صادق الو عد الامین کے جانشین’’ صدیق وعتیق‘‘ حضرت ابو بکر صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ کی شان وعظمت

رب تبارک وتعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیاءِ کرام کو مبعوث فر مایا حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آخری نبی محمد ر سول ا ﷲ صادق ا لو عدالا مین ﷺ نے بنی نوع انسا نوں کو اﷲ کی وحدا نیت کا پیغام دیا اور رشدو ہدایت کی تعلیم دی اور بتا یاکہ اِھْدِ نَا ا لصِّرَاطَ ا لْمُسُتَقِیْمَ ہی سیدھا راستہ ہے، اسی پر چل کر انسان اﷲ کی بار گاہ کا پیا را بندہ ہونے کاشرف حاصل کر سکتا ہے۔ اﷲ رب العزت نے اولادِآدم سے اس بات کا عہدagreement, لیا ہے کی میرا راستہ سیدھا ہے اسی پر چلنا شیطان کو نہ پوجناارشادِ باری تعالیٰ ہے۔اَ لَمْ اَ عْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ ٓ اٰ دَ مَ اَ نْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ اِ نَّہ‘ لَکُمْ عَدُ وٌّ مُّبِیْنٌہ وَّ اَنِ عْبُدُوُ نِیْ ھَذَا صِرَا طٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمہ:اے اولادِ آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کونہ پوجنا بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے، اور میری بندگی کرنا یہ سیدھی راہ ہے،۔( کنزالایمان) جب نبی آخر الز ماں ﷺ نے نبوت کا اعلان فر مایا لو گوں کو اسلام کی دعوت دی کہ اے لو گو! اﷲ ایک ہے اسی کی عبادت کرو اور میں اﷲ کا بھیجا ہوا رسول ہوں محمد رسو ل اﷲ صادق الو عدالامین کا اعلان سنتے ہی حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کو گلے لگا لیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: لَااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمْدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں نبی آخر الز ماں ﷺ پر ایمان لانے والے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سب سے پہلے انسان ہیں،ظا ہری اعلان نبوت سے پہلے ہی آقا ﷺ صادق الو عدالا مین کے لقب سے مشہور تھے آپ کی سچائی پر اعتبار کر نے پر اور ایمان لانے پر آپ کو ’’صدیق ‘‘ کا لقب ملا۔ آپ کے ایمان لانے کا واقعہ بہت دلچسپ وطویل ہے مختصر تفصیل یہ ہے: ربیعہ بن کعب فر ماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا اسلام لانا آسمان وحی کی مانند تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اسلام سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہو تا تھا۔ ایک مر تبہ تجارت کے سلسلے میں آپ ملک شام تشریف لے گئے، یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آ ئے ہیں اور آپ کے گود میں داخل ہوگئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ایک ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا حضرت ابو بکر نیندسے بیدار ہوئے تو اس عجیب وغریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ سے پو چھا: تم کہا ں سے آئے ہو؟ آپ نے فر مایا؛ مکہ سے، اس نے پھر پو چھا: کیا کرتے ہو؟ فر مایا: تاجر ہوں؟ وہ راہب کہنے لگا: اگر اﷲ تعالیٰ نے تمھا رے خواب کو سچ فر مادیا، تو وہ تمھا رے ہی قوم میں ایک نبی مبعوث فر مائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہو گے اور وصال کے بعد اس کے جا نشین ہو گے۔حضرت ابو بکر صدیق نے اس واقعہ کو پو شیدہ رکھا اور کسی کو نہیں بتایا اور جب حضور ﷺ نے نبوت کا اعلان فر مایا تو آپ نے یہی واقعہ بطور دلیل حضور کے سامنے پیش کیا اور حضور ﷺ کو گلے لگایا اور پیشانی چومتے ہو ئے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ اسی وجہ کر آپ ﷺ نے آپ کو ’’صد یق‘‘ کے لقب سے نوازا۔(ریا ض النضرۃ: جلد اول صفحہ183)

صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کی عظمت: صحا بہ کی فضیلت میں قر آن کی آیتیں شا ہد ہیں اوراحا دیث طیبہ میں کثرت سے عظمتِ صحا بہ کا ذکر مو جود ہے۔ قر آن کریم میں محمد ر سول اﷲ صاد ق الو عدا لامین ﷺ کے سچ لانے اور سچ قبول کر نے کا ذکر اس طرح ہے۔وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖٓ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ، لَھُمْ مَّا یَشَآءُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ ذَالِکَ جَزٰٓ ؤُاالْمُحْسِنِیْنَ ۔(القر آن، سورہ زمر 39،آیت 34سے33)ترجمہ:اور وہ جو یہ سچ لیکر تشریف لائے اور جنھوں نے اس کی تصد یق کی یہی ڈر والے ہیں۔