یکم ستمبر 1939ء کو جرمن فوج پولینڈ میں داخل ہوئی اور
اسی دن اس جنگ کا آغاز ہوگیا ۔جسے ہم دوسری جنگِ عظیم کے نام سے جانتے ہیں
،اور جس میں اکسٹھ ممالک نے حصّہ لیا (کل دُنیا کی %80) جبکہ یہ جنگ چالیس
ملکوں کی زمین پر لڑی گئی ۔جنگ کی تباہ کاری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف
روس کے ستّر ہزار گاؤں اور بتیس ہزار کارخانے راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے ۔ چھ
سال بعد یہ جنگ اختتام کو پہنچی تو ھیروشیما سے برلن اور لندن سے سٹالن
گراڈ تک موت ہی موت تھی ۔
جنگ شروع کرنے والے اٹل کےمسولینی کو اپنےھی عوام نے 28 اپریل 1945ء کو
اٹلی میں مار دیا جبکہ دو دن بعد یعنی 30 اپریل کو اس کے ساتھی جرمنی کے
ھٹلر نے بھی خودکشی کر لی لیکن تب تک پانچ کروڑ افراد مارے جا چکے تھے اور
دُنیا کے ایک بڑے حصّے خصوصًا یورپ سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور سوگواروں کی
تعداد لاشوں سےبھی کم رہ گئی تھی۔
22ستمبر 1980ء کو ایران عراق جنگ شروع ہوئی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی ،
سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ایک قرارداد ( 598) پاس کی اور جنگ بند
کرائی تو ایران کے حصّے میں پانچ لاکھ جبکہ عراق کو تین لاکھ پچھتر ھزار
لاشوں کا حصّہ ملا تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران دُنیا میں تنھا ہوگیا جبکہ
صدام حسین اور عراق کا انجام آپ کے سامنے ہے۔
24دسمبر 1979ء کو روسی دوج افغانستان میں داخل ہوئی اور جب دس سال بعد اس
کی شکستہ کھائی فوجیں اپنے ملک لوٹ رہی تھیں تو نہ صرف وسیع و عریض روس کئی
حصّوں میں بٹ چکا تھا بلکہ چودہ لاکھ افغانوں کی لاشوں کو گدھ نوچ چکے تھے
جبکہ شدید خانہ جنگی اور طویل مھاجرت الگ سے اس جنگ کے میراث ہیں ۔
1965ء میں امریکہ نے اپنے دستے ویتنام میں اُتارے تو چھ سال سے جاری جنگ
میں مزید شدّت آگئی بالآخر دس سال بعد 1975ء میں جنگ اختتام کو پہنچی لیکن
تب تک پندرہ لاکھ کے قریب ویتنامی مار دئیے گئے تھے جبکہ امریکہ اور اس کے
اتحادی ممالک بھی اس جنگ سے تین لاکھ لاشیں وصول کر چکے تھے ۔
اس طویل تمھید کو باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگ کسی قوم کی جھولی میں
اگر کوئی تحفہ ڈالتی ہے تو وہ صرف لاشیں ،بربادی ،غربت ،مسائل اور تنھائی
ہی ہوتے ہیں جو بہت دور تک اور دیر تک پیچھا کرتے ہیں ۔
اس لئے اگر ہم ملک کو درپیش خطرناک صورتحال ( جنگ کے منڈلاتے بادل ) کے پیش
نظر بعض حقائق کے ادراک کی طرف مڑیں تو وہ یقینًا ھمیں تدّبر ،بصیرت اور
احتیاط کے راستے پر ڈال سکتی ہے جو اس ملک کی بقاء اور استحکام کی ضامن
ہوگی اور جسے ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس بریفنگ میں بہت حد تک واضح بھی
کرچکے ہیں۔
اگر ہم شیخ رشید ٹائپ لوگوں کی “ چھوڑُو پریس کانفرنس “ اور سوشل میڈیا کے
نوزائیدہ مجاھدین کی حقا ئق سے ماوراء باتوں کو پس پشت ڈال دیں تو کچھ تلخ
حقیقتیں ھمارے سامنے ہیں ۔ مثلاً ہم اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کا شکار
ملک ہیں ،ساتھ ساتھ دُنیا کے بیشتر ممالک کو ھمارے بعض معاملات پر تحفظات
ہیں ۔
اس کے علاوہ ھندوستان کے پاس سوا ارب آبادی کی وجہ سے دُنیا کی چوتھی بڑی
فوج ہے ،جبکہ پاکستان اس سلسلے میں گیارھویں نمبر پر ہے ۔ انڈیا کا دفاعی
بجٹ اٹھاون کھرب سے زائد ہے جو امریکہ ،روس ،چین اور سعودی عرب کے بعد
پانچواں بڑا دفاعی بجٹ ہے ۔
جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ دس کھرب سے بھی کم ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذھین نشیں کرنا ہوگی کہ ھمارا دشمن دُنیا
کی ساتویں بڑی معیشت ہے اور اس کا جی ڈی پی بائیس سو ارب ڈالر سے ذیادہ ہے
۔
ھمیں یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ھماری بعض نادانیوں کی وجہ سی
ھمارا دشمن سفارتی محاذ پر اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے ۔
لیکن ان تمام تر تحفظات کے باوجود بھی ایسا ھرگز نہیں کہ ھندوستان چڑھ دوڑے
گا اور (خدانخوستہ ) ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ نہ یہ ملک نیپال ہے اور نہ
ھماری فوج جواب دینے کی طاقت سے محروم !
تاہم دانشمندی اور تدّبر سے کام لینا ہی بہتر ہے جو نہ صرف ھمارے حق میں
اچھا ہے بلکہ ھندوستان کی بقاء بھی اس سے وابستہ ہے ۔ اور ھاں حالات کی
نزاکت کو دیکھتے ھوئے ھمیں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات کا ازسرنو جائزہ
لینا ھوگا بلکہ سنجیدگی اور تدبر کا دامن بھی تھامنا ھوگا تاکہ کسی بھی
مشکل صورتحال میں ھلکا سا دراڑ بھی دکھائی نہ دےساتھ ساتھ ان لفنگوں کو شٹ
اپ کال دینی ھوگی جو حقائق سے بے خبر اپنی سیاست چمکانے میں مگن ہیں( بلکہ
ھو سکے تو ان کے ھاتھ میں موجود مائیک ان کے منہ میں گھسیڑ دیا جائے )تا کہ
قوم یکسوئی کے ساتھ جنگ ٹالنے اور دانشمندی اپنانے کے سفر میں تیزی لا سکے.
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی |