غصہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے ،یہ انسانی فطرت کا حصہ
ہے ،اس وجہ سے ہر شخص کے اندر اس فطرت کا وجود ہے اور مشاہدہ میں بھی آتا
ہے ۔ ایسانہیں ہے کہ غصہ امیروں کی دولت ہے ، اور فقیر ومسکین کو کبھی غصہ
نہیں آتا۔یہ ہرانسان کی صفت ہے، بپچن سے لیکر بڑھاپے تک اس کا ظہور ہوتا ہے
جو اس بات کی ناقابل تردیدعلامت ہے کہ غصہ انسانی فطرت وطبیعت کا جزء
لاینفک حصہ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے کلام سے بھی واضح طورپر معلوم ہوتا
ہے ۔اللہ تعالی مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ
الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗوَاللَّهُيُحِبُّالْمُحْسِنِينَ
(آلعمران:134)
ترجمہ: جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ
کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ
تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ
نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.(صحیح البخاری:6114)
ترجمہ: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان
تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔
قرآنی آیت اور حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے غصہ انسانی فطرت ہے وہاں یہ
بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس فطرت کو اسلام نے دباکر اورقابو میں رکھنے کا حکم
دیا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
أَوْصِنِي ، قَالَ : لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ مِرَارًا ، قَالَ : لَا
تَغْضَبْ۔(صحیح البخاری:6116)
ترجمہ: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی
نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا
کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔
ایک بات واضح ہوگئی کہ غصہ فطرت انسانی ہے تاہم اس پہ قابو نہ رکھنے سے
بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ میاں بیوی میں جدائی، اولاد ووالدین میں دوری،
بہن وبھائی میں اختلاف، فرد ومعاشرہ میں بگاڑ ، دنیا میں ظلم وبربریت اور
فتنہ وفساد کی جڑ غصہ ہے ۔ جب تک غصہ دبا ہوتا ہے تب تک فتنہ دبا ہوتا ہے
اور جب غصہ بے قابو ہوجاتا ہے تو فتنہ وفساد بھی اپنا منہ کھول لیتا ہے ۔
ایسے موقع سے شیطان کافی فائدہ اٹھاتا ہے ۔ وہ دو فریق میں نفرت وانتقام کی
آگ بھڑکاتا ہے اور انسان بلادریغ ایک دوسرے کا خون کر بیٹھتا ہے۔ غصہ کے
برے اثرات انسانی جسم وروح پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ چہرہ دیکھ کر ہم بھانپ
سکتے ہیں کہ آدمی غصے میں ہے ، رگیں پھول جانا ، چہرہ سرخ ہوجانااور سانسوں
میں تیزی پیدا ہونا غصہ ہونے کی علامت ہے۔
یہ معدے کی شکایت، کولیسٹرول کی زیادتی، آنتوں کی پریشانی، قوت مدافعت کی
کمی،فالج کا خطرہ اور دل کے امراض کاسبب ہے ۔ اسی طرح مرض یرقان سے لیکر
سر، یادداشت، غوروفکر اور نظام اعصاب تک متاثر کرتا ہے بلکہ موت کا بھی
راستہ ہموار کرسکتا ہے۔
جب سماج ومعاشرہ کی تباہی کااصل سبب غصہ ہے تو پھر ہمیں اس کے اسباب معلوم
کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب سے پہلو تہی اختیار کرکے غصہ پر قابو پایا
جا سکے ۔
(1) غصہ بھڑکانے کا ایک اہم سبب تکبر ہے ، جس کے پاس تکبر ہوگا وہ بات بات
پر غصہ ہوگا اورلوگوں کو حقیر سمجھتے ہوئے اس پر زیادتی کرے گا ۔ اس لئے
اسلام نے تکبر کی مذمت بیان کی ہے اور متکبر شخص پر جنت ممنوع کردیا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَن كانَ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن
كِبْرٍ.(صحیح مسلم:91)
ترجمہ:وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر
بھی کبروغرور ہوگا۔
جسے اپنی آخرت کی فکر ہوگی وہ کبھی تکبر کی نجاست میں ملوث ہوکر جہنم میں
داخل نہیں ہوگا۔
(2) بدگوئی ، لفاظی،بلاضرورت طول کلامی ،کٹھ جحتی ، استہزا،سخت کلامی ،
ایڑیل پن،غیبت،بدمزاجی، چڑچڑاپن یعنی بداخلاقی کے جتنے اوصاف ہیں ان سے غصہ
جنم لیتا ہے اور آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہے اس لئے مومن کی شان یہ ہوتی ہے
کہ وہ نہایت سیدھا سادا اور شریف النفس ہوتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
المؤمنُ غرٌّ كريمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئيمٌ.(صحيح أبي داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا
ہے۔
ہم کم سے کم بات کریں، خود کو اخلاق حسنہ سے مزین کریں اور زبان کی آفتوں
