سرمد کے چند قریبی دوست مختلف اخبارات میں کالم لکھتے تھے
اور وہ ان کے کالم پڑھ کر بہت خوش ہوتا تھا۔ ایک دن سرمد کو خیال آیا کہ یہ
کام تو میں بھی کر سکتا ہوں ۔ کسی بھی عنوان پر چند لائنیں لکھو اور اخبار
کے ای میل آئی ڈی پر بھیج دو۔ایک دودن بعد آپ کا کالم اخبارات میں چھپ جائے
گا اور آپ کی تصویر بھی۔ایک دوست کے مطابق جب اخبار میں تصویر کے ساتھ نام
چھپتا ہے تو چھوٹے بچوں کی طرح خوشی ہوتی ہے اور فخر بھی۔سرمد نے بھی سوچا
کہ میں اس اہم فریضے سے کیوں نہ سبکدوش ہو جاؤں۔یہ خیال آتے ہی اس نے سب سے
پہلے ایک صحافی دوست کو فون کیااور اس کو کہا کہ وہ بھی ایک کالم اخبارمیں
چھپوانا چاہتا ہے۔صحافی دوست نے کہا کہ آپ کالم ٹائپ کرکے مجھے ای میل کر
دو۔میں اس کو اخبارات میں بھیج دونگا۔صحافی دوست کی طرف سے گرین سگنل ملتے
ہی اب سرمد نے کالم لکھنے کے لیئے ماحول کو سازگار بنانا شروع کیا۔ سب سے
پہلے تو اس نے اپنی بیگم کو کہا کہ مجھے دو ڈھائی گھنٹے تک ڈسٹرب نہ کیا
جائے۔ اور نہ ہی میر ی چھوٹی بیٹی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت ہوگی۔ساتھ
ہی ایک عدد کڑک چائے کی فرمائش بھی کردی تاکہ آسانی سے رت جگا کر سکے۔
کمرے میں آنے کے بعد سب سے پہلا مرحلہ موضوع کا انتخاب تھا۔ وہ اپنے دوستوں
سے بہت سے موضوعات ڈسکس کر چکا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ ان میں سے ہی
کسی ایک موضوع پر اپنی قسمت آزمائی کرے گا۔کچھ دیر سوچنے کے بعد جب کوئی
بھی موضوع ذہن میں نہ آیا تو گوگل کی مدد لینے کا سوچا۔ لیپ ٹاپ چلانے کے
بعد اس نے گوگل پر اپنے کالم کے لیئے موضوع کی تلاش شروع کردی۔ کبھی اس کے
دل میں آیا کہ فری لانسنگ پر کالم لکھ لے۔ کبھی اس کے ذہن میں آیا کہ بچوں
کی تربیت بھی بہت اہم موضوع ہے۔ کبھی عورتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا۔
کبھی خیال آیا کہ کیوں نا بزنس آئیڈیاز پر کالم لکھ لے۔کبھی خیال آیا کہ
کوئی مزاحیہ کالم لکھا جائے ۔ کبھی اس کے دما غ میں سوشل میڈیا پر کالم
لکھنے کا وسوچا۔ کبھی اس نے سوچا کی نیٹ ورکنگ پر کالم لکھ دے۔ کبھی کہا کہ
دوستی پر کالم لکھ دے۔ کبھی ماؤں کے بارے میں لکھنے کو بھی سوچا۔ لیکن بہت
سے موضوعات ایسے تھے جن پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔اگر وہ بھی ایک
کالم لکھ دے گا تو کیا فرق پڑے گا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد اور گوگل سے
مشورہ کرنے بعد اس نے سوشل میڈیا کے بارے میں کالم لکھنے کا سوچا۔ اگرچہ وہ
خود سوشل میڈیا کا رسیا تھااور ہر وقت فیس بُک اور واٹس ایپ پر لگا رہتا
تھا ۔ لیکن اس نے اپنے خیالات کو یہ کہ کر تقویت دی کہ آج کل سوشل میڈیا کے
بارے میں کافی کچھ لکھا جارہا ہے اور اس کی ڈیمانڈ بھی ہے تو کیوں نہ اسی
پر اپنی رائے زنی کی جائے؟۔
موضوع کا انتخاب کرنے کے بعد اگلا مرحلہ اپنے خیالات کو لکھنے کا تھا۔ پہلے
اس نے سوچاکہ وہ لیپ ٹاپ پر ہی ٹائپ کرنا شروع کر دے گا لیکن اس کی ٹائپنگ
سپیڈ اتنی ذیادہ نہ تھی اس لیئے اس نے پہلے کاغذ پر لکھنے کا ارادہ کیا۔
کافی مدت سے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا اس لیئے کاغذ اور پینسل کا حصول بھی
جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ کافی تگ ودو کے بعد کاغذ اور پینسل مل گیا اور
سرمد نے اس پر بڑی خوبصورتی ہے اپنے پہلے کالم کا عنوان لکھا اور پھر اپنی
تحریر لکھنی شروع کر دی ۔ اسے خیال آیا کہ اپنا نام بھی شروع میں لکھ دے تو
اس نے بہت خوبصورتی سے اپنا نام لکھا۔ اب اگلا مرحلہ تھا سب سے پہلی لائن
لکھنے کا۔ اس نے اکثر جگہ پڑھا تھا کہ کسی بھی تحریر کی ابتداء ایسی ہونی
چاہیے کہ قاری کا بے اختیار اس کالم کو پڑھنے کو دل کرے۔اب اس نے آغاز کے
بارے میں سوچنا شروع کیا۔ گوگل سے بھی کا فی مدد لی۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہ
آیا۔ کافی تگ ودو کے بعد پہلا لفظ لکھا اور وہ بھی ’’فیس بُک‘‘اور پھر سوچ
میں پڑھ گیا کہ سوشل میڈیا میں بہت کچھ آتا ہے صرف فیس بک نہیں۔اب اس نے
تما م سوشل میڈیا کے پروگرامز کے بارے میں سرچ کرنا شروع کیااور ان کے نام
لکھتا گیا۔ کوئی چار پانچ نام لکھنے کے بعد اس کی ہمت جواب دے گئی ۔ چائے
پینے کے باوجود نیند نے غلبہ پانا شروع کر دیا۔ پینسل کو ٹیبل پر رکھ کر وہ
آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور نیند نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔یہ آج سے کچھ
عرصہ پہلے کی بات ہے۔ سرمد کا لم کاغذ پر لکھے ہوئے وہی تین چارالفاظ پر
محیت رہ گیا۔ کافی دن وہ ٹیبل کی زینت بنا رہا۔ پھر صفائی کرتے ہوئے اسے
اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکا گیا۔ اور چند دن پہلے سرمد نے اسی کاغذ کی ناؤ
چلتی دیکھی جس پر اس نے اپنے ہاتھ سے تین چار الفاظ لکھے تھے۔ اس دن سرمد
نیند کے وادی سے باہر آنے کو تیا ر نہ تھا اور اس کے بعد اس کا کالم ادھورا
ہی رہ گیا اور کافی مہینے گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو سکا۔ سرمد آج بھی
اپنے دوستوں کے کالم پڑھتا ہے اور ان کی تعریف بھی کرتا ہے لیکن اب اس کے
دل میں اپنا کالم چھپوانے کا خواہش دم توڑ گئی ہے۔ کالم لکھنا اس کے نزدیک
ایک آسان کام تھا لیکن وہ اسے مکمل نہ کر پایا اور اپنے دیگر بہت سے منصوبو
ں کی طرح یہ خواہش بھی بن کھلے مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہو گئی۔ |