تزکیہ نفس کیوں ضروری ہے

اللہ رب العزت نے خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ فرمایا فَاَمَّا مَنْ طَغٰیo وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاo فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰیo وَ اَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰیo (النزعٰت 37..41:79 ) ’’تو وہ جس نے سرکشی کی (خواہشات نفس کا تابع ہوا)اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا(آخرت کی دائمی زندگی اور نعمتوں پر )تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے اور جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا ( یعنی اس نے یقین کر لیا کہ اسے ضرور اپنے رب کے حضور جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اوراپنی دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے ) اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو بیشک جنت اسی کا ٹھکانہ ہے۔‘‘

تزکیہ نفس،اپنے نفس کا تزکیہ کرنا، اپنے نفس کو پاک کرنا۔ مجاہدۃ النفس، اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا۔ مجاہدۃ النفس یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اس کی حیوانیت پر اس طرح قابو پا لے کہ پھر زندگی کے کسی گوشے میں بھی اس کی حیوانی خواہشات ، نفسانی جذبات ، شیطانی وسوسے اس کے نفس ( روح) پر غالب نہ آ سکیں بلکہ اس کی روح اس کی ان خواہشات و جذبات کو اس قدر زیر کر لے کہ کوئی بڑے سے بڑا خوف ، لالچ، حرص، طمع، نفع یا نقصان بھی اسے اطاعتِ الٰہی اور حدود اللہ کی پابندی و احترام سے نہ ہٹا سکے اور وہ دنیا کی سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنی جان و مال سب اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے دین کی سربلندی کیلئے وقف کر دے۔ یہی کمالِ انسانیت ہے، یہی فخرِ آدمیت ہے اور اسی کو اللہ رب العزت نے انسان کیلئے بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ فرمایا
وََ منْ یُّطِع اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًاo
’’جس نے اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت کی راہ اختیار
کر لی اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘ (الاحزاب71:33)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین جسمانی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ سرتاج کائنات اور اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر خلافت بخشی، پھر انسان کیلئے سب موجوداتِ عالم کو مسخرکر دیا، اس کی روزی کیلئے زمین پر مختلف غذائی اجناس پیدا کیں، زمین سے غلے اور میوے اگائے۔ زمینی پیداوار اگانے اور بڑھانے کیلئے آسمان سے پانی ( بارش) کا اہتمام فرمایا۔ پیداوار کو حرارت اور روشنی بخشنے کیلئے سورج پیدا کیا، اس طرح تمام کائنات کو یعنی جمادات، نباتات ، حیوانات سے لے کرآفتاب ، مہتاب اور ستاروں تک انسان کی خدمت میں سرگرم عمل اور مصروفِ خدمت بنا دیا۔ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ زندگی کو نعمت خداوندی سمجھے اور خداداد جسمانی ، ذہنی، روحانی اور نفسیاتی قوتوں کو تباہی و بربادی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اسلام میں نہ تو خواہشات و جذبات کی بیخ کنی مطلوب ہے اور نہ ہی ہوائے نفس میں ڈوبے رہنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ ان خواہشات و جذبات کو شریعت کی حدود ، احکام و ہدایات کے عین مطابق رکھ کر اعتدال کی زندگی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے یعنی شریعت اسلامی میں نفس کی جائز خواہشات کی تکمیل ضروری ہے اور نفس کے حقوق کو صحیح طریقے سے قرآن و سنت کے عین مطابق ، حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے ادا کرنا جہاد اکبر فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے ۔
