ہم سب کا مان ہے

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کہ ناحق پروانے کا خوں ہو جاۓ گا شُعرا کے دماغ کے بھی کیا کہنے سوچنے اور لکھنے بیٹھیں تو جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، جہاں عام انسان کی سوچ گمان بھی نہیں کر سکتی۔شاعر نے کس خوبصورتی سے دو مصرعوں میں الف سے ے تک بیان کردیا ہے لیکن اس خوبصورتی کو سمجھ اور محسوس وہی کر سکتا ہے جو اردو شاعری کی الف ب سے واقف ہو۔دورِ جدید کے انگلش میڈیمکے پڑھے ہوے بچے تو شایٸد اسے صحیح تلفظ سے پڑھ بھی نہ پایٸں ۔ان کے روبرو اس شعر کو پڑھا جاۓ اور مطلب و مفہوم بیان کرنے کو کہا جاۓ تو پلکیں ہی جھپکتے رہ جایٸں کچھ تو شایٸد اسے اردو زبان ہی نہ تسلیم کریں اس میں قصور انکا بھی نہیں موجودہ نصاب اور طریقہ تدریس کی بدولت ہی تو وہ اس نہج پر پہنچے ہیں۔اپنی پیاری قومی زبانکی حالت اس قدر مخدوش ہو چکی ہے کہ اندیشہ لاحق ہو رہا ہے کہ کسی دن منہدم ہو کر اس جہانِ فانی سے کوچ ہی نہ کر جاۓ۔آج کل تو یہ صورتِ حال ہے کہ دسویں جماعت کا بچہ بھی اگر کسی دن غلطی سے اردو کی کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دے اور پاس کوٸ بزرگ تشریف فرما ہوں تو بچے کاتلفظ سن کر یہی اندیشہ رہتا ہے کہ بزرگ کا بلڈ پریشر انتہا کو پہنچ جاۓ گا یا پھر بزرگکا دلِ ناتواں ہمت چھوڑ بیٹھے گا ۔لیکن کیا کہنے آج کے بزرگان کے بھی ، کس قدر اعلیٰ ظرف ہیں۔بچے کی اردو سنکر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔اردو میں گفتگو کے دوران محاورات کا استعمال اپنے مقصد یا مفہوم کو بہتر طریقے سے بیان کرناہوتا ہے اس طرح اندازِگفتگو میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے لیک کیا کیا جاۓ کہآج کی نسل اُردو کواپنے طرزِ بیاں سے مضحکہ خیز بنانے کے در پے ہے۔ باقی آیٸندہ
 

Tahira Afzaal
About the Author: Tahira Afzaal Read More Articles by Tahira Afzaal: 15 Articles with 15770 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.