لائنز ایسی بنیادی ضروریات تھیں جن کے بغیر کسی بھی ضلع کے خدو خال
مکمل نہ ہوتے ۔اس سارے عمل میں برسوں صرف ہوجاتے ہیں ۔طویل راہداریوں ‘
محرابی برآمدوں پر مشتمل کئی منزلہ عمارتیں وجود میں آتیں جہاں مجسٹریٹوں
کی عدالت ‘اہم سرکاری محکموں کی برانچیں کام کرتیں ‘ کچہری کے قریب سول
لائنز بھی ضروری تھی جہاں سرکار ی افسر رہائش اختیار کرتے ۔ان تمام تعمیرات
کے لیے میں نے دو سو ایکڑ اراضی حاصل کرنے کی تجویز دی۔ جو نہر کے ساتھ
ساتھ ملٹری فارم والوں کے قبضے میں تھی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پنجاب کو دو
یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کی جستجو کررہے ہیں۔ان کی خدمت میں یہی عرض
کرنا ہے کہ کیا پہلے پنجاب کے انتظامی اخراجات کم ہیں کہ مزید دو صوبوں کے
وزرائے اعلی ‘ گورنرسمیت سرکاری افسران اور ملازمین کی فوج ظفر موج کے
دفاتر ‘ رہائش گاہوں اور تنخواہوں کے اخراجات کہیں پورے ہوں گے ۔پنجاب
کاصوبہ تو پہلے ہی مقروض ہے جبکہ وفاقی حکومت کا خزانہ بھی خالی ہے اور
غیرملکی قرضے اتارنے کے لیے حکومت دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے سامنے
کشکول لیے بیٹھی ہے۔ایک تحصیل کو ضلع بنانے کے لیے اربوں روپے اضافی خرچ
کرنے پڑتے ہیں ۔ جہاں نئے ڈویژن ‘ نئے اضلاع‘ نئی تحصیلیں اور سب تحصیلیں
بھی ایک بار پھر وجود میں آئیں گی۔ اس پر کتنا سرمایہ خرچ ہوگا ۔پنجاب
تقسیم کرنے والوں کو شاید اس کا اندازہ نہیں ۔ |