ولنفسک علیک حق۔ ’’ تم پر تمہارے نفس کابھی حق ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ نفس کے بھی حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔ انسان کے ذمے اپنے نفس کا سب سے اہم حق یہ ہے کہ وہ اس کی عزت و وقار کا خاص خیال رکھے، اپنی آزادی و خودمختاری کو کسی قیمت پر نہ بیچے، دوسروں کا دست نگر نہ بنے، دوسروں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے کیونکہ اس قسم کی حرکتوں سے عزتِ نفس کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کے وجود کو برقرار رکھنے اور پیدائش و افزائش نسل کیلئے کچھ حیوانی خواہشات اور نفسانی جذبات رکھے ہیں اور ساتھ ہی اسے قوتِ فکر و نظر اور عقل و وحی کے ذریعے جائز و ناجائز میں تمیزبتا دی۔ جسم اور روح دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کو مناسب توجہ دے کر ان کی نشو و نما کا خاص خیال رکھناانسان کا فرض ہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان صرف حیوانوں کی طرح کھا پی کر پیدائش و افزائش کے حیوانی جذبات کو تسکین دینے کیلئے اپنی زندگی کو وقف کر دے اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ وہ جسمانی ضرورتوں اور فطری جذبات کو پس پشت پھینک کر روحانی ترقی حاصل کر لے۔ اسلام صرف یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے جسمانی تقاضوں کو عقل و دین کے ماتحت رکھ کر اعتدال کی زندگی بسر کرے۔
ایمان اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک لطیف تعلق ہے جس کا سب سے پہلا ہدف تزکیہ نفس اور ا عمال و اخلاق کی درستگی ہے، ان سب چیزوں کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک نفس میں ایک زندہ جذبہ موجود نہ ہوجس کی بنا پر انسان غلطیوں سے بچا رہے اور فضول باتوں سے کراہت محسوس کرے۔ بلا جھجک حقیر چیزوں میں پڑ جانا اور صغیرہ گناہوں کی پروا نہ کرنا حیا کے فقدان سے ہوتا ہے اور حیا کا فقدان ایمان کے فقدان کی دلیل ہے۔ حدیث مبارکہ ہے
’’حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اُٹھ جاتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا۔ اذا فاتک الحیاءُ فا فعل ما شئت ’’یعنی جب حیا کھو بیٹھو تو جو جی میں آئے کرو۔‘‘
مراد یہ کہ حیا کھو دینے کے بعد انسان کا ایمان (اللہ عزوجل اوراس کے پیارے رسول ﷺ) سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا ، پھر جو اس کے جی میں آئے کرتا چلا جائے ۔ جب انسان اپنی حیا گم کر دیتا ہے تو وہ ایک وحشی درندے کی مانندہوجاتا ہے، اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے، شرعی و اخلاقی حدود کو روند ڈالتا ہے، غریبوں کا مال غضب کرتا ہے اور اپنے دل میں ان کیلئے رحم نہیں پاتا، مخلوق خدا کو مصائب میں دیکھتا ہے اور اس پر اثر نہیں ہوتا۔آج لوگ دنیا کے حرص اور لالچ میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اگر ان کا کوئی بڑا پالتو جانور گائے، بھینس ، بکری وغیرہ اتفاقاً مر جائے تو حرص دنیا کیلئے اس کی کھال تک اتار کرباقی ڈھانچہ باہر پھینک دیا جاتا اور دفن کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے ۔ اتنے بے رحم اور سفاک بن چکے دنیا کے لوگ، کہ جس جانور نے ساری زندگی ان کی خدمت کی، ان کے بچوں کے لئے دودھ دیا اور کئی دنیاوی اغراض پوری کیں اور مرتے وقت چار دنیاوی پیسوں کیلئے اس کے وجود سے کھال تک اتار لی گئی، کنتی بے رحمی اور سفاکی کی انتہا ہے اور خدا کے غیض و غضب کو خود دعوت دینے کے مترادف۔ انسان کی دنیاوی حرص اور خو د پرستی اس کی آنکھوں پر تاریک پردہ ڈال دیتی ہے کہ اسے کچھ نظر نہیں آتا، جو انسان اس پستی تک پہنچ جائے تو سمجھ لو کہ وہ انسانیت کی حدود سے باہر نکل گیا۔ اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا
احبس حوٰاسک۔ ’’اپنے حواس کو اپنے قابو میں رکھو۔‘‘ پھر فرمایا
المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ۔ (ترمذی)
’’ مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا۔ ’’ہوشیا ر ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھے اور موت کے بعدکیلئے عمل کرے اور بے وقوف ہے وہ شخص جو نفس کی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ عزوجل سے آرزوئیں رکھے۔‘‘
حضور سید عالم ﷺ نے مجاہدہِ نفس کو جہاد اکبر قرار دیا ہے ۔ ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اب ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘
صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! جہادِ اکبر کیا ہے ؟ تو فرمایا۔’’مجاہدہِ نفس یعنی نفس سے جہاد ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر آپﷺ نے فرمایا۔
