بظاھر کتابیں لکھنے والے مرچکے ہوتے ہیں لیکن وہ
اپنےالفاظوں میں زندہ رہتے ہیں۔ جب بھی آپ کوئی کتاب پڑھنے کے لیے اٹھاتے
ہیں تو مصنف اپنے الفاظ کے ذریعے آپ سے مخاطب ہو کر آپ کو زندگی کے نشیب و
فراز دکھاتا ہے۔
کتاب ایک ایسا دوست ہے جس کی باتیں ملول نہیں کرتی۔ جب تنہائی میں پڑھی
جائے تو اس کی باتیں انتہائی نفع بخش ہوتی ہے جو غموں کو دور کرنے میں
معاون اور مؤید ہوتی ہے۔ کتاب اپنے علم کے ذریعے ہمیں سابقہ علوم سے مستفید
کرتی ہے عقل و شائستگی اور حکمت و رائے سے نوازتی ہے۔اس میں کوئی اختلاف
نہیں کہ کتاب سے دوستی قوموں کی معاشی، سماجی، سائنسی اور تہذیب و تمدن کی
ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ ارسطو جس کی کتابیں ہزاروں سال بعد بھی علم و آگہی
کا سمندر ہے۔ سکندر اعظم نے اپنے استاد ارسطو کے بارے میں کہا تھا کہ میرا
باپ مجھے آسمان سے زمین پر لے آیا لیکن میرا استاد ارسطو مجھے آسمان پر لے
گیا۔ عزیزانِ من۔ کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتا ہے غور و فکر انسان کو
حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسانی سوچ کو گہرائی اور
وسعت سے نوازتا ہے۔ کتاب کی بزرگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے
کہ پروردگار عالم نے انسانیت کی طرف اپنے آخری پیغام قرآن حکیم کا تعارف
الکتاب کے طور پر کروایا (ذالک الکتاب۔۔۔۔۔۔۔) یعنی یہ کتاب اس میں کچھ شک
نہیں کہ کلامِ خُدا ہے خدا سے ڈرنے والوں کی رہنما ہیں۔ اور کتاب کے ساتھ
ہم مسلمانوں کا ایک خاص تعلق یہ بھی ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو
جب خدا کا پہلا حکم نازل ہوا وہ یہی تھا (پڑھ) اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کی
نوازشات کی انتہا تھی کہ غار حرا کے اس نورانی لمحے نے محمد رسول اللہ کو
علم کا شہر بنادیا اور انہیں ایک عظیم کتاب کا حامل اور مبلغ قرار دیا۔
کتاب جو سعادتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے گویا مسلمان دینی نقطہ نظر سے اور
وراثت کے اعتبار سے صاحب کتاب بھی ہے اور کتاب دوست بھی۔ اور یہ ایک تاریخی
حقیقت ہے کہ مسلمان کتب خانوں کے سلسلے میں ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں۔
یہاں تک کہ مسلمان کتابوں کی خریداری میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے
تھے۔ جب اندلس کے امیر کو معلوم ہوا کہ" ابو الفرج اصفہانی" اپنی مشہور
ادبی کتاب'الاغانی' لکھ رہے ہیں تو اس نے اندلس سے ایک نسخے کی قیمت کے طور
پر ایک ہزار دینار بھیج دیئے اور کہا کہ جونہی کتاب مکمل ہو مجھے بھیج دی
جائے۔ مسلمان اس وقت تعلیم و تعلّم کے اتنے قدردان تھے کہ اس ادبی ذوق اور
علمی روح کو زندہ رکھنے کے لیے تمام عالمِ اسلام میں جگہ جگہ کتب خانے
بنائے گئے تھے۔ اس وقت کتب خانوں کے لیے الگ اور مستقل عمارتیں تعمیر ہوتی
تھی جو متعدد ہالز پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ہر ہال علم کے ایک خاص شعبے کے
لیے مخصوص ہوا کرتا تھا۔ مثلاً ادب کے کتابوں کا ہال، فقہ کی کتابوں کا ہال،
طب کی کتابوں کا ہال یعنی ہر علوم کی کتابیں ایک الگ ہال میں رکھی جاتی تھی۔
وہاں ایسے ہال بھی ہوتے تھے جن میں وہاں کے طلبہ علمی بحث ومباحثہ کیا کرتے
تھے۔ الغرض اس وقت لائبریریوں کی ایک عظیم الشان عمارت ہوتی تھی ہر جگہ سے
لوگ یہاں آتے قیام کرتے اور علوم حاصل کرتے تھے۔ یہاں انہیں ہر قسم کی
کتابیں بکثرت وسہولت فراہم کی جاتی اور اگر کوئی غریب طالب علم آجاتا اور
حصولِ علم اس کا نصب العین ہوتا تو اسے سٹیشنری کے ساتھ ساتھ اخراجات کے
لیے اچھی خاصی رقم بھی دی جاتی تھی۔ عام لائبریریوں میں ملازم رکھے جاتے
تھے جن کے بڑے افسر کو خازن مکتبہ کہا جاتا تھا۔ اس عہدے پر ہمشیہ وقت کے
مشہور علماء میں سے کسی کو مقرر کیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ ترجمہ
کا کام کرتے رہتے تھے جو غیر عربی تصنیفات کو عربی میں منتقل کرتے تھے ان
مترجمین کی قدر اس حد تک کی جاتی تھی کہ خلیفہ ہارون الرشید کاتب "ابنِ
اسحاق" کو ہر اس کتاب کا سونے سے تول کر معاوضہ دیا کرتا تھا جو وہ غیر
عربی زبان سے عربی میں منتقل کرتا تھا۔ عزیزانِ من۔ عوام سے لیکر امراء تک
سارے لوگ علوم و فنون کے قدردان تھے تب ہی تو اسے مسلمانوں کا سنہرا دور
کہا جاتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں کوئی شہر کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جس
میں لائبریری نہیں تھی۔ مثلاً "دارالحکمت" قاہرہ جسے حاکم بامر اللہ نے
قائم کیا تھا۔ اس میں اس قدر عظیم الشان ذخیرہ کتب جمع کیا گیا تھا جو اس
سے پہلے کسی بادشاہ نے جمع نہیں کیا تھا۔ اس لائبریری کے 40 حصے تھے ہر حصہ
18 ہزار کتابوں پر مشتمل تھا جن میں قدیم علوم پر ہر قسم کی کتابیں تھیںاور
وہاں پر علم حاصل کرنے والوں کو اس لائبریری کی جانب سے قلم، دوات اور ہر
طرح کی روشنائی اور کاغذ مہیا کیے جاتے تھے۔ ایسی ہی لائبریریوں میں ایک
بغداد کا"بیت الحکمت تھا جسے خلیفہ ہارون الرشید نے قائم کیا اور مامون
الرشید کے زمانے میں بام عروج کو پہنچا۔ یہ صرف لائبریری نہیں بلکہ ایک
عظیم یونیورسٹی تھی جس میں محقیقین، مفکرین، مطالعہ کرنے والے اور بحث و
استفادہ کرنے والے سب ہی جمع رہتے تھے۔ اس میں ہر وقت مترجمین ان کتابوں کے
ترجموں میں مصروف رہتے جو ہارون الرشید اور مامون الرشید نے انقرہ، عموریہ
اور قبرص کی فتح کے بعدحاصل کی تھی ۔ ابنِ ندیم کہتے ہیں کہ مامون الرشید
اور روم کے بادشاہ کے درمیان ایک وقت میں اس شرط پر صلح ہوئی تھی کہ وہ
اپنے ہاں کے تمام کتابوں کے ترجمے کی اجازت دے گا اور ترجمہ وہ لوگ کریں گے
جنہیں مامون بھیجے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور تمام رومن ذخیرہ علم کو عربی
زبان میں منتقل کردیا گیا۔ یہ تاریخ کی ایک زریں مثال ہے کہ ایک فاتح کی
نظر میں فتح کی اس سے بڑی کوئی قیمت نہیں تھی کہ وہ علوم وفنون کو اپنی قوم
کے افراد تک منتقل کردے۔ اس کے علاوہ اندلس، طرابلس،دمشق، حجاز الغرض ساری
