کسی کو یاد ہے ؟

کسی کو یاد ہے ؟ صرف پانچ ہفتے پہلے اسی ملک کے ایک شہر میں تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے نہتے والدین، بہن اوروالدکے دوست کو سی ٹی ڈی کے درندوں نے گولیوں سے چھلنی کردیا تھا ۔

ملک بھر میں وہ کون سی آنکھ ہوگی جو اس سانحے پہ روئی نہ ہوگی ، وہ کون سا دل ہوگا جو ان بچوں کے غم میں تڑپ نہ ہوگا ؟ ۔ہر شخص اس ظلم پہ اداس تھا سب کہہ رہے تھے یہ ظلم عظیم تحریک انصاف کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے،اور حکومتی زعماء کی جانب سے بھی بڑے بڑے دعوے کئے جارہے تھے ، عوامی غم و غصہ اس کے علاوہ تھا ۔ لیکن ہوا کیا ؟ وہی جو ہمیشہ ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے وقت گزرنے کے ساتھ احساسات اور جذبات دونوں ٹھنڈے، اور انصاف کھٹائی میں ۔ میں اکثر سوچتا ہوں اس ملک میں لیڈر شپ کتنی آسان ہے ، بڑے سے بڑا سانحہ ہمارے قومی ضمیر کو جھنجوڑنے میں ناکام رہتا ہے ۔چار دن ہم بہت احتجاج کرتے ہیں انصاف کے مطالبے ہر خاص و عام کی طرف سے ہوتے ہیں پھر وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ختم ۔ یہ ایسا دیس ہے جہاں قانون لنگڑا انصاف اندھا اور محافظ قاتل بنتے دیر نہیں لگتی۔ پانچ رکنی جے آئی ٹی جس کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اعجاز حسین شاہ تھے نے اپنی رپورٹ وزیراعلی عثمان بزدار کو پیش کردی ہے ۔رپورٹ انصاف پر مبنی ہے یا نہیں میں اس پر بحث نہیں کروں گا اس پر بات کرنے کے لئے بہت سارے قانونی ماہرین موجود ہیں ۔ میں یہاں صرف رپورٹ کے چند ایک اقتباس پیش کروں گا ۔
"رپورٹ کے مطابق صفدر کی سربراہی میں سی ٹی ڈی ٹیم نے کار میں بیٹھے افراد کو دہشت گرد سمجھ کر کار پر پیچھے سے بلا اشتعال فائرنگ کر کے روکا۔

فائرنگ کی وجہ سے کار سڑک پر موجود رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی جس کے بعد اہلکاروں نے 3 بچوں کو باہر نکالا اور بقیہ 4 افراد کو فائرنگ کرکے قتل(شہید) کردیا"۔ آپ اندازہ کیجئے آلٹو ایک چھوٹی سی کار روک کر تین چھوٹے بچوں کو بے ضرر سمجھ کر باہر نکالا جاتا ہے اور بقیہ چار نہتے افراد جن میں ایک تیرہ سالہ بچی بھی شامل ہے کو تین درجن کے قریب گولیاں ماری جاتی ہیں ۔

آج کے مہذب دور میں کہیں ایسی درندگی کی مثال ملتی ہو ضرور بتائیے!۔

رپورٹ کا ایک اور حصہ ملاحظہ کجئے " ذیشان کے موبائل میں اس کی ہارون عثمان( دہشتگرد) کے ساتھ تصویر بھی پائی گئی جو 4 نومبر 2018 کو کھینچی گئی تھی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ساتھی تھے"۔کسی مجرم کے ساتھ سیلفی لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ آپ کو کہیں بھی دہشتگرد قرار دیکر مارا جاسکتا ہے ۔
اسی رپورٹ کے مطابق ذیشان کا چھوٹا بھائی جو ڈولفن فورس جیسے حساس اور ذمہ دار ادارے کا اہلکار ہے کا کردار بھی مشکوک قرار دیا گیا ہے ۔ مجھے نہیں پتہ ذیشان دہشت گرد تھا یا نہیں ؟ البتہ حقائق یہی کہتے ہیں کہ وہ بھی بے گناہ تھا ، لیکن ذیشان کے بھائی کو مشکوک اسی لئے قرار دیا جارہا ہے کہ کل کو اس پہ کسی طرح سے دباو ڈالا جاسکے ۔ اہل علم اچھی طرح سے جانتے ہیں ڈولفن جیسی فورسز کے اہلکاروں کی کلیئرنس حساس ایجنسیاں کرتی ہیں ۔اور اگر یہ شخص واقعی مشکوک ہے تو ایجنسیوں کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ضرور آتا ہے ۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ " آپریشن کے بعد اہلکاروں نے ہتھیاروں میں چھیڑ چھاڑ اور ردوبدل کی اور افسران نے جائے وقوعہ کو بھی محفوظ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی"۔ہم بڑی بڑی جلدی جلدی سب کچھ بھول جانے والے لوگ ہیں ، لیکن ! ہم اگر چاہتے ہیں کہ اگلی بار ہم میں سے کوئی بے گناہ دہشتگرد قرار دیکر نہ مارا جائے، تو اس بار ہمیں اپنی روائت بدلنی ہوگی ۔ ورنہ اگلی بار اہل وطن ایک بار پھر میرے یا آپ کے قتل نا حق پہ رو رہے ہونگے ۔

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.