، ان کے لیے ہے وہ جو چا ہیں اپنے رب کے پاس نیکیوں کا یہی صلہ ہے۔( کنز الایمان) حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بڑے درجہ والے ہیں، صواعق مرحقہ میں بروایت ابن عساکر میں ہے حضرت علی کر م اﷲ وجہہ الکریم یوں ارشا د فر ماتے ہیں کہ سچائی لانے والے حضو ر ﷺ ہیں جو بظاہر اعلان نبوت سے پہلے ہی صا دق الو عد الا مین سے مشہور تھے یہ لقب نہ پہلے کسی کو ملا تھا نہ ہی قیا مت تک کسی کو ملے گا۔اور سچائی کی تصدیق کر نے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں اﷲ کے وہاں اِن کا بڑا درجہ بڑی عزت بہت شان و شوکت ہے یہ آیت کریمہ اس امر کی گواہ ہے(تفسیر نو را لعر فان ص،307) اور یہ آیت کریمہ صحا بۂ کرام کی شان وعظمت و فضیلت میں چار چاند لگا رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔رَضِیَ اللّٰہُ عََنْھُمْ وَرَضُوْ ا عَنْہُ وَ اَ عَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَاالْاَ نْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَ بَدًا ذٰ لِکَ الْفَوْ زُا لْعَظِیْمُ ۔(القرآن،سورہ التو بہ9،آیت100) تر جمہ: اور مہا جرین کے مدد گار(انصار) میں سے سبقت لے جا نے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ ان کی پیر وی کر نے والے، اﷲ ان(سب) سے راضی ہو گیا اور وہ(سب ) اﷲ سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فر ما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبر دست کامیابی ہے۔ تمام صحا بہ کرام کے جنتی ہو نے کا اعلان قرآن کریم میں ہو چکا صحابۂ کرام کی تعداد ایک لاکھ چو بیس ہزار ہے جن میں بعض کے فضا ئلِ خصوصی قرآن و حدیث میں منقول ہیں جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو سب سے پہلے ایمان لائے پھر عور توں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ( پہلے ایمان لانے سے آپ کو بھی کُبریٰ کا خطاب ملا) اور بچوں میں حضرتِ علی کر م اﷲ وجہہ الکریم۔ ابو بکر صدیق کا لقب’’یارِغار ‘‘ بھی ہے جسکا ذکر سورہ تو بہ میں مو جود ہے، آ پ کا’’ لقب ثانی اِثنین ‘‘بھی ہے حضور کے بعد سب سے بڑا آپ کادر جہ ہے کہ انھیں رب نے حضور کا ثانی فر مایا سورہ تو بہ آیت نمبر 9۔ اسی لیے حضور ﷺ نے انھیں اپنے مصلیٰ پر امام بنایا،حضور کے حیات میں آپ نے 9بار امامت فر مائی، آپ کی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کی آپ کی چار پشت صحابی ہیں1والدین بھی صحا بی ہیں2آپ خود بھی صحا بی ہیں3آپ کی اولاد بھی صحا بی ہیں4آپ کی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں یہ صرف آپ کی خصو صیت ہے ، آپ کا لقب ’’عتیق‘‘ بھی ہے صحا بی کے درجات کو قر آن نے جگہ جگہ بیان کیا ہے حدیث پاک میں بھی نبی صادق ﷺ نے بتایا، فر مایا:حضر ت ابو سعد خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حدیث اس طرح سے ہے۔’’لاتسبُّو االصحا بی؛ فلواٰن اَحدَ کم مثل اَحَدٍذھَبًا مَا بَلَغ مُدَّاَحد ھم ولا نصیفَہ‘‘؛اخرجہ الشیخان فی ’’صحیحیھما‘‘ ترجمہ: میرے اصحاب کو برا مت کہو۔ اگر کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برا بر بھی سونا(اﷲ کی راہ میں خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مُد کے غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ آدھہ مد کے برابر۔،( بخاری، حدیث3673، اس حدیث کے راوی عبداﷲ بن داوود، ابو معا ویہ، اور محا ضر نے بھی روایت فر مائی ہے) یہ ہے صحابۂ کرام کی عظمت و فضیلت کی اگر کو ئی احد پہاڑ کے برا بر بھی سو نا صدقہ کردے اور صحا بۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین ایک مٹھی غلہ(جو) یا آدھی مٹھی بھی اﷲ کی راہ میں دے دیں تو احد پہاڑ کے برا بر سونا دینے والا بھی صحا بہ کے برا بر نہیں کر سکتاہے سبحا ن اﷲ سبحا ن اﷲ حضرت ابو بکر کی فضیلت میں بے شماراحا دیث ہیں یہ حدیث مطا لعہ فر مائیں۔ حضرت عبدا لعزیز بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں جب صحا بہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہاجاتا تو سب میں افضل اور بہتر ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو۔(صحیح بخاری، حدیث3655)جب قر آن کریم واحا دیث طیبہ میں آپ کی شان و فضیلت کاذکر ہے تو کوئی انسان آپ کی تعریف کیا کر سکتا ہے چند خو بیاں مطالعہ فر مائیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسلام قبول کر نے کے بعد آپ تما م اسلامی جہادوں میں شامل رہے،حق و با طل کی پہلی جنگ ، جنگ ِ بدر، اُحُد،خندق،تبوک،حدیبیہ ، بنی نضیر، بنی مصطلق،حنین، خیبر، فتح مکہ سمیت تمام ’’غزوات‘‘(غزوہ) وہ جہاد جس میں رسولِ کریم ﷺ شریک ہوئے) میں سر کار دو عالم کی ہمرا ہی میں شا مل رہنے کا شرف حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول کیا، ایثار(قربانی) وسخا وت کا نمونہ اﷲ کے راہ میں پیش کی جسکی مثال تاریخ عالم میں ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔اس غزوہ میں سر کار دوجہاں ﷺ کی تر غیب( کسی کام کے کر نے پر آ مادہ کر نا) پر تمام صاحب استطاعت صحا بہ نے دل کھول کر لشکرِ اسلامی کی امداد کی مگر ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی،کہ آپ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے۔جب رسو ل اﷲ ﷺ نے پو چھا کہ: اے بو بکر! گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھو ڑا ہے؟‘‘ توآپ نے عرض کی’’گھر والوں کے لییاﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں‘‘۔
؂ پر وا نے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے خدا کا رسول بس

دور رسالت میں امامت و اول امیر المومِنین: دورِرسالت کے آخری ایام میں رسول اﷲ ﷺ نے آپ کو نمازوں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ نے مسجدِنبوی میں سر کار دوعالم ﷺ کے حکم پرمصلیٰ رسول17 نمازوں کی امامت فر مائی۔ نبی کریم ﷺ کا یہ اقدام آپ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ ایک دفعہ نماز کے وقت میں ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ مدینہ سے با ہر تھے،حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے آپ کو نہ پاکر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کو نماز کی امامت کو کہا۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو امامت کر واتا دیکھ کر آپ ﷺ نے فر مایا: اﷲ اور اس کا رسول یہ پسند کرتا ہے کہ ابو بکر رضی اﷲ عنہ امامت کرے۔ یہ بات حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ پر آپ ﷺ کے اعتماد کا اظہارتھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فر مانے کے بعد صحابۂ کرام کے مشورے سے آپ کو جا نشینِ رسول مقر رکیا گیا۔ آپ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔بارِ خلافت سبھا لنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔’’ بہت طویل خطبہ میں بہت سی باتیں ارشاد فر مائیں، میں آپ لو گوں پر خلیفہ بنا یا گیا ہوں حا لا نکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب وامارت اپنی رغبت اور خوا ہش سے نہیں لیا،نہ میں یہ چا ہتا تھا کہ دوسرے کے بجا ئے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اﷲ رب العزت سے اس کے لیے دعا کی اور نہ ہی کبھی میرے دل میں اس منصب کے لیے حرص لا لچ پیدا ہوئی‘‘۔آپ کی حق گوئی سچائی کی جو باتیں آپ نے خطبہ میں فر مائیں ان میں سے یہ بھی ہے فر مایا:’’ سچا ئی امانت ہے‘‘’’اور جھوٹ خیانت ہے‘‘ آپ کی اس نصیحت پر ہم تمام مسلما نوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے دنیا وآخرت کی کامیابی اسی میں ہے اﷲ رب العزت ارشاد فر مارہا ہے (القر آن، سورہ توبہ 9،آیت 119) تر جمہ: اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔(کنزالایمان) اﷲ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم فر مائی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سچے لو گوں کے ساتھ رکھنی چاہیے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے ہوں سچائی ایک بہت بڑی نعمتِ عظمیٰ ہے اور سچوں پر اﷲ کی رحمتیں برستی رہتی ہیں اور انعام کی بارشیں ہو تی ہیں اﷲ رب العزت اپنے متقی پر ہیز گا ر بندوں کے اوصاف بیان فر مارہا ہے۔(القر آن، سورہ آل عمران3 ,آیت17) تر جمہ:(یہ) لوگ صبر کر نے والے ہیں اور قول وعمل میں سچا ئی وا لے ہیں اورآداب و اطاعت والے ہیں جھکنے وا لے ہیں اور اﷲ کی را ہ میں خرچ کر نے وا لے ہیں اور رات کے پچھلے پہر(اٹھ کر) اﷲ سے معا فی ما نگنے وا لے ہیں۔ مسلما نوں کو چا ہیے کی سچائی کاراستہ اختیار کریں سچوں کی پیر وی کریں جھوٹ اور خیا نت سے دور رہیں امانت داری میں ہی بھلائی اور نجات ہے اﷲ تعالیٰ ہم تمام مسلما نوں کو سچائی پر چلنے کی تو فیق دے اور سچوں کی صحبت نصیب فر مائے آ مین ثم آمین۔

Hafiz  Hashim
About the Author: Hafiz Hashim Read More Articles by Hafiz Hashim: 7 Articles with 7592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.