کنکر اور ضائع ہو جانے والے درختوں کے ٹکڑے، سیم بینٹ کے
حیرت انگیز مجسموں کا بنیادی جزو ہیں۔
|
|
لینڈ سکیپ گارڈنر سیم بینٹ ساحلوں پر موجود قدرتی اشیا استعمال کر کے
خوبصورت مجسمے بناتے ہیں۔ ٹارکوائے، ڈیوئن میں ان کے گھر کے نزدیک، کنکر
اور ضائع ہو جانے والے درختوں کے ٹکڑے، ان کے فن کا بنیادی جز ہیں۔ ان کی
عمر اب 26 سال ہے لیکن انھوں نے یہ مجسمے 12 سال قبل سکول میں ہی بنانے
شروع کر دیے تھے۔
|
|
وہ کہتے ہیں ’میرے پاس کبھی بھی ایکس باکس (ویڈیو گیم) نہیں رہی اور جب بھی
میں باہر ہوتا ہوں مجھے اس سے خوشی ملتی ہے۔ میں نے برطانوی مجسموں سے
متعلق کچھ کتابیں پڑھی ہیں، اینڈی گولڈ ورتھ کے متعلق پڑھا ہے اور بس یہ
میرا مشغلہ بن گیا۔ نوجوانی کی طرف قدم رکھتے ہوئے میرا جنون، قدرت سے اپنا
خرچ چلانے کا تھا۔ حتی کہ جب میں سکول میں امتحان دے رہا تھا تب بھی میں
ساحل پر جا کر کچھ بنانا چاہتا تھا۔‘
|
|
لہریں بے شک ان کے فن کو بہا لے جائیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس فن کو
اپنانے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ’ایک لمحے یہ وہاں موجود ہوتا ہیں اور دوسرے ہی
لمحے غائب۔‘ وہ اپنے فن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ پسند ہے کیوں کہ
اگر یہ ٹھیک نہیں بنا تو لہریں اسے بہا لے جائیں گی اور میں کل دوبارہ اسے
بنانے کی کوشش کروں گا۔ اور لہروں کو آتے ہوئے دیکھنا اور چند ہی گھنٹوں
میں ان مجسموں کو بکھرتے دیکھنا، اس میں ایک اپنا ہی لطف ہے۔‘
|
|
ساحل کے کچھ حصوں پر بینٹ اتنے عرصے سے کام کر رہے ہیں کہ انہیں اب کنکر تک
یاد ہوگئے ہیں۔
|
|
اگر ان کا مجسمہ کسی مشہور ساحل پر ہے تو گھر واپس جانے سے پہلے وہ اسے خود
ہی توڑ کر جاتے ہیں تاکہ کوئی زخمی نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر جگہیں
اتنی دور دراز ہیں کہ یہ مجسمے مسئلہ نہیں بنتے۔‘
|
|
دن کا زیادہ تر وقت وہ ساحل پر گزارتے ہیں۔ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں ساحل
کو تباہ کر رہا ہوں۔ لیکن میں کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا اور نہ ہی
میں کوڑا کرکٹ پھیلا رہا ہوں اور چند ہی گھنٹوں میں یہ سب غائب بھی ہو جاتا
ہے۔‘
|
|
وہ کہتے ہیں ’ میں خبریں پڑھتا رہتا ہوں اور دنیا میں بہت غم ہیں۔ اگر میں
یہ مجسمے نہ بناؤں تو میرے لیے یہ سب سہنا مشکل ہوگا۔‘
|
|
’ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جسے ہم تباہ کر رہے ہیں
اور میری کوشش ہے کہ اس میں کچھ ایسا خوبصورت اضافہ کروں، جو بے شک صرف
پانچ منٹ کے لیے ہی لوگوں کو خوشی دے سکے۔‘ |