’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا،یعنی جس نے اپنے نفس کو فنا کے ساتھ پہچان لیا اس نے اپنے رب کو بقاء کے ساتھ پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کوذلت کے ساتھ پہچان لیا اس نے اپنے رب کو عزت کے ساتھ پہچان لیا، جس نے اپنے نفس کو بندگی سے پہچان لیا اس نے اپنے رب کو ربوبیت کے ساتھ پہچان لیا۔‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے ۔
ٍ ’’اذا اراد اللہ بعبد خیرا یبصرہ بعیوب نفسہ۔
’’اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے پر بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے نفس کے عیوب دکھاتا ہے( پھر اگر وہ اس پر صبر کرے اور ثابت قدم رہے تو اس کیلئے بھلائی ہی بھلائی ہے)۔‘‘ اسی لیے اللہ عزوجل فرماتے ہیں ۔
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہ‘ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o اِنَّ الَّذِiْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طٰءِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَo وَاِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَo (الاعراف 200..2:7)
’’اے سننے والے ! اگر شیطان تیرے دل میں کوئی وسوسہ ڈالے توفوراً اللہ کی پناہ مانگ۔ بیشک وہ سنتا اور جانتا ہے۔ بیشک وہ لوگ جو پرہیزگار ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال ، وسوسے کی کوئی ٹھیس لگتی ہے تو وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں ، شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں اور کبھی کمی نہیں آنے دیتے۔‘‘
حدیث مبارکہ ہے کہ ۔’’ میری امت پر سب سے زیادہ خوفناک چیز خواہش کی پیروی اور لمبی امیدیں ہیں۔‘‘ اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَاِم وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِنْدَہ‘ حُسْنُ الْمَاٰبِo (آلعمران 14:3)
’’لوگوں کیلئے آراستہ کی گئی خواہشوں کی محبت ( تاکہ شہوت پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق و امتیاز ظاہر ہوجائے) عورتیں اور بیٹے اور اوپر تلے سونے اور چاندی کے ڈھیر اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی ، یہ سب جیتی دنیا کی پونجی ہے اور وہ اللہ ہی ہے جس کے پاس سب سے اچھا ٹھکانہ ہے۔‘‘
تمام نفسانی خواہشات دو قسم کی ہوتی ہیں ایک لذت و شہوت کی خواہش اور دوسری لوگوں میں عزت ومنزلت ، مال وزر میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تمنا اور حکومت کی خواہش۔ جو آدمی لالچ اور خواہشات میں پھنسا ہوا ہو وہ لوگوں کیلئے فتنہ ہے کیونکہ وہ خو د تو راہ راست سے برگشتہ ہے ہی مگر اور لوگوں کو بھی اسی لالچ و گمراہی میں پھنساتا ہے لہٰذا جس کی حرکات اس کی خواہش کے پیروی میں ہوں اور وہ اس سے راضی ہو وہ حق تعالیٰ سے دور ہے اگرچہ وہ تمہارے ساتھ مسجد میں ہی کیوں نہ ہو اور جس کی حرکات خواہش سے پاک ہوں اوروہ اس سے راضی ہو کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہیں کرتا بلکہ ان سے جہاد کرتا ہے تووہ حق تعالیٰ کے نزدیک ہے اگرچہ وہ کلیسا میں ہی کیوں نہ ہو۔
زندگی کے تمام اسباب ، مال و متاع آدمی کیلئے آزمائش ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا o وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزًا o (الکہف 8:18)
’’بیشک ہم نے زمین کا سنگار کیا تاکہ جو کچھ اس پر ہے اس سے انہیں (لوگوں کو ) آزمائیں کہ ان میں کس کے کام بہتر ہیں ( کون زہد و تقوی اختیار کرتا ہے، کون محرمات و ممنو عات سے بچتا ہے، کون حدود اللہ کی پاسداری کرتا ہے اورکون اس کی خلاف ورزی کرتا ہے) اور پھر ایک دن ہم اسے جو کچھ زمین پر ہے ، پٹ کر چٹیل(صاف ، ہموار) میدان کر چھوڑیں گے۔‘‘
قرآن مجید میں ایک اور جگہ اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ زندگی اورموت کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کی آزمائش ہے تاکہ ہم معلوم کریں کہ کون نیک کام کرتاہے ، کون ہمارے احکام وہدایات کی پیروی کرتا ہے ، کون ہمارے متعین کردہ ضابطہ حیات کے مطابق زندگی بسرکرتا ہے اور کون اس سے منہ موڑتا ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُo
’’وہ (اللہ رب العزت) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ لوگوں کی آزمائش ہو کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے اور وہی عزت والا اور بخشش والا ہے۔‘‘ (الملک 2:68)
