آئی ایم ایف مذاکرات۔۔ معیشت کودیرپا سہارا مل جائیگا؟

دوست ممالک سے رابطے اُن کا دل کھول کا تعاون اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کوشاں ہے۔پہلے پہل آئی ایم ایف سے چلنے والے بیک ڈور مذاکرات بھی اسی بات کی کڑی ہے کہ ملک کی معیشت کو کسی نہ کسی صورت سہارا دیا جاسکے،وہ الگ بات ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات کیا ہیں؟ اور حکومت کسی حد مانتی ہے اور کس انداز پر عملدرآمد کراتی ہے کہ عوام دل سے قبول کر لے، کیونکہ آئی ایم ایف کا تذکرے سے یہ تاثر عام ہے کہ جیسے کوئی مہنگائی کا طوفان برپا ہونے والا ہے ،وزیرخزانہ اسد عمربارہا کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو نہیں مانا جائے گا، اور عوامی سہولت کو پیش نظررکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ رواں ہفتے آئی ایم ایف سے بات چیت دوبارہ ہوگی ،جب معامالات طے پا جائیں گے تو آئی ایم ایف مشن کو پاکستان بلایا جائیگا،ایف اے ٹی ایف کے ساتھ بات چیت کا نتیجہ آئندہ چوبیس گھنٹوں تک آئے گا،جب تک پروفیشنلز کو موقع نہیں دیں گے ترقی نہیں ہوگی،سرکاری نظام میں ٹیلنٹ سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے باقاعدہ طور پر بات چیت جاری ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیٹا کا تبادلہ ہورہا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ حکومت میں ماہرین کو شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے،پاکستان میں ماہرین کی طلب جلد بڑھنے والی ہے۔اسد عمرنے یہ بھی کہاکہ لیڈرز کے پاس ایک وژن ہوتا ہے،لیڈرز کل کے بارے میں سوچتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پاس ترقی کے بے پناہ صلاحیت ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے لیڈرشپ کی ضرورت ہے جبکہ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری نظام میں ٹیلنٹ سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا اس لئے سرکاری نظام میں بہتری لانا ایک چیلنج ہے۔یہاں یہ بات ہمارے وزیرخزانہ اسد عمر کیلئے قابل غور و فکر ہونی چاہیے کہ بیرونی قرضوں سے ملکی معیشت کو وقتی سہارا تو دیا جاسکتا ہے مگر مستقل نہیں، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں ایکسپورٹ اور ایمپورٹ میں توازن لانے کیلئے کوئی اقدامات کئے جائیں،اُس کیلئے پہلے تسلیم کریں کہ ہم برآمدات پر نہیں درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک میں شامل ہیں، جس کے لئے برآمدات کو بڑھانے کی بات کرنے سے پہلے ہمیں درآمدات کم کرنے کیلئے کوئی پالیسی مرتب کرنا ہوگی، کیونکہ جب درآمدات کم ہونا شروع ہوجائیں گی تو برآمدات خود بخود بڑھنا شروع ہوجائیں گی ، جب ہم دس بوتلوں سے زیادہ بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کیسے برآمدات بڑھ سکتی ہیں ، ہاں درآمدات کو کم کرنے کیلئے یہ ضرور دیکھنا ہوگا ملک میں موجود پہلے سے صنعتوں کو کیسے زیادہ زیادہ سے سہولیات فراہم کی جاسکتیں ہیں کہ ہماری پیداوار میں اضافہ ہو،وہ مصنوعات جنہیں ہمیں درآمدات کرنا پڑتا ہے اُس کو ملک کے اندر کیسے پروڈیوس کیا جاسکتا ہے ،جب ہماری پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا تو معیشت بھی مستحکم ہوگی، بیروزگاری بھی ختم ہوگی ،برآمدات بھی بڑھیں اور درآمدات بھی بدستور کم ہونا شروع ہو جائیں گی، موجودہ صورتحال میں درآمدات پر ٹیکسوں پر ٹیکس لاگو کرنے کا براہ راست منفی اثرات ہماری برآمدات پر پڑیگا، کیونکہ جب تک را میٹریل کو درآمد نہیں کیا جائیگا پروڈیکشن کیسے عمل میں لائی جائیگی درآمدات پر ڈیوٹی لگنے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا تو ہم انٹرنیشنل مارکیٹ میں دیگر ممالک کی مصنوعات سے کیسے مقابلہ کر سکیں گے ،یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقہ تاحال پریشان ہے اور وہ ان تحفظات کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ صنعتی شعبہ میں بجلی و گیس کی زائد قیمتوں کے باعث پاکستانی اشیاء مہنگی ہونے کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی اشیائی کی مانگ میں کمی سے برآمدات کم اور تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے،جبکہ تاجر برادری اور صنعتکار اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ ٹیکس داہندہ کو عزت نہیں دی جارہی اور جب تک ٹیکس داہندہ کو عزت نہیں ملے گی ٹیکس نیٹ کو بڑھایا نہیں جاسکتا۔یہ بہت سنجیدہ پہلوؤں ہیں جن کو نظرانداز کرنے سے ہم اپنی بیمار صنعتوں کو نہیں چلا سکتے، او رنہ اپنی معیشت کو بہتر انداز پر ٹریک پر لا سکتے ہیں، حکومت کو سوچنا ہوگا کہ ایسی صورتحال میں ایم آئی ایف کے پیچھے ڈورنا اس وقت سب سے اہم ہے یا اپنی تاجر برداری اور صنعتکاروں کے تحفظات دور کرنا؟
 

Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 116115 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More