سبق پکاؤ اور کامیاب ہوجاؤ

’’سر آپ کے ادارے کے تعلیمی نظام اومروجہ نظام تعلیم میں کیا فرق ہے؟‘‘۔انکوائری کے لیئے آئے ہوئے ایک شخص نے امجدحسین شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’عمومی اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس کا تعلق صرف دولت کمانے سے ہے۔ چھوٹی کلاسز کے بچے صرف تین گھنٹے سکول میں گزارتے ہیں اور بڑی کلاسز کے بچے چار سے پانچ گھنٹے گزارتے ہیں۔ اگر بچے کی کارکردگی اچھی نہیں جارہی تو سکول والے والدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ان کو کسی اچھے ٹیوٹر کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ہر بچے کے لیئے سکول کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی لازمی ہوگئی ہے۔چند سال پہلے ہی کی بات ہے کہ ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو سکول ٹیچرز سے مار پڑتی تھی۔اور ایک ٹیچر کے لیئے یہ چیز باعث شرم ہوتی تھی کہ اس کی کلاس کے بچے ٹیوشن پڑھتے ہیں۔اب تو یہ چیز باعث فخر ہے بلکہ ٹیچر ز کے لیئے اضافی آمد نی کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے‘‘۔

امجد شاہ صاحب نے بتا یا۔
’’یہ بات تو آپ کی درست ہے کہ ہمیں سکول ٹیچرز یہ کہتی ہیں کہ ٹیوشن کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔بچے پڑھتے تو ہیں لیکن ان کو کسی چیز کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ہر کام میں وہ دوسرے لوگوں کے محتا ج ہوتے ہیں‘‘۔

’’ہم بچے کو خود اپاہج بنا تے ہیں ۔ ہم اس کو اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے ہی نہیں دیتے۔ہمار ا تعلیمی نظام بچے کو خود مختار نہیں ہونے دیتا ۔ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ کل کو یہ بچہ ان کا سکول چھوڑ کر نہ چلا جائے ۔ اسی لئے وہ اس کو اس قابل نہیں ہونے دیتے کہ وہ اپنا اچھا برا خود سوچ سکے‘‘۔

’’بچے کو آئے دن کلر ڈے کے چکر میں ڈالا ہوتاہے۔ کبھی فن فئیر ہو رہا ہے تو کبھی ایوارڈز دے رہے ہیں۔ کبھی سکول میں جھولے والے آئے ہوئے ہیں تو کبھی سکول کا ٹرپ جارہا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی انداز میں لوگوں سے پیسے اینٹھے جاتے ہیں۔لیکن بچے سے کوئی بھی بات پوچھو! تو جواب ندارد۔ بچے کہتے ہیں کہ یہ تو ٹیچر نے ہمیں پڑھایا ہی نہیں یا یہ سوال تو ہمارے سلیبس میں ہی نہیں ہے۔یوں سمجھ لیں کہ یہ لوگ لکیر کے فقیر بن گئے ہیں‘‘۔

’’بچوں کو جو آکسفورڈ کا سلیبس پڑھایا جاتاہے وہ بھی مکمل نہیں پڑھایا جاتا ہے۔بہت سے چیپڑز ٹیچر ز کو نہیں آتے ۔ اس کے علاوہ ایک مشق میں سے بھی تما م سوالات نہیں کروائے جاتے ۔جو سوالات ٹیچر ز کو سمجھ میں نہیں آتے وہ چھڑوا دیئے جاتے ہیں۔اور کئی ٹیچر ز تو بچوں کو غلط سوالات بھی حل کروادیتی ہیں ۔ اگر کوئی والدین اپنے بچوں کی کتا بیں چیک کرتے ہیں تو پھر تو وہ اس غلطی کو پکڑ لیتے ہیں وگرنہ جو کا م بچوں کو کروایا جاتا ہے وہ اس کو ہو بہو یا د کرلیتے ہیں چاہے وہ غلط ہو یا صیح۔ہما رے ادارے میں بچوں کو پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کا سلیبس کروایا جاتاہے اور مکمل کروایا جاتا ہے اور اتنی بار ان کے ٹیسٹ لیئے جاتے ہیں کہ وہ سارا کچھ ان کو ازبر ہو جاتا ہے۔ہر مضمون کی کلاس دو گھنٹے کی ہوتی ہے۔ پہلے ٹیچر کل کا سبق سنتا ہے۔پھر ان کو نیا سبق پڑھاتا ہے اور پھر اس پڑھا ئے ہوئے سبق میں سے ٹیسٹ لیتا ہے۔بچو ں کو یہ نہیں کہا جاتاکہ تم نالائق ہو اور ٹیوشن پڑھوں بلکہ ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔تمہارے سامنے ایک بہت بڑی منزل ہے لیکن اس کو آپ ٹیچرز کی مدد سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔جتنا خود پر ذیادہ اعتما د کروگے اور سبق کو اچھی طرح پکاؤ گے تو تم ضرور کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.