نفس کی پیروی کرنا بہت بڑی حماقت ہے اور دنیا و آخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ اس نے اپنی کل کی دائمی زندگی کیلئے کیا آگے بھیجا ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں
یٰٓایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (الحشر 18:59)
’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کیلئے کیا آگے بھیجا ہے ، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔‘‘
حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔’’ اے عمر! محاسبہ ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کرلو اور وزن ہونے سے پہلے اپنا وزن کرلو۔‘‘
اسی لیے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے نفس کو بھوکا رکھ کر مارتے اور فرماتے تیری خوراک آگے چل کر ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے بارے میں ہے کہ جب رات کی تاریکی پھیل جاتی توآپ اپنے پاؤں سے ٹھوکر مار کر خود سے سوال کرتے بتا آج تو نے کیا کیا عمل کیے؟
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ جس کے دو دن یکساں گزریں وہ آفت زدہ ہے ۔‘‘ مطلب یہ کہ طالبان حق کا ہر دن انجام کے لحاظ سے پہلے دن سے بہتر اور برتر ہونا چاہیے۔
پھر فرمایا ’’ استقامت پکڑو اور ایک حال پر نہ رہو۔‘‘
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اورکہا ۔’’یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔‘‘ آپ ﷺ نے پوچھا۔’’کیا تو واقعی نصیحت کا طلب گار ہے؟ اس نے کہا ۔’’ہاں ‘‘ تو فرمایا۔’’جب کسی کام کا ارادہ کر لو تو پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح نگاہ ڈالو اورخوب اس کے (دنیا و آخرت ) کے انجام کو سوچ لو، اگر اچھا ہو تو کر گزرو اور اگر برا ہو تو باز آ جاؤ۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کی کہ ’’ اے داؤد ! اپنے نفس کو اپنا دشمن سمجھ کیونکہ میری محبت اس کی دشمنی میں ہے،‘‘
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’نفس کی صفت ہی یہ ہے کہ وہ باطل سے سکون پاتا ہے اور راہ حق سے ہرگز سیر نہیں ہوتا۔‘‘
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’کفر کی بنیاد تیرا اپنے نفس پر قائم رہنا ہے۔‘‘
حضرت سلیمان دارانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’ نفس امانت میں خیانت کرنے والا اور رضائے الٰہی سے روکنے والا ہے اور سب سے بہتر عمل نفس کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
حضرت ابو مالک اشعری کا فرمان ہے کہ ’’ تیرا دشمن وہ نہیں جس کے قتل کرنے پر اللہ تعالیٰ تجھے اجر دے گا بلکہ تیرا اصل دشمن وہ ہے جو تیرے پہلو میں ہے یعنی نفس اور وہ بیوی جس سے تو ہم بستری کرتا ہے اور وہ بیٹا جو تیرے صلب سے پیدا ہوا یہ سب تیرے غالب ترین دشمن ہیں۔’’
ٓ ایک قول ہے کہ انسان کا نفس شیطان سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ شیطان کوبھی اس کے نفس نے گمراہ کیا تھا۔‘‘
حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’ ساٹھ شیطان اتنا فساد برپا نہیں کرتے جتنا ایک برا دوست ایک لحظہ میں کرتاہے اورساٹھ برے دوست اتنا فساد برپا نہیں کرتے جتنا انسان کا نفس ایک لحظہ میں کرتا ہے۔‘‘
برے دوستوں کی مجلس سے بھی بچو اس لئے کہ برے دوست زہریلے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، زہریلا سانپ لڑتا ہے تو جان جاتی ہے اور اگر برا دوست لڑ جائے تو ایمان جاتا ہے۔ اب جان ایمان سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہو سکتی نا؟
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’ جس شخص کو یہ گمان ہو کہ اسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے پھر وہ اپنے نفس کو محبوب جانے اور اس کی پیروی کرے تو وہ شخص جھوٹا ہے۔‘‘
حضرت وہب ابن الورد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ’’ جو شخص شہوت پر غالب ہو وہ فرشتوں پر غالب ہے یعنی وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے کیونکہ فرشتے محض عقل ہیں بغیر شہوت کے اور جس پر شہوت غالب آجائے وہ جانوروں سے بھی بد تر ہے کیونکہ وہ محض شہوت ہے بغیر عقل کے۔‘‘
اللہ رب العزت نے خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ فرمایا
