’’آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘۔ایک ملازمت کے لیئے آئی ہوئی
لڑکی سے میں نے سوال پوچھا۔
’’میر ے ابو پہلے تو سرکاری ملازم تھے لیکن اب ریٹائرڈ ہوگئے ہیں‘‘ ۔اس نے
جواب دیا۔
’’کتنے بہن بھا ئی ہیں؟‘‘۔
’’ہم بس دو ہی بہنیں ہیں۔پہلے ہمیں جوب کرنے کی اجازت نہ تھی لیکن اب ہم
چاہتی ہیں کہ ملازمت کریں‘‘۔
’’کیوں اب کیسے اجازت مل گئی؟‘‘۔
’’میر ے بابا بیما ر ہتے ہیں اور ہم ان کی مدد کرنا چاہتی ہیں اس لیئے میری
خواہش ہے کہ ملازمت کرکے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں کوئی مدد کر سکیں‘‘۔
’’لڑکیوں کو ملازمت کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی
آپ نے جوب کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟‘‘۔
’’مشکلات تو زندگی کا حصہ ہیں ۔ اگر ہم لوگ مشکلات سے ہی ڈرتے رہیں تو کبھی
کامیاب نہیں ہوسکتے۔ہمیں مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ یہ
سوچتے ہیں کہ میں کیا کر سکتا ہوں ؟۔تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔اور
اگرآپ یہ سوچتے ہیں کہ مجھے کچھ کرنا ہے تو آپ سبھی کچھ کر سکتے ہیں۔کچھ
بھی کرنے کی صلاحیت کا تعلق آپ کی سوچ سے ہے‘‘۔
’’آپ کی بات درست ہے ۔ جن لوگوں نے آج تک کچھ بھی کیا ہے انہوں نے اپنی سوچ
کی بنا پر ہی کیا ہے‘‘۔
’’اگر آپ کی منزل چھوٹی ہے تو آپ کبھی بھی ایک کامیاب انسان نہیں بن سکتے ۔
لیکن اگر آپ کی منزل بڑی ہے تو دنیا کو کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے
نہیں روک سکتی‘‘۔
’’بڑی منزل سے کیا مراد ہے؟‘‘۔
’’بڑی منزل سے مراد یہ ہے کہ آپ کو اپنے لئے ایسا مقصدحیات چننا چاہیے جس
کے حصول کے لیئے آپ کو انتھک محنت کرنی پڑے۔ اگر آپ کا مقصد حیات چھوٹا ہے
تو آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔چھوٹا مقصد حیات بہت جلدی حاصل ہوجاتا
ہے۔لیکن بڑا مقصد حیات حاصل کرنے کے لیئے آپ کو اپنی جان لڑانی پڑتی ہے‘‘۔
’’لیکن ہر بند ہ چاہتا ہے کہ اس کو تما م سہولیات آسانی سے مل جائیں‘‘۔
’’کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنا آرام و سکون چھوڑ دے اور ہر وقت
کام کرتا رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ذیادہ تر لوگ ناکام ملتے ہیں۔چند ایک
افراد جو کامیاب ہوتے ہیں یہ وہی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا آرام وسکون چھوڑ
دیا ہوتا ہے اور وہ کسی نا کسی کام کی تلاش میں رہتے ہیں‘‘۔
’’بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ یہ میرا کام نہیں ہے ۔ جو فرائض
میرے ذمے لگائے گئے ہیں میں نے صرف وہی کرنے ہیں باقی کچھ بھی نہیں کرنا
ہے‘‘۔
’’اس طرح کے لوگوں کو آپ ہمیشہ شکوہ کرتے ہی دیکھیں گے کہ میری تنخواہ نہیں
بڑھ رہی یا میری ترقی نہیں ہورہی۔ پوری نہیں پڑتی‘‘۔
’’پھر اس کا کیا حل ہے؟‘‘۔
’’اس کا حل یہ ہے کہ جو کام آپ کے ذمے لگایا جائے اس کو دلجمعی سے کیا جائے
اور اپنی پوری کوشش کی جائے اور وہ کا م جو آپ کر سکتے ہیں چاہے وہ آپ کی
ذمہ داری ہے یا نہیں ۔ آپ ان کو بھی کریں ۔جتنی ذیادہ آپ کی قدر میں اضافہ
ہوگا۔ اسی قدر آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا‘‘۔ |