سے بچیں کہ یہی بڑی سے بڑی مشکلات لانے والی ہے اسی لئے تو رسول کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: مَن يَضْمَن لي ما بيْنَ لَحْيَيْهِ وما بيْنَ رِجْلَيْهِ
أضْمَن له الجَنَّةَ.(صحيح البخاري:6474)
ترجمہ: جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت
کی ضمانت دیتا ہوں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : من حسنِ إسلامِ المَرءِ تركُه ما لا يعنيه(صحيح
الترمذي:2317)
ترجمہ: فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔
ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ میں اخلاق وکردار والا،
ضرورت بھر نرمی اور ادب سے بات کرنے والا، زبان کا صحیح استعمال کرنے والا
اور حجت کے وقت خاموش ہونے والا ہو وہ غصہ کی آفات سے بچ جائے گا۔
(3) سماج میں کئی طبقے ہیں ، ان میں جاہل ونادان بڑی کثرت سے موجود ہیں ،
ان احمقوں کا کام شریف لوگوں کو چھیڑنا اور ان کے جذبات برانگیختہ کرکے
فساد برپا کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر ایک شریف انسان کا شعار جاہلوں کی
جہالت وبدتمیزی پہ صبروخاموشی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :وَإِذَا خَاطَبَهُمُ
الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ
سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے
اللہ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں
۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور
جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ
کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحيح الترمذي:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
(4) کبھی ہم انتقام لینے میں حق بجانب ہوتے ہیں کیونکہ ہم پر ظلم کیا گیا
ہوتا ہے مگر انتقام مزیدبگاڑ وفساد اور غیض وغضب کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے
اسلام نے معاف کرنے والے کو سراہا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :وَالَّذِينَ
يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا
هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوری: 37)
ترجمہ: وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے
میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا: نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِن مالٍ، وما زادَ اللَّهُ عَبْدًا
بعَفْوٍ، إلَّا عِزًّا، وما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّهِ إلَّا رَفَعَهُ
اللَّهُ.(صحیح مسلم:2588)
ترجمہ: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ
تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار
کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔
(5) غصہ کا ایک بھیانک سبب، تشدد پر مبنی حالات سے دورچارہونا یا پرتشدد
افلام کا مشاہدہ کرنا یا شدت والے ماحول اور دوستی استوار کرنا ہے۔ ہمیں
ایسے شدت پسند ماحول ، شدت پسند دوست اور پرتشدد مناظروافلام دیکھنے سے باز
رہنا چاہئے ورنہ ایسی شدت اور اس کا ردعمل غصہ کی شکل میں ہمارے جسم وروح
میں سرایت کرے گا۔
(6) شیطان ہماری رگوں میں گردش کرتا ہے اسے معلوم ہے کہ انسانی طبیعت میں
غصہ موجود ہے بس اس میں اشتعال پیدا کرنا ہے اس کے بعد خود ہی شیطانی عمل
ظہورپذیر ہوتا ہے ۔ اس بات کو اچھی طرح محسوس کریں اور شیطانی حملے سے بچتے
رہیں ۔ اس کےلئے نمازوں کی پابندی، اذکار پہ مداومت اور جلوت وخلوت میں
اللہ کا خوف پیدا کرنا ہے ۔
(7) اللہ سے بے خوف ہونا، معصیت پہ اصرار کرنا اور دینی تعلیمات کے حصول
اور ان پر عمل کرنے سے گریز کرنا بھی انسانی طبیعت میں غصہ بھڑکانے کا کام
کرسکتا ہے۔ آدمی جس قدر متقی ہوگا، گناہوں سے پرہیز کرے گا ، دین کا علم
حاصل کرے گا اور اسے عملی جامہ پہنائے گا وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے
ساتھ بندوں کے حقوق بھی عمدگی کے ساتھ ادا کرے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی
نہیں کرے گا۔
(8) موجودہ زمانے میں کسی کے خلاف بات کرنا بھی غصہ کا سبب ہے ، حد تو یہ
ہے کہ حق گوئی پر بھی غصہ کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں امورمیں حکمت وبصیرت لازم
ہے یعنی بات کرنے میں سلیقہ اور حکمت چاہئے اور اپنے خلاف حق بات سننے پر
بجائے غصہ ہونے کے اسے قبول کرنا چاہئے۔
(9) ذہنی تناؤ اور الجھن کا شکار ہونا بھی غصہ پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ آج کے