فَاَمَّا مَنْ طَغٰیo وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاo فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰیo وَ اَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰیo (النزعٰت 37..41:79 )
’’تو وہ جس نے سرکشی کی (خواہشات نفس کا تابع ہوا)اور دنیا کی زندگی کو مقدم رکھا(آخرت کی دائمی زندگی اور نعمتوں پر )تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے اور جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا ( یعنی اس نے یقین کر لیا کہ اسے ضرور اپنے رب کے حضور جوابدہی کیلئے حاضر ہونا ہے اوراپنی دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے ) اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا تو بیشک جنت اسی کا ٹھکانہ ہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے دنیا کی زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا
اِعْلَمُوْآ اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَ تَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِکَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہ‘ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا وَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ مِّنْ اللّٰہِ وَ رِضْوَانٌ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo (اللحدید 20:57)
’’(اے لوگو!)جان رکھو کہ دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود (جس میں وقت ضائع کرنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا) اور آرائش اور تمہار آپس میں بڑائی مارنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا، اس مینہ(بارش) کی طرح ہے جس کا اگایا ہوا سبزہ کسانوں کو بھلا لگے پھر سوکھا تو اسے زرد دیکھیں پھر روندا گیا تو ریزہ ریزہ ہو گیااور آخرت میں اس کیلئے ذلت کاعذاب ہے ( اس لئے کہ دنیا کا طالب ہوا اور زندگی لہو و لعب میں بسر کی اور آخرت کی پروانہ کی) اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (اس کیلئے ہے جس نے دنیا کی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کو پسند کیا اور موت کے بعد کیلئے عمل کیا) اور بیشک دنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کامال ہے۔‘‘
ایک دفعہ حضور سید عالم ﷺ اپنے نیازمندوں کی ایک جماعت کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک مردہ بکری دیکھی تو فرمایا۔’’دیکھو ! دنیا کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکری جتنی بھی نہیں ، جس طرح اس بکری کے مالکوں نے اس کے مرنے کے بعد اسے اٹھا کر بے دردی سے باہر پھینک دیا ہے اسی طرح اللہ عزوجل نے بھی اس دنیا کو اٹھا کر اپنے دائرہ رحمت سے باہر پھینک دیا ہے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔
’’ یہ دنیا اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی تو کافروں کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ ہوتا۔‘‘(ترمذی)
حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس سے لگ کر آئی ہے۔‘‘(مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’یہ دنیا ملعون ہے، جوکچھ اس کے اندر ہے ملعون ہے سوائے اللہ کی یاد کے اور جو اس سے تعلق رکھے اور سوائے اس کے جو سیکھے یا سیکھائے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار قبرستان میں سے گزر رہے تھے اور قبروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے ’’ اے ملک عدم کے لوگوں، اے مٹی کے باسیو ! تمہارے گھر تھے سو ان میں اب اور لوگ بستے ہیں، تمہارا مال اور جائیداد اب اوروں میں تقسیم ہو چکی ہے، تمہاری بیویاں تھیں سو اوروں میں بیاہی گئیں۔ ہمارے ہاں کی تو بس یہی خبر ہے، تم سناؤ ! تمہارے ہاں کی کیا خبریں ہیں ؟ تب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا سنو ! اگر آج ان کو بولنے کی اجازت ملے تو تمہیں ضرور بتائیں کہ دنیا سے ساتھ لے جانے کیلئے سب سے قیمتی سامان ’’تقویٰ ‘‘ ہے۔ ‘‘