عرب و عجم کی اسلامی دنیا اس وقت علوم و فنون کی کتابوںاور لائبریریوں سے
مزین تھی۔ لیکن اس تذکرے سے ہم جس قدر خوش ہوتے ہیں اس سے زیادہ ہمارے قلوب
محزون و رنجیدہ ہوتے ہے جب ہم یہ یاد کرتے ہے کہ اس قیمتی سرمایے کا انجام
کیا ہوا؟ کس بے دردی سے ان کتابوں کو دریابرد کیا گیا اور کس بے رحمی سے
انہیں جلا دیا گیا؟ علم و دانش کی یہ وہ تباہی اور خسارہ ہے جسے قیامت تک
پورا نہیں کیا جاسکتا۔ جب ان پڑھ تاتاریوں کی تباہ کاریوں کا سیلاب بغداد
میں داخل ہوا تو سب سے پہلے انہوں نے کتب خانوں کا رخ کیا اور جو کچھ بھی
ملا وہ دریائے دجلہ میں پھینکتے گئے جس سے تمام دریا کا پانی مہینوں تک ان
کتابوں کی سیاہ روشنائی کی وجہ سے متغیر ہو کر بہتا رہا۔ مؤرخین لکھتے ہیں
کہ صلیبی جنگجوں میں صرف طرابلس میں 30 لاکھ کتابیں تباہ کئے گئے۔ اور
غرناطہ کے ایک میدان میں ایک دن میں 10 لاکھ کتابیں جلائی گئی۔ عزیزانِ من۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ معدن اسلام کے وہ ذخیرے کیسی بےدردی سے برباد
کئے گئے۔ جس کے سبب آج تک مسلمان مسلسل نشیب میں جارہے ہیں اور اہل مغرب
فراز پر چڑھ رہےہیں۔ کیونکہ آج امریکہ، جاپان، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا
اور اٹلی وغیرہ ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھی اور لکھی جارہی ہیں۔ اور
بدقسمتی سے آج جو دنیا میں 28سے زیادہ وہ ممالک جہاں کتابیں سب سے زیادہ
فروخت ہوتی ہے ان میں سے ایک بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی
بات کریں تو 72 فیصد پاکستانی کتاب سے دوری اور صرف 27 فیصد کتب بینی کے
شوقین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ
کتابوں کا وجود رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا یعنی لڑکیوں
کو جہیز میں کتب خانے دیے جاتے تھے۔ چنانچہ' امام اسحاق بن راہویہ' نے 'سلیمان
بن عبداللہ' کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی کی
جملہ تصانیف پر مشتمل لائبریری مل جانی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے
کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کے منازل طے
کرتی گئی لیکن جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت نے گھیر لیا۔
ساتویں صدی سے تیرہویں صدی عیسوی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ غرناطہ،
قرطبہ اور قاہرہ دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایے تصور ہوتے تھے لیکن
آج علم و ادب سے دوری نے مسلمانوں سے ان کا وقار اور تخت چھین لیا۔ بلآخر
1858 میں جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تو انگریزوں نے لال قلعہ کے شاہی
لائبریری سے بھی ہزاروں کتابیں لندن پہنچا دی۔ آج بھی لندن میں انڈیا آفس
لائبریری اور پیرس لائبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہے ۔ اس
کربناک منظر کا ذکر علامہ محمد اقبال نے کچھ اس طرح کیا۔
وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
|