زمانے میں اکثریت ٹینشن کا بوجھ پال رہی ہے ۔ کسی کو دولت تو کسی کو غربت ،
کسی کو تجارت توکسی کو سیاست، کسی کو گھریلو تو کسی کوسماجی تناؤ نے ٹینشن
کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں چہار دانگ عالم میں لوٹ
مار،اختلاف وانتشار، قتل وٖغارت گری، فتنہ وفساداور ظلم وتعدی عروج وانتہا
کو ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصول دئے ہیں ،انہیں برتنے
والا ہر طرح کی مایوسی، پریشان خیالی اور فکر واضطراب سے بچا رہے گا۔
(10) جہاں عصبیت ہوگی وہاں غصہ بھی اپنی جگہ بنائے گا اور موقع بموقع ظاہر
ہوکر بگاڑ پیدا کرتا رہے گا ، آج کے دور میں فساد کی بڑی وجہ عصبیت بھی ہے۔
کہیں پرقومی عصبیت نے تو کہیں پر قبائلی عصبیت نے تباہی مچا رکھی ہے۔
خاندانی عصبیت یا لسانی عصبیت نے بھی صالح سماج کا خون کیا ہے۔مسلمانوں کے
درمیان مسلکی عصبیت نے تو اس قوم کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور یہ قوم
اپنی طاقت واتحاد کھوکر بھی خوش ہے۔ اسلام نے جسے اپنا بھائی کہا ہے عصبیت
میں مسلمان اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور جسے دشمن کہا گیا ہے اسے اپنا
دوست بنارہے ہیں ۔اے کاش ہمیں عصبیت سے چھٹکارا مل جائے تو سماج کی بہتری
کے ساتھ ساتھ دینی اعتبار سے بھی ہماری ترقی ہوگی۔
غصہ کے وقت فوری تدابیر
اوپر چند اسباب بیان کئے گئے ہیں جو غصہ لانے کا سبب بنتے ہیں اگر ان سے
بچا جائے تو غصہ پر انسان قابو پالےگا اور اس کے برے انجام سے زندگی بھر
بچتا رہے گا۔ اگر خدانخواستہ غصہ آجائے تو ہمیں فوری طور پر کیا کرنا
چاہئے؟
(1) سب سے پہلےشیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے کیونکہ وہی اصل محرک ہے
جو دل میں وسوسہ ڈال کر طبیعت کے اندرونی حصے سے غصہ کو باہر نکال دیا ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ
فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(الأعراف:200)
ترجمہ: اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چو کا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر
دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقینا وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا غَضِبَ الرجلُ فقال أعوذُ باللهِ سَكَنَ
غضبُه(صحيح الجامع:695)
ترجمہ: جب آدمی کو غصہ آئے اور اللہ سے پناہ مانگ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا
ہوجائے گا۔
صحیحین میں دوشخص کے گالی گلوج کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک کا چہرہ غصے میں
سرخ ہوجاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں، آپ ﷺ نے اس غصہ ہونے والے شخص کے
پاس آکرفرمایا : إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه : أعوذ بالله من الشيطان
الرجيم (صحيح البخاري: 3282،صحيح مسلم:2610)
ترجمہ: میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ اسے کہہ لے تو اس کی یہ کیفیت دور
ہوجائے ، وہ کلمہ ہے" اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم " (میں شیطان مردود سے
اللہ کی پناہ چاہتا ہوں)۔
(2) اس کے بعد فورا زبان پہ خاموشی اختیار کرلینی چاہئے کیونکہ جس قدر زبان
کھولے گا، غلط الفاظ نکلیں گے اور غصہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، اسی
لئے نبی ﷺ نے فرمایا: إذا غَضِبَ أحدُكم فلْيسكتْ(صحيح الجامع:693)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
(3) اپنی حالت تبدیل کرلینا چاہئے یعنی کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے
ہوں یا بیٹھنے سے غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا غضبَ أحدُكم وهو قائمٌ فلْيجلسْ، فإن ذهبَ عنه الغضبُ وإلاَّ
فلْيَضْطَجِعْ.(صحيح أبي داود:4782)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو چاہئے کہ بیٹھ جائے،
اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ پھرلیٹ جائے ۔
(4) غصہ کے وقت بعض حدیث میں وضو کرنا اور بعض حدیث میں غسل کرنا آیا ہے ان
دونوں قسم کی احادیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے،اس لئے غصہ کے وقت وضو
یا غسل کرنے کو نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا تاہم اہل علم نے لکھا
ہے کہ غصہ کے وقت ٹھنڈے پانی کا استعمال مفید ہے، اس لئے غصہ کے وقت پانی
پی لیا جائے یا ہاتھ منہ دھل لیا جائے تو بہتر ہی ہوگا۔
نوٹ : مضمون جاری ہے ، ان شاء اللہ
|