لہٰذا اے لوگو! ہمیشہ آخرت طلب کرو، دنیا طلب نہ کرو کیونکہ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت، جبکہ آخرت مومن کیلئے جنت ہے اور کافر کیلئے قید خانہ ہے۔جیسے ایک آدمی جب قید میں جاتا ہے تووہ قید خانہ میں کسی سے جھگڑا نہیں کرتا ، فساد نہیں پھیلاتا، سب قیدی آپس میں ایک دوسرے سے نہیں لڑتے بلکہ سکون و اطمینان اور امن واتحاد سے رہتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے ہیں جو ان کا قابض انہیں کہے، اپنی من مانی نہیں کرتے اور ہر وقت اس قید سے چھٹکارہ پانے کیلئے بے تاب رہتے ہیں اور جب آزاد ہوجاتے ہیں تو پھر اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔
لہٰذا کیونکہ دنیا مسلمانوں کیلئے قید خانہ ہے تو اس میں بالکل قیدیوں کی طرح رہو، کسی سے جھگڑا نہ کرو، فساد نہ پھیلاؤ، آپس میں سکون و اطمینان اور امن واتحاد سے رہو ، کیونکہ تمہاری جان و مال ، اولاد سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے اس لیے ہر وہ کام کرو، جو تمہارا قابض تمہیں کہتاہے،اپنی من مانی نہ کرو، اپنے نفس کی پیروی نہ کرو بلکہ اس سے جنگ کرو اور سب کے سب مل کر اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ملک میں فساد نہ پھیلاؤ اور اس قید خانے سے جلد نجات پانے کی آرزو کرو کیونکہ یہ قید خانہ (دنیا ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہے جیسے تمہارا کوئی مردہ پالتو جانور ۔ جب تمہارا کوئی پالتو جانور مر جاتا ہے تو تم اسے اٹھا کر باہرپھینک دیتے ہو، اسی طرح یہ دنیا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مردہ ہوچکی ہے اب اس دنیا کی اللہ عزوجل کے نزدیک ذرا بھی عزت نہیں رہی اور اللہ رب العزت نے اس کو اٹھا کر اپنے رحم و کرم کے دائرہ سے باہر پھینک دیا ہے۔ لہٰذا دنیا طلب نہ کرو اور اگر طلب کرو توا س سے محبت نہ کرو۔ توشہ یہاں سے لو ، آرام گاہ اور ہے۔
جو شخص چاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے جسم کو اپنی خواہش کے خلاف رکھے اس لیے کہ کوئی عبادت بندہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتنا قریب نہیں کرتی جتنا ہوائے نفس کی مخالفت سے قرب حاصل ہوتا ہے ، خواہش کی مخالفت کرنے والا ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب و مقرب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
لا یومن احدکم حتیٰ یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ
’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش ، اس کا ارادہ، اس کی سوچ اس چیز کے تابع نہیں ہو جاتی جسے میں لے کر آیا ہوں۔‘‘
ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مکمل دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات لے کر آئے ہیں اس طرح اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہوا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اس کی تمام خواہشات قرآن و سنت کے تابع نہیں ہو جاتیں ۔ یعنی اپنے دل میں کوئی ایسی خواہش پیدا نہ ہونے دو جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔ اپنے جذبات ، احساسات اور خیالات کو اپنے قابو میں رکھو اور انہیں آزاد مت چھوڑو کیونکہ آزاد خواہشات میں فوراً شیطان شامل ہو جاتا ہے اور ان میں کشش پیدا کرکے انسان کو گمراہی کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی خواہشات کو قرآن وسنت کے احکامات و ہدایات کے تابع کر لے تو پھر اس سے کوئی برائی سرزد ہونے کا امکان نہیں رہتا کیونکہ خواہش نیک ہے تو یقیناًعمل بھی نیک ہوگا۔ عمل ہوتا ہی خواہش اور ارادہ کے مطابق ہے اگر کوئی شخص اپنی خواہشات کو قرآن وسنت کے تابع نہیں کر پاتا تو وہ ایمان کی لذت سے ناواقف رہتا ہے یعنی وہ کبھی بھی مومن نہیں بن سکتا۔ اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ پر ایمان کا تقاضا ہی یہی ہے کہ آدمی اپنی خواہش ، اپنے ارادے اور اپنے قلبی رجحانات کو رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کے تابع کر دے اور قرآن و سنت کے ہاتھوں میں اپنی خواہشات کی لگام دے دے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اس کا اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ پر ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے۔
جب تک تجھ میں ہے شوقِ خود بینی تیرا ذوقِ نماز بے توقیر
بھول جا اپنے آپ کو پہلے زیب دے گی زبان کو پھر تکبیر
 

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 102 Articles